ملک میں عام انتخابات قریب سے قریب آ رہے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی طرف سے اعلان کردہ 8 فروری کی تاریخ صرف دو ماہ کے فاصلے پر ہے۔ الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کی تفصیل جاری کردی ہے۔ دیگر انتظامات بھی تیز رفتاری سے مکمل کیے جارہے ہیں۔ انتخابی فہرستوں کی طباعت کا کام نادرا میں شروع ہوچکا ہے، جب کہ طبع شدہ فہرستوں کی متعلقہ حلقوں میں ترسیل بھی ساتھ ساتھ ہورہی ہے۔ انتخابی مراکز پر عملہ کی تعیناتی، امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے فوج اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی کے لیے الیکشن کمیشن سیکرٹری داخلہ، جب کہ مالی وسائل کی فراہمی کے لیے سیکرٹری خزانہ سے رابطہ کرچکا ہے۔ انتخابات میں کسی بھی وجہ سے تاخیر کے بارے میں شکوک و شبہات کے ازالے کی خاطر الیکشن کمیشن بار بار یقین دہانیاں کروا رہا ہے جن کے پیش نظر سیاسی جماعتوں نے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز بھی کردیا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ کسی مزید تاخیر کے بغیر ملک میں عوام کو اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا موقع فراہم ہوجائے گا تاکہ وطنِ عزیز سیاسی و معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ مصورِ پاکستان، شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا:
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
پاکستان میں بھی بظاہر یہی طرزِ جمہوریت رائج ہے، جس میں بظاہر بندوں کی گنتی ہی عمل میں لائی جاتی ہے، مگر اب یہ حقیقت بھی کوئی راز نہیں رہی کہ پسِ پردہ بندوں کو مقتدر قوتوں کے مفادات و مقاصد کے ترازو میں تول کر اوپر لایا اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ ماضی کے تجربات اور آج کے حالات کی روشنی میں یہ تاثر عام ہے کہ فروری کے انتخابات کا مقصد بھی الیکشن نہیں سلیکشن ہے۔ مقتدر قوتوں نے حالات اور مفادات کی خاطر ترجیحات تبدیل کرلی ہیں، کل کے محبوب آج معتوب قرار پائے ہیں، جب کہ کل کے معتوب ایک بار پھر محبوب ٹھیرے ہیں۔ کسی کو یاد ہے نہ احساس ہے کہ وہ ماضی میں کس کے بارے میں کس طرح کے خیالات و جذبات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے ماضی کو فراموش کرکے مستقبل میں مفادات اور اقتدار کے حصول کی جدوجہد بگٹٹ جاری ہے۔ اس سارے عمل میں سب سے افسوسناک اور تکلیف دہ کردار عدالتوں کا ہے جن کا بنیادی فرض عوام کو عدل و انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے، مگر بدقسمتی سے ان کے اب تک کے کردار کی روشنی میں ان کے بارے میں عمومی رائے یہ بن چکی ہے کہ یہ حقائق و دلائل اور آئین و قانون کی روشنی میں عدل اور انصاف کی فراہمی سے زیادہ مقتدر قوتوں کے مقاصد کی تکمیل کی خاطر آلۂ کار کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں، چنانچہ جن کو چند برس قبل عدالتوں کی طرف سے بدعنوان، ظالم اور سسلین مافیا قسم کے القابات سے نوازا گیا تھا، آج عدالتیں انہیں معصوم اور بے گناہ قرار دے رہی ہیں، ان کے خلاف قائم سنگین نوعیت کے مقدمات ختم کیے جا رہے ہیں، سزائیں معاف ہورہی ہیں اور برسوں سے زیر التوا معاملات میں دنوں بلکہ گھنٹوں میں باعزت بری کے سرٹیفکیٹ جاری ہورہے ہیں، اس کے برعکس جن کو کل ’’صادق اور امین‘‘ کی اسناد اعلیٰ عدالتوں سے جاری کی گئی تھیں آج وہی خائن و بددیانت بتائے جارہے ہیں۔ ان کے خلاف تھوک کے حساب سے مقدمات کا اندراج کیا جارہا ہے، عدالتیں بار بار ضمانت پر رہائی کے احکام جاری کرتی ہیں مگر انہیں احاطۂ عدالت ہی میں کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار کرکے پس ِدیوارِ زنداں بھیج دیا جاتا ہے۔ عدل و انصاف کے ایوانوں میں ایک عجیب و غریب تماشا دعوتِ نظارہ دے رہا ہے اور عدالتیں بے بس تماشائی سے زیادہ کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ درج ذیل شعر حالات کی صحیح تصویر کشی اور عکاسی کرتا محسوس ہوتا ہے:
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ملک و قوم کا حقیقی درد رکھنے والے درویش منش، مخلص اور خدمت گزار رہنما جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق نے بجا طور پر قوم کو متوجہ کیا ہے کہ ملک کی سیاسی فضا اس وقت شدید نوعیت کی اسموگ کی زد میں ہے۔ صرف جماعت اسلامی ہی اس سیاسی آلودگی کا خاتمہ کرکے وطنِ عزیز کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتی ہے، اس لیے عوام سیاسی اسموگ سے فضا کو پاک اور صاف کرنے کے لیے 8 فروری کو باکردار، باصلاحیت، امانت و دیانت کے پیکر اور خدمت کے خوگر لوگوں کو منتخب کریں۔ پشاور میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پون صدی سے زائد زندگی میں ملک کو ایک دن بھی قرآن و سنت کا مبارک نظام اور حقیقی جمہوری راج دیکھنے کو نہیں ملا، حکمرانوں نے ملک کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں کی ڈکٹیشن کا اس قدر غلام بنادیا ہے کہ یہاں قومی زبان اردو رائج کی جاسکی اور نہ ہی مقابلے کے امتحانات اپنی ملکی قومی زبان میں لینے کی اجازت آج تک دی گئی ہے، سابق حکمرانوں نے اقتدار میں آکر بار بار عوام کو دھوکا دیا، یہ خود اور ان کے حواری تو ارب پتی بن گئے مگر قوم کھربوں روپے کی مقروض ہوگئی، اس کے باوجود نہایت ڈھٹائی سے یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ ایک دھیلے کی بددیانتی نہیں کی۔ سیاسی جماعتوں کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنا لیا گیا ہے جن کی قیادت انتخابات کے ذریعے اہل اور با صلاحیت افراد کو منتقل ہونے کے بجائے وراثت قرار پائی ہے جس پر اہلِ خاندان کے سوا کسی دوسرے کے حق کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ عوام کو ایک اور موقع دے رہا ہے کہ وہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔ باپ بیٹے اور باپ بیٹی کے تماشے سے جان چھڑائیں۔ بڑی ہونے کی دعویدار موروثی، خاندانی سیاسی جماعتوں سے نجات پائیں۔8 فروری کو مراعات یافتہ طبقات اور قومی سرمایہ لوٹ کر بیرونِ ملک منتقل کرنے والے بدعنوان عناصر کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور برس ہا برس سے قومی خزانے کو بے دردی سے چوسنے والی جونکوں کے خلاف متحد ہوکر ان سب کا احتساب یقینی بنائیں۔ ہر ہر حلقۂ انتخاب میں اعلیٰ کردار کے حامل، مخلص، دیانت دار، خدمت گزار اور دین دار نمائندوں کا دامے، درمے، سخنے ساتھ دے کر ملک کا مستقبل روشن و تاب ناک بنائیں۔ 8 فروری ایک بہترین موقع ہے، اسے ضائع نہ ہونے دیں۔ (حامد ریاض ڈوگر)