کلیاتِ فروغ احمد

پروفیسر فروغ احمد (1920۔1994ء) ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ اردو، عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ والد صاحب اسٹیشن ماسٹر تھے مگر ادبی ذوق بھی رکھتے تھے، چنانچہ متعدد رسالے منگواتے تھے۔ انھی رسالوں سے فروغ احمد میں مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ جو رسالہ یا کتاب ہاتھ لگتی، اسے پڑھے بغیر نہ چھوڑتے۔ اگست 1947ء میں وہ اپنے اہلِ خانہ کو لے کر مشرقی پاکستان آگئے۔ اہلِ خانہ کو یہاں چھوڑ کر واپس علی گڑھ چلے گئے اور 1948ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی سے بی اے کی تکمیل کرکے سند حاصل کی اور ڈھاکا پہنچ کر رحمت ہائی اسکول میں مدرس ہوگئے۔ 1963ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی سے بالامتیاز ایم اے اردو کرنے کے بعد کالج اور پھر یونی ورسٹی میں معلم رہے۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد بہاری کیمپ میں رہے اور دو سال کا عرصہ صبرو تحمل سے گزارا۔ اس اثناء میں سید اسعد گیلانی برابر کوشاں رہے کہ فروغ صاحب کو پاکستان بلالیں۔ دو برس بعد ان کی کوشش بار آور ہوئی اور فروغ صاحب مع خاندان لاہور پہنچ گئے۔

ان کا خیال تھا کہ کسی کالج میں لیکچرر لگ جائیں، مگر بھٹو صاحب نے تمام تعلیمی ادارے قومیا لیے تھے۔ ماہنامہ’’بتول‘‘ کی ادارت مل گئی۔ دال دلیہ ہوتا رہا۔ کئی سالوں سے آنکھوں اور بینائی کے مسائل سے دوچار تھے۔ اب بینائی کمزور ہونے لگی حتیٰ کہ بالکل ختم ہوگئی۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی دو چار ہفتوں یا مہینے بھر میں کالج سے واپسی پر شاہ کمال کالونی میں رکتے اور فروغ صاحب سے ملاقات کرکے گھر آتے۔

دیباچے میں ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد رقم طراز ہیں: ’’خدا کا شکر ہے کہ انھوں نے اپنا کم و بیش سارا شعری سرمایہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے سپرد کردیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جس محبت اور اخلاص کے ساتھ اس گنجِ گراں بہا کی حفاظت کی اور اب اس کی اشاعت کا اہتمام کررہے ہیں ، اس پر اردو دنیا ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ وہ اگر یہ ہمت نہ کرتے تو سرمایۂ فکر و نظر زمانے کی گرد میں گم ہوجاتا۔‘‘

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے یہ سرمایہ زیر نظر ’’کلیات فروغ احمد‘‘ کے نام سے چھپوا ڈالا۔ ابتدا میں پروفیسر فروغ احمد کا تعارف بھی کرایا۔درس و تدریس ہو یا صحافت… شاعری ہو یا تنقید… اقبالیات ہو یا نوجوانوں کے لیے تمثیل نویسی… فروغ صاحب قارئین اور مخاطبین کے اندر اسلامی، ملّی اور دینی شعور کی آبیاری کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ یہی ان کا مقصدِ وحید رہا اور اس شعور کا سرچشمہ آنحضرتؐکی ذاتِ بابرکات تھی۔ اسی والہانہ وابستگی (جسے اقبال نے کس خوبی سے ایک مصرعے میں بیان کردیا ’’اسی نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا‘‘) کا ایک نتیجہ قصیدہ بردہ کے ترجمے کی صورت میں سامنے آیا، جس کے بارے میں معروف شاعر اور نقاد علیم ناصری صاحب کہتے ہیں’’یہ منظوم اردو ترجمہ بحرہزج کے رواں دواں اور وسیع کینوس میں نہایت عمدہ کاوش ہے۔ یہ ایک نعتیہ مثنوی معلوم ہوتی ہے، گویا فروغ احمد ہی کی تخلیق ہے۔‘‘

فروغ صاحب خوش قسمت ہیں کہ ان کی طویل نظم سواء السبیل کا دیباچہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تحریر کیا۔ مولانا لکھتے ہیں: ’’جناب فروغ احمد نے اپنی یہ بیش قیمت نظم اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے لکھی ہے کہ نوعِ انسانی جس الم ناک اضطراب میں مبتلا ہے اور روز بہ روز زیادہ مبتلا ہوتی جارہی ہے، اس کا اصل سبب اعتدال کی راہ سے ہٹ جانا ہے، اور یہ سیدھی راہ اگرچہ نظروں کے سامنے موجود ہے لیکن جو لوگ بندگیِ نفس اور فریبِ نظر میں مبتلا ہیں اوّل تو اسے دیکھنا نہیں چاہتے اور دیکھ بھی لیں تو اس پر آنا نہیںچاہتے۔ اس حالت میں فروغ صاحب نے ان لوگوں کو جو سواء السبیل کی معرفت حاصل کرنا ، ان کی یہ ذمہ داری یاد دلاتے ہیں کہ وہ……… اور قوت کے ساتھ عالمِ انسانی کو اس کج روی سے روک کر سیدھی راہ پر چلائیں۔‘‘

ایک روز انھوں نے ڈاکٹر ہاشمی کے سامنے ایک پلند ہ رکھا اور فرمایا یہ میری شاعری کا پورا سرمایہ ہے۔ اسے لے جائیے اور حسب ِموقع ایڈٹ کرکے چھپوا دیجیے۔ یہ شعری سرمایہ مسودوں، نوٹ بکس اور متفرق کاغذات کی صورت میں تھا۔ ہاشمی صاحب لمبے عرصے تک مصروف رہے مگر اس کام کو نہ بھولے۔

ڈاکٹر تحسین فراقی ’’کلیاتِ فروغ احمد: ایک تاثر‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’پیش نظر کلیات میں ان کی شاعری کے متنوع رنگ موجود ہیں۔ حمد، نعت، منظومات (جن میں رجزیہ، قومی، سیاسی، ملّی و مذہبی موضوعات پر تخلیقات شامل ہیں)، تضمینات، قطعات، غزلیات اور رباعیات وغیرہ گویا صنف گو کسی بھی قابلِ ذکرصنفِ شعر میں بند نہیں۔ یہ شعری سرمایہ زبان و بیان پر ان کی اطمینان بخش نظر کا گواہ اور شاہد ہے۔ جہاں ایک طرف ان کی غزلوں میں پختگی، استادانہ رنگ اور بے ساختہ پن ہے، وہیں دیگر اصنافِ شعر بھی قارئین سے داد وصول کیے بغیر نہیں رہتیں۔‘‘

اب ان کی شاعری کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں، جو ان کی شاعرانہ پختگی کا مظہر ہیں:

دنیا کے سب سہارے دغا دے گئے مجھے
اب تیرا آسرا ہے خداوندِ ذوالجلال

سلامِ حق کے لیے گھر کو چھوڑنے والے
سلام، اے رخِ ایام موڑنے والےؐ
سلام کعبہ کے اصنام توڑنے والے
سلام رشتۂ وحدت کو جوڑنے والےؐ

……
کبھی اِس پر نچھاور ہو، کبھی اُس پر نچھاور ہو
گلِ بے آبرو سے لالہ خونیں کفن اچھا

یہ بستی کیسی بستی ہے کہ حسرت سی بستی ہے
جو وحشت ہی مقدر تھی تو اس بستی سے بن اچھا
ہوئے بے خانماں ایسے، سمجھ میں کچھ نہیں آتا
وطن میں بے وطن اچھے کہ غربت میں وطن اچھا

کتاب کو ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ نے اپنے ادارے قرطاس سے چھاپ کر علم دوستی کا ثبوت دیا ہے اور ساتھ ہی اپنے مضمون بہ عنوان ’’آنکھیں فسانہ کہتی ہیں میں خود خموش ہوں‘‘ کے ذریعے پروفیسر فروغ احمد سے اپنی یادوں کو بھی تازہ کیا ہے۔