چاہے جس نام سے ہو، نام میں کیا رکھا ہے

پچھلے دنوں اُردوکے ایک پرچے پر نظرپڑی۔ ’پرچے‘ کا لفظ اخبارات کے لیے شاید اب استعمال نہیں ہوتا۔ پہلے خوب استعمال ہوتا تھا۔ آج کل پرچہ کم استعمال ہوتا ہے ’پرچی‘ زیادہ استعمال ہوتی ہے، سفارشی چٹھی کے طور پر۔ پرچہ یوں تو کاغذ کے ٹکڑے کو کہتے ہیں، مگر اخبار کے علاوہ یہ رقعہ، خط، خبر اور پیغام کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ شاہی ہرکارے کسی واقعے کی رُوداد اپنے دفتر میں جمع کراتے تو اُس تحریر کو بھی پرچہ کہتے تھے۔ کسی کے خلاف’رپٹ لکھوانا‘ بھی پرچہ کٹوانا کہلاتا تھا۔ امتحانی سوالات پرمشتمل کاغذ کو شاید آج بھی ’پرچۂ امتحان‘ ہی کہا جاتا ہے۔ مخبروں کو ’پرچہ نویس‘ کہتے تھے اور’ مخبری‘ کو پرچہ گزارنا‘۔ امیرؔ مینائی خزاں کی مخبری کرتے ہوئے کہتے ہیں:

خزاں غافل نہیں ہے اے جوانانِ چمن تم سے
نہیں اُڑتے ہیں پتے، یہ اُسے پرچے گزرتے ہیں

اُردوکے جس پرچے پر نظر پڑی تھی، اُس میں ’آسماں خراش‘ عمارتوں کا ذکر تھا۔ صاحبِ مضمون نے شاید ‘Sky Scraper’ کا ترجمہ ’آسماں خراش‘ کیا تھا اور بالکل ٹھیک کیا تھا۔ ‘Scraper’ چھیلنے، رگڑنے، مانجھنے اور خراش ڈالنے والی چیز کو کہتے ہیں۔ مگر اُردو کا مزاج اتنا کھردرا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ان بلند و بالا عمارات کو آسماں خراش نہیں، ’آسماں بوس‘ کہتے ہیں۔ ہماری عمارتیں آسمان پر خراش ڈالنے کو نہیں، اسے بوسہ دینے کو اوپر لپکتی ہیں۔ یہ بات شاید آسمان کو بھی معلوم ہے۔ لہٰذا ہماری عمارتوںکے ساتھ وہ خود بھی یہی سلوک کرتا ہے۔ ان کی پیشانی کو جھک کر چومتا ہے آسماں۔ آسمان سے چوماچاٹی کرنے والی ان عمارتوں کو ’فلک بوس‘ عمارات بھی کہا جاتا ہے۔

فلک بوس پر یاد آیا کہ راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوکر سید پور گاؤں تک جانے والی ایک قدیم سڑک سید پور روڈ ہوا کرتی تھی۔ سڑک تو اب بھی ہے، مگر اب اسلام آباد میں داخل نہیں ہوپاتی۔ ’پنڈوراچنگی‘ پر پڑی حسرت سے اسلام آباد کو تکتی رہتی ہے۔ ایک تیز رفتار شاہراہ نے اس کا رستہ کاٹ دیا ہے۔ اسی قدیم سڑک پر فلک بوس عمارتوں کے درمیان نیچی اور اکہری چھت کی ایک عمارت تھی۔ اس عمارت کے احاطے میں سنگ ہائے رنگا رنگ کی سنگین تختیاں سجی رہتی تھیں۔ رنگین پتھروں کی اس فروش گاہ کا نام تھا ’’عجائباتِ سنگ‘‘۔ اب یہ نام خود ایک عجوبہ معلوم ہوتا ہے۔ آج کا تاجر نام رکھتا تو شاید ‘Wonders of Stone’رکھتا اور کہتا ( بقول آنند نرائن ملا):

دیکھنا یہ ہے کہ وہ دل میں مکیں ہے کہ نہیں
چاہے جس نام سے ہو، نام میں کیا رکھا ہے

قومی زبان میں نام رکھنا اب بے رواج ہوچکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان ناموں کو اب یہاں سمجھے گا کون؟ مگر جب ہمارے ہاں اُردو ناموں کی جگہ انگریزی نام رکھے جارہے تھے تو نام رکھنے والوں کو انگریزی نام رکھتے وقت کوئی جھجک نہیں ہوئی۔ وہ کبھی نہ ہچکچائے کہ سات سمندر پار کی ایک غیرملکی زبان کے اجنبی ناموں کو یہاں سمجھے گا کون؟ پھر کثرتِ استعمال سے ساری اجنبیت، اُنسیت اور مانوسیت میں بدل گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ اُردو کے لیے قائم کیے جانے والے اِدارے کا نام ’مقتدرہ قومی زبان‘ رکھا گیا تو اغیار نے نہیں، خود ہماری قوم کے اربابِ اختیار نے اعتراض کیا ’’اِس نام کو سمجھے گا کون؟ کس کی سمجھ میں آئے گا؟‘‘ چناں چہ قوم کے اربابِ اختیار کو سمجھانے کی خاطر اِس کا سرکاری نام “National Language Authority” رکھا گیا۔ مگر سمجھے وہ پھر بھی نہیں۔ یا شاید خوب اچھی طرح سمجھ لیا۔ سو، اب اس ادارے سے اس کا اختیار و اقتدار چھین لیا گیا ہے،’Authority’سلب کرلی گئی ہے۔ اسے حکومتِ پاکستان کا ایک ’بے اختیار شعبہ‘ بنا دیا گیا ہے۔ ادارے کا نام بدل کر’National Language Promotion Department’ رکھ دیا گیا ہے۔ ہماری بااختیار نوکر شاہی کا احسانِ عظیم ہے کہ انھوں نے’National Language’ میں بھی اس کا ایک نام رکھ دیا ہے ’ادارہ فروغِ قومی زبان‘۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بصرفِ زرِ کثیر کی جانے والی ان حرکتوں سے ’قومی زبان‘ کو کتنا ’فروغ‘ ملے گا۔

بات قومی زبان میں رکھے جانے والے ناموں کی ہورہی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری قومی سمجھ کا سورج ایک ہی دم میں ڈوب گیا ہو۔ ڈوبا ضرور ہے ’مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب‘۔ ’اِسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کا نام تو اب بھی کم ازکم ہمارے زرِ کاغذی پر ’بینک دولتِ پاکستان‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ کراچی کے شہری اداروں کی مثال لیں تو KDA ’ادارۂ ترقیاتِ کراچی‘ ہے اور KMC ’بلدیۂ عظمیٰ کراچی‘، KW&SBکا اردو نام ’محکمۂ فراہمی و نکاسی ٔآب، کراچی‘ ہے۔ اورK. Electric جو پہلےKESC تھا ’ادارۂ فراہمی ٔ برق کراچی‘ کہا جاتا تھا۔ مگر اب یہ سب نام رفتہ رفتہ غروب ہوچکے ہیں۔ کراچی کے اضلاع کچھ عرصہ پہلے تک ساؤتھ، ویسٹ، ایسٹ اور سینٹرل وغیرہ کے بجائے کراچی جنوبی، غربی، شرقی اور وسطی کہے جاتے رہے ہیں۔ شایدآج بھی کسی کسی کے منہ سے نکل ہی جاتا ہو۔

ہمارے بچپن تک ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن ’نظامتِ تعلیمات‘ تھا۔ اِسکولز ’مدارس‘ تھے۔ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول ’سرکاری مدرسۂ ثانویہ برائے طلبہ‘ کہلاتا تھا۔ ابتدائی مدرسے کی جماعتیں اوّل تا پنجم تھیں۔ مدرسۂ وسطانیہ (Middle School) میں جماعت ششم سے جماعت ہشتم تک تعلیم دی جاتی تھی۔ مدرسۂ ثانویہ جماعت دہم تک تھا۔ Collegeکے لیے ’کلیہ‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی اور یہی اصطلاح Faculty کے لیے بھی تھی۔ ڈپارٹمنٹ کو ’شعبہ‘ کہا جاتا تھا اور یونیورسٹی کو ’جامعہ‘۔ حیدرآباد سندھ کا ایک Medical College ’کُلیۂ طِبیہ‘ کہلاتا تھا۔ انگریزی زدہ لوگ اس کالج کا نام بڑے ادب و احترام سے پڑھتے تھے: ’’کلمۂ طیبہ‘‘۔

اِسٹوڈنٹس یونین کو ’انجمنِ طلبہ‘ کہا جاتا تھا۔ صدر تو شاید آج بھی ’صدر‘ ہو، مگر سکریٹری جنرل اُس زمانے میں معتمدعام تھا اور جنرل سکریٹری کو معتمد عمومی کہا جاتا تھا۔کچھ یہی حال دیگر سکریٹریوں کا بھی تھا، شریک معتمد، معتمد نشرواشاعت، معتمد مالیات۔ وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان سکریٹریٹ اسلام آباد پر کسی زمانے میں دل کش خطِ نستعلیق میں ’’معتمدیہ پاکستان‘‘ کا تختۂ نشان آویزاں ہوا کرتا تھا۔

کراچی، ملیرٹنکی پر طبِ مشرق کے مجربات، مرکبات اور مفردات (المختصر’ ادویات‘) فروخت کرنے والی ایک دُکان تھی۔ اُس دُکان پر ایلوپیتھک دوائیں بھی مل جایاکرتی تھیں۔ مشرق ومغرب کا ملاپ تھا دُکان کے سامان ہی میں نہیں اس کے نام میں بھی۔ دُکان کا نام تھا ’فارماشرقیہ‘۔ ہمارے کتنے ہی نجی اِدارے ایسے ہیں جن کے ناموں کا آغاز اورئینٹ، اورئینٹل یا ایسٹ اورایسٹرن کے الفاظ سے ہوتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِن نجی مشرق پسندوں کو آخر کون روکتا ہے کہ وہ ’شرق، شرقی یا شرقیہ‘ کے مشرقی نام ہرگز ہرگز استعمال نہ کریں، ورنہ اُن کا ’مکُو ٹھپ‘ دیا جائے گا۔ خود ملیر ٹنکی کے بازار کا نام ’جامع بازار‘ تھا۔ یہ ’جامعیت‘ سپر اِسٹور، ڈپارٹمنٹل اسٹور یا سپرمارکیٹ جیسے نام میں نہیں۔ ایسا جامع بازار جہاں آپ کو ضرورت کی ہر چیز مل جائے۔ مگر اب ’جامع بازار‘ بھی ’جامع مارکیٹ‘ ہوگیا ہے۔ نہیں معلوم کہ کراچی کی ’جامع کلاتھ مارکیٹ‘کے ساتھ کیا ہوا۔کسی کو ’کلاتھ‘ کا کوئی اُردو متبادل مل پایا یا نہیں؟ زبان سے بڑا فرق پڑتا ہے۔ یہ بات استعماری طاقتوں کو معلوم تھی۔ اگرآپ ایک زبان کے بجائے دوسری زبان کو ذریعۂ اظہار بنا لیں تو آپ کا رہن سہن اور تہذیب و تمدن ہی نہیں، طرزِ فکر بھی بدل جائے گی۔ تجربہ کرکے دیکھ لیجیے۔ آج سے اگر آپ اپنے بچوں کو آمادہ کرلیں کہ وہ مشکل مشکل انگریزی الفاظ بولنے کے بجائے آسان آسان اُردو الفاظ استعمال کیا کریں گے، تو اِس مشق کے آغاز کے بعد چند ہی ماہ میں آپ محسوس کرلیں گے کہ اُن کا اندازِ فکر بدل گیا ہے۔ اب اُنھوں نے مغرب کی ذہنی تقلید چھوڑ کر اپنے ذہن سے سوچنا شروع کردیا ہے۔