مسئلہ فلسطین (اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کے چند اہم مباحث)

’’مسئلہ فلسطین‘‘ ڈاکٹر مشتاق احمد کی انگریزی تصنیف کا رواں اردو ترجمہ ہے جو انہوں نے خود ہی کیا ہے اور جسے شیبانی فائونڈیشن نے دیدہ زیب اور خوبصورت گیٹ اپ میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں فلسطین کی مذہبی مبادیات اور عصری سیاق و سباق کو موضوعِ بحث بناکر پیش کیا گیا ہے، جو اس موضوع پر کتاب کے لوازمے کو وقعت اور انفرادیت بخشتا ہے۔ اس سے قبل اس اہم موضوع پر سید مودودیؒ کا لکھا ہوا مضمون ’’سانحہ مسجدِ اقصیٰ‘‘ کمال کا لوازمہ رکھتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو سمجھنے کے لیے اس ایشو پر یہ مضمون اپنی مثال آپ ہے۔

یہ ڈاکٹر مشتاق احمد کی مسئلہ فلسطین کے عنوان سے متفرق تحریروں کا مجموعہ ہے، کچھ تحریریں فیس بک کی ہیں جبکہ کچھ ان کی کتاب ’’جہاد، مزاحمت اور بغاوت: اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں‘‘ سے لی گئی ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق مذہبی مبادیات، عصری علوم اور سیاق و سباق پر گہری اور ماہرانہ نظر رکھتے ہیں۔ شرعی علوم اور فقہی امور پر ان کی مہارت عمدہ اور غیر معمولی ہے۔ وہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل رہے اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں قانون کے استاد۔ ان کی مہارت اور حریتِ فکر نے کتاب کو معتبر اور وقیع بنایا ہے۔

’’مسئلہ فلسطین‘‘ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

کتاب کے پہلے حصے میں اُن ابہامات، الزامات اور مغالطوں کا تجزیہ کیا گیا ہے جو کچھ عرصے سے فلسطین سے مسلمانوں کے تعلق اور وابستگی کو کمزور اور بدظن کرنے کے لیے تسلسل سے پھیلائے جاتے رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں نہایت صراحت کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف زمین کا تنازع نہیں ہے اور نہ عربوں یا اہلِ فلسطین کا یہود کے ساتھ کوئی جھگڑا ہے، دراصل مسئلہ فلسطین امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے، بیت المقدس اور دوسرے علاقے یہود سے واگزار کروانا اور مظلوم فلسطینیوں کی مدد ایک مسلمان کا دینی و شرعی فریضہ ہے جس سے وہ خود کو الگ نہیں کرسکتا۔

دوسرے حصے میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں بین الاقوامی قانون، اوراس کے اصول و قوانین کا تجزیہ کرکے واضح کیا گیا ہے کہ ان معاصر قوانین کی رو سے بھی بیت المقدس اور دوسرے مقبوضہ علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز، غاصبانہ اور عالمی قوانین کے خلاف ہے، اسی وجہ سے یہ علاقے حالتِ جنگ میں ہیں۔ نیز اس سے واضح ہوتا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے فلسطینیوں کو حقِ خودارادیت (Self Determination) اور اسرائیلی ریاست سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا قانونی حق حاصل ہے۔

کتاب کے تیسرے اور آخری حصے میں مظلوم فلسطینیوں اور بیت المقدس کے بارے میں مسلمانوں کو ان کی شرعی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور معاصر بین الاقوامی نظام میں مسلمان ممالک اور ریاستوں کے لیے کیا امکانات موجود ہیں، نیز مسلمان حکمرانوں اور ریاستوں کے مابین مشترکہ دفاعی معاہدے، مقبوضہ فلسطین اور بیت المقدس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی مداخلت اور قابض اسرائیلیوں کے خلاف جنگی جرائم جیسے مقدمات کے امکانات پر بات کی گئی ہے۔

کتاب کے آخر میں دو ضمیمے شامل کیے گئے ہیں۔ پہلا ضمیمہ جاوید احمد غامدی کے فلسطین ایشو کے بارے میں مؤقف کے تنقیدی جائزے کے ساتھ اس کی کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی پر مبنی ہے، جبکہ دوسرے ضمیمے کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے لوگوں کو ریاست اور حکومت کی عدم موجودگی میں شرعی طور پر شخصی دفاع اور منظم جدوجہد کے حقوق حاصل ہیں اور یہ حقوق بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے مسلّم ہیں، غزہ اور بیت المقدس میں حماس کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمتی جدوجہد شرعی اور بین الاقوامی قوانین کے اعتبار سے درست اور جائز ہے۔

شیبانی فائونڈیشن کے مراد علی خود بھی اچھے اور سلجھے ذوق کے حامل ہیں اور انہوں نے اپنے ذوق اور روایات کے مطابق ’’مسئلہ فلسطین‘‘ کو عمدہ گیٹ اپ میں پیش کیا ہے۔ کتاب کا لوازمہ اس ایشو پر جامع اور مبسوط اندازِ فکر کا حامل ہے اور کئی جہتیں اور پہلو وا کرتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو سمجھنے اور اجاگر کرنے میں یہ سنجیدہ اور فکر انگیز لوازمہ لائق ِمطالعہ ہے۔