مرکزی عنوان پر ہونے والے مذاکرے میں ہالینڈ کے نو مسلم دانشور اور سیاسی رہنما یوران وین کیلورسن کا خطاب بہت پر اثر تھا
امریکی تحریکِ اسلامی ’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ‘ (اکنا) کے جنوب وسطی ریجن کا علاقائی اجتماعِ عام 24 سے 26 نومبر تک ریاست ٹیکساس کے سب سے بڑے شہر ہیوسٹن میں ہوا۔ یہ ریجن ٹیکساس (Texas)، لوزیانہ (Louisiana)، اوکلاہوما(Oklahoma) اور آرکنساس (Arkansas) ریاستوں پر مشتمل ہے۔ یہ چارو ں ریاستیں ریپبلکن پارٹی کے مضبوط گڑھ ہیں اور یہاں قدامت پسندوں کی اکثریت ہے۔ ٹیکساس امریکہ کی سب سے پھلتی پھولتی ریاست ہے جہاں شہریوں کی آمدنی پر ریاستی ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ رقبے کے اعتبار سے الاسکا کے بعد امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہونے کی وجہ سے یہاں کشادگی غالب ہے۔ اسی بنا پر امریکہ کے دوسرے علاقوں سے کئی کارپوریشنیں اپنے صدر دفاتر اور کارخانے ٹیکساس لارہی ہیں۔ اس ریاست کی 2018 کلومیٹر طویل سرحد میکسیکو سے ملتی ہے، اس لیے غربت و بدامنی کے ستائے لاطینی امریکہ کے لاکھوں افراد خوشی اور خوشحالی کی تلاش میں اسی سرحد سے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں۔ مکانوں کی قیمت دوسرے شہروں کی نسبت کم ہونے کی بنا پر ہیوسٹن میں رہائشی اخراجات خاصے کم ہیں۔ ٹیکساس کو Oil Capital of the Worldکہا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے تیل اور خدمت رساں اداروں کے صدر دفتر یہاں واقع ہیں۔ اور تو اور سعودی قومی تیل کمپنی آرامکو کا بھی ایک بہت بڑا دفتر ہیوسٹن میں ہے۔ اس کے علاوہ طبی سہولتوں کے اعتبار سے بھی ہیوسٹن کو دنیا میں امتیازی مقام حاصل ہے۔
اس علاقے میں خواتین سمیت اکنا کے ارکان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے، جو زیادہ تر ہیوسٹن اور ٹیکساس کے دوسرے بڑے شہر ڈلاس (Dallas) کے رہائشی ہیں۔
نومبر کی آخری جمعرات کو شکر گزاری (Thanksgiving) کا تہوار منایا جاتا ہے، اور جمعرات سے اتوار تک تعطیل رہتی ہے۔ چنانچہ تین روزہ کنونشن کا آغاز 24 نومبر کو نماز جمعہ کے ساتھ ہوا۔ ہفتہ اور اتوار کو فجر کی نماز کے بعد تذکیر کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ میریٹ ہوٹل میں ہونے والے اجتماع میں خواتین اوربچوں سمیت 5ہزار کے قریب افراد نے شرکت کی۔کنونشن کا مرکزی خیال یا theme ’’عقیدہ، خاندان اور الہامی ہدایات کی روشنی میں کامیاب مستقبل‘‘ تھا۔ امریکہ بھر کے اسکالرز، علما اور سیاسی کارکنوں کے علاوہ ہالینڈ سے آئے ہوئے مسلم مخالف فریڈم پارٹی کے سابق رہنما اور ممتاز دانشور یورام وین کلیورسن (Joram van Klaverson)نے شرکت کی۔
افتتاحی اجلاس میں گفتگو کرتے پوئے جناب یورام نے اپنے اسلام لانے کو تاریکی سے روشنی کا سفر قرار دیا۔ انتہائی شستہ انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میں انتہائی متعصب فریڈم پارٹی کا منتخب رکنِ پارلیمان تھا۔ اسلام سے مجھے شدید نفرت تھی۔ جستجو و تحقیق سے میری رغبت کو دیکھتے ہوئے احباب نے مجھے اسلام کے بارے میں ایک کتاب لکھنے پر آمادہ کرلیا۔ جب مواد جمع کرنے کے لیے میں نے انجیل کا مطالعہ شروع کیا تو اندازہ ہواکہ حضرت عیسیٰؑ نے ہمیشہ ایک اللہ کی دعوت دی تھی اور کہیں بھی خود کو خدا کا بیٹا نہیں کہا۔ اسی کے ساتھ میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ شروع کیا جو میرے خیال میں نعوذباللہ نبوت کے جھوٹے دعوے دار تھے۔ سیرتِ پاک سے مجھ پر واضح ہوا کہ ان کے دشمن اور ان کا تمسخر اڑانے والے بھی نہ صرف ان کو زبان سے صادق اور امین کہتے تھے بلکہ قیمتی اشیا ان کے پاس بطور امانت رکھواتے تھے۔ اس دوران ایک عجیب واقعہ ہوا۔ میرے گھر میں کتابوں کا شیلف ٹوٹ گیا جس پر قرآن کا نسخہ بھی تھا۔ جب میں اسے اٹھانے کے لیے جھکا تو میرا ہاتھ قرآن کے نسخے پر اس طرح پڑا کہ سورہ حج کی وہ آیت میرے سامنے آگئی جس کا ترجمہ کچھ اس طرح تھا کہ ’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں‘‘ (سورہ الحج آیت 46)، یہ آیت دیکھ کر بے اختیار میرے دل سے دعا نکلی کہ اے ’’حقیقی اللہ‘‘ مجھے صحیح راستہ دکھادے، اور آپ کے رب نے ایک ایسے شخص کو راستہ دکھا دیا جو اسلام کے خلاف کتاب لکھنے بیٹھا تھا۔‘‘
اکنا کے مرکزی رہنما مصطفیٰ وہائٹ نے نومسلموں کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ امریکہ میں اسلام قبول کرنا آسان نہیں۔ نومسلم معاشرے سے کٹ جاتا ہے، رشتے ختم ہوجاتے ہیں، دوست ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں مسلم کمیونٹی کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کی لاپروائی سے قادیانی تحریک نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ نومسلموں کے لیے جاء نماز، مبارک باد، تکبیر کے نعرے اور قرآن کا نسخہ کافی نہیں، ہمیں رفاقت چاہیے۔ نومسلم کسی طرح کمتر نہیں۔ ابوبکرؓ و عمرؓ سمیت تمام صحابہ کرام اپنے وقت کے نومسلم تھے۔ ‘‘
ہفتے کی صبح سرگرمیوں کا آغاز نمازِ فجر سے ہوا، جس کے بعد امام قاسم نے دعوت کی اہمیت پر پُراثر خطاب کیا۔ قاسم صاحب نے بہت دردمندی سے کہا ’’پیدائشی مسلمانوں کے لیے اسلام محض ایک عقیدہ ہے جو آپ کو وراثت میں مل گیا، لیکن میرے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب کچھ ہیں۔ ہم نے زندگی کا بڑا حصہ شرک کی ذلتوں میں گزارا ہے۔ اللہ کی مہربانی کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے ہمیں اس گڑھے سے نکال کر عزت عطا فرمائی۔ یہ ہم پر ہمارے نبی کا بہت بڑا احسان ہے۔ دوستو! آقاؐ کا ارشاد ہے ’’وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اسے اپنے لیے محبوب ہے‘‘۔ مجھے اللہ کا دین سب سے محبوب ہے، اس لیے میری خواہش ہے کہ میری پوری قوم اس دین کو اختیار کرلے، یہی شہادتِ حق کا تقاضا ہے۔ پردہ وحجاب، ذبیحہ گوشت وحلال خوراک بہت ضروری، لیکن امریکی معاشرے کو امید و اعتماد کی ضرورت ہے۔ جب پیٹ خالی ہو تو اخلاقیات کے لیکچر سمجھ نہیں آتے۔ لوگوں کی ضرورتیں پوری کرو، مشکل میں کام آئو، اور سب سے بڑھ کر بہتری کی امید پیدا کرو۔ ہمارا کام مسلمان بنانا نہیں، صرف پیغام پہنچانا اور اپنے کردار سے شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنا ہے۔ ہدایت ہمارا رب عطا کرتا ہے۔‘‘
ہفتے کی دوپہر مسئلہ فلسطین پر مذاکرہ تھا۔ ہال کھچاکھچ بھرا اور ہر چہرہ شدتِ جذبات سے تمتمایا ہوا تھا۔ سیاسی امور کے ماہر محمد حبیبہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’نفرت ہم نہیں پھیلا رہے، بلکہ ہمارے خلاف پھیلائی جارہی ہے۔ امریکی سیاست دان کہہ رہے ہیں کہ تل ابیب کے تحفظ کے لیے مظلومین کی نسل کُشی ضروری ہے۔ لیکن صورتِ حال تبدیل ہورہی ہے، امریکی عوام معاملات کو سمجھ رہے ہیں، حتیٰ کہ صدر بائیڈن کی مقبولیت زمین پر آلگی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے، ہمیں اس ملک میں مؤثر سیاسی کردار اداکرنا ہوگا۔ گھر اور مساجد آنے والے امیدواروں کو باور کرا دیں کہ اب ہم چھوٹی برائی، بڑی برائی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیں گے۔ ہم اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں گے۔ رائے عامہ کی تبدیلی میں بائیکاٹ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اسے جاری رکھیں اور مؤثر بنائیں۔ عرب اور مسلم حکومتوں سے شکوہ غیرضروری ہے، امریکی مسلمان تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب ہم فلسطینیوں کے ساتھ کشمیریوں، برمی بھائیوں اور اویغوروں کو بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے اور واشنگٹن کو معقولیت کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کردیں گے۔‘‘
ممتاز عالم ڈاکٹر یاسر قاضی اپنے مخصوص لہجے میں بولے ’’بچے ذبح ہورہے تھے اور ہمارے وزیرخارجہ (انتھونی بلینکن) عرب ملوک و شیوخ کے پاس گئے، اور گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ وحشت کے خلاف اپنے ملک میں آواز نہ اٹھنے دو۔ زمین پر انتہائی محترم لوگ اس لیے گرفتار کرلیے گئے کہ انھوں نے مظلوموں کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے تھے۔ جناب بلینکن! آپ ان کی زباں بندی کرسکتے ہیں لیکن میری نہیں، ہم آواز بلند کرتے رہیں گے، ہر سطح پر آپ کا تعاقب کریں گے۔‘‘
اپنے صدارتی خطاب میں اکنا کے مرکزی امیر ڈاکٹر محسن انصاری نے کہا کہ ’’یہ نہ نائن الیون ہے، نہ یہ سال 2001ء۔ امریکی مسلمان اب ایک قوت ہیں۔ سی این این کا جھوٹ چلے گا اور نہ امریکی سیاست دانوں کی چال بازیاں۔ اب ہم یہاں ہر چوک، چوراہے اور شاہراہوں پر ہیں۔ امریکی مسلمان متحد ہیں۔ ایک دو دن یا ایک دو سال کی بات نہیں، امریکی مسلمان ایک طویل جدوجہد کے لیے پُرعزم ہیں۔ بچوں کے لہو نے دلوں کے دروازے کھول دیے ہیں، قرآن کی طلب بڑھ گئی ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ دینِ مبین میں ایسی کیا بات ہے کہ بچہ بچہ حق و انصاف کے لیے سینہ سپر ہے۔‘‘
اجتماع کے دوران مرکزی عنوان پر ہونے والے مذاکرے میں ہالینڈ کے نو مسلم دانشور اور سیاسی رہنما یوران وین کیلورسن کا خطاب بہت پُراثر تھا۔ یوران صاحب نے کہا کہ ’’1900ء میں 98 فیصد ولندیزی خود کو مسیحی کہتے تھے، یہ تناسب اب 25 فیصد رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی سے آنے والا سیکولرازم کا سیلاب ہے۔ برقع سمیت پبلک مقامات پر کسی بھی مذہبی شناخت کی نمائش و اظہار غیر قانونی ہے۔ مذہب بیزاری کے ہونکے میں انسانی تاریخ بھی نہیں پڑھائی جاتی۔‘‘ اس حوالے سے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’درس و تدریس کے دوران وہ ہائی اسکول کے طلبہ کو مطالعاتی دورے پر ایک میوزیم لے گئے جہاں حضرت آدم اور حضرت حوا کا مجسمہ نصب تھا۔ اس دوران طلبہ نے فنِ مجسمہ کی تعریف تو کی لیکن انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ آدم و حوا کون تھے۔
ہالینڈ میں مدارس اور مساجد سمیت تمام مذہبی اداروں کے لیے LGBTیعنی ہم جنسی کے رجحان کو معمول کے مطابق ایک ناقابلِ اعتراض رویہ تسلیم کرنا لازمی ہے اور اس سے انحراف پر تنظیم کو غیر قانونی قرار دے کر تمام اثاثے ضبط کیے جاسکتے ہیں۔‘‘
اسلامی تحریک کے لیے مواقع اور امکانات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’مذہب سے عدم دلچسپی اپنی جگہ، لیکن خاندانی نظام کی بربادی سے عام یورپی بہت پریشان ہے۔ تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی میں عمررسیدہ لوگ تنہائی کا شکار ہورہے ہیں۔ ساری مغربی دنیا خاندانی نظام کی تباہی کے نقصانات کو محسوس کررہی ہے، حتیٰ کہ برطانیہ کی سابق وزیراعظم محترمہ ٹریسا مے نے اپنی کابینہ میں وزارتِ تنہائی (Ministry of Loneliness) کا قلمدان تراشا۔‘‘
جناب یوران نے کہا کہ ’’ہالینڈ کی زیادہ تر مسلم تنظیمیں مدارس بورڈ اور مسجد کمیٹی کے طور پر کام کررہی ہیں اور یہاں تحریکی کام اور مزاج سازی کا فقدان ہے۔ جناب یوران کا کہنا تھا کہ مجھے امریکہ میں اکنا کے کام کو دیکھ کر خیال پیدا ہوا کہ خاندانی نظام کی تجدید کے لیے ہالینڈ میں گاڈ، فیملی اینڈ کمیونٹی یا GFCکے عنوان سے ایسی ہی ایک شعوری تحریک اٹھانے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد قرآن کی اس ایئت پر ہونی چاہیے کہ ’’بلائو لوگوں کو اللہ کی طرف دلنشیں نصیحت اور حکمت کے ساتھ‘‘۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹوئٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔