ہمارے رفقا اور ہم خیال اصحاب کے حلقے میں اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے طوفان سے ایک اضطراب پیدا ہوگیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اشتراکی تحریک اب روس کی کامیابی کی بدولت بہت زور پکڑ گئی ہے اور حکومت نے اپنی مصلحتوں کی خاطر اسے قوت حاصل کرنے کا جو موقع دیا ہے وہ بھی اس کے لیے کافی مفید ثابت ہوا ہے‘ لیکن ان چیزوں سے مضطرب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ اور اضطراب کے ساتھ اگر کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ فائدہ مند ہونے کے بجاے اُلٹا مضر ثابت ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ اشتراکیت عوام کے سفلی جذبات اور ان کی خواہشات نفس سے اپیل کرنے کی بنا پر آگ کی طرح پھیلنے کی خاصیت رکھتی ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ایک مدتِ دراز سے اس کا مسلسل پروپیگنڈا ہوتا رہا ہے‘ اس کے پاس ایک بہت طاقت ور لٹریچر ہے اور کثیرالتعداد کارکن موجود ہیں‘ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کی بہت کامیاب اشاعت ہوچکی ہے اور ایک عظیم الشان سلطنت اس کی علم بردار ہے جسے تازہ فتوحات نے غیرمعمولی اثر اور رسوخ بخش دیا ہے‘ ان وجوہ سے یہ بہت زیادہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ ایک مرتبہ یہ تحریک ایک سیلاب کی طرح ہمارے ملک اور دوسرے بہت سے ملکوں پر چھا جائے گی۔ لیکن ان پہلوئوں کے ساتھ بعض دوسرے پہلو بھی ہیں جنھیں ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔
ہندوستان میں اور اس طرز کے غلام ذہنیت رکھنے والے ملکوں میں اس تحریک کی ترقی کا انحصار تمام تر روس کی طاقت پر ہے۔ جس وقت روس جرمنی سے پِٹ رہا تھا آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس وقت ہندستان میں اشتراکیت بھی دم توڑ رہی تھی۔ جب روس ازسرِنو سنبھل کر اٹھا اور جرمنی کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرتا چلا گیا تو یہاں بھی اشتراکیت کے جسم میں روح دوڑنے لگی۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالنا صحیح ہے کہ اشتراکیت کا گرنا اور اٹھنا روس کے دامن کے ساتھ بندھا ہوا ہے لیکن روس کا حال یہ ہے کہ اب وہ ایک بین الاقوامی اشتراکی تحریک کی پوزیشن سے ہٹتے ہٹتے ٹھیک اس مقام پر آ رہا ہے جہاں نازی جرمنی کھڑا تھا‘ یعنی اس کی اشتراکیت اب قوم پرستانہ اشتراکیت (National Socialism) ہے اور وہ بہت تیزی کے ساتھ قیصریت (imperialism) کے میدان میں امریکا اور انگلستان کا حریف بن رہا ہے۔ یہ چیز ممکن ہے کہ روس کی قیصریت کو اتنی جلدی نہ لے بیٹھے لیکن ایک بین الاقوامی تحریک کی حیثیت سے اشتراکیت کو یقیناً لے بیٹھے گی۔
(’’جماعت اسلامی کے پہلے کل ہند اجتماع کی روداد‘‘،خطاب سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۶‘ عدد ۳-۶‘ ربیع الاول تا جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ‘ مارچ تا جون ۱۹۴۵ء‘ ص ۱۵۸)
مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے
نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔