نومولد بچوں کی نگہداشت

چار پانچ ماہ کا بچہ کروٹ بھی لینے لگتا ہے اور الٹا بھی ہوجاتا ہے

”ڈاکٹر صاحب! مسلسل ہاتھ اس کے منہ میں ہوتا ہے، شاید اس کے دانت نکل رہے ہیں، کوئی لگانے کی دوا بتادیں۔

اچھا یہ بیٹھنے کب لگے گا؟اس کو میں کیا کھلاؤں؟اس کا وزن بڑھ ہی نہیں رہا۔“خاتون نے بہت سارے سوالات ایک ساتھ کردئیے۔

چار ماہ کا بچہ عام طور پر اپنے ہاتھوں کو چوسنے لگتا ہے۔ اس کا مطلب لازمی یہ نہیں کہ اس کے دانت نکل رہے ہیں۔ چار پانچ ماہ کی عمر میں بچہ اپنے ہاتھوں کو دریافت کرلیتا ہے۔ پہلے ایک ہاتھ سے ہتھیلی سے چیز کو پکڑتا ہے، اور پھر دونوں ہاتھوں کی مٹھی بناکر چوسنے بھی لگتا ہے۔ ہاتھوں اور انگلیوں سے یہ کھیل بچے بڑے شوق سے کھیلتے ہیں، جو چیز ان کے منہ کی طرف بڑھائیں اس کو منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ اسٹیتھو اسکوپ سے چیک کررہے ہوتے ہیں اور وہ اس کی ٹیوب کو مزے سے منہ میں لے جانے کے لیے زور لگاتا ہے، آپ سے چھیننے کی کوشش کرتا ہے، یعنی جو چیز اس کے منہ کے قریب جائے گی اُس پر منہ مارے گا۔ عام طور پر پہلے دانت کے نکلنے کی عمر 6 ماہ سے 16 ماہ تک ہوتی ہے۔ ویسے تو کبھی کبھی بچوں کے پیدائشی دانت بھی ہوتے ہیں اس لیے کبھی بھی دانت نکل سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایک سال کی عمر تک بھی نہ نکلیں تو بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

چار پانچ ماہ کا بچہ کروٹ بھی لینے لگتا ہے اور الٹا بھی ہوجاتا ہے۔ یہ نیا کرتب مکمل سرپرائز کے طور پر نمودار ہوتا ہے، اپنی ماں کے لیے پیغام کہ محترمہ اب آپ کے بے فکری کے دن ختم ہوئے، مجھے اب آپ زیادہ توجہ دیں۔ بچہ اگر گہری نیند میں بھی ہے تو اس کو آپ بستر پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے، بلکہ اگر یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ تکیے لگاکر مصنوعی دیوار بھی کام کی نہیں۔ آپ کی توقعات کے برعکس اس دیوار کو پھلانگنا پانچ ماہ والے بچے کے لیے معمولی سی بات ہے۔ بستر سے گر کر، لڑھک کر بہت سے بچے کلینک، ایمرجنسی روم میں لائے جاتے ہیں اور عام طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ چیک اپ کرکے حفاظتی اقدامات کی ہدایات کے ساتھ واپس بھیج دیئے جاتے ہیں۔ اب آپ بچے کو بستر پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔ لیکن کبھی کبھی اس گرنے سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

جب بچہ ہاتھوں کو بار بار منہ میں لے جاتا ہے تو صفائی کی تمام تر کوششوں کے باوجود جراثیم منہ میں چلے جاتے ہیں اور اس سے بچوں کو بعض اوقات پتلے پاخانے لگ جاتے ہیں، اور گھر کے تمام سینئر حضرات خصوصاً خواتین اس کو دانت نکلنے سے تعبیر کرتی ہیں، جبکہ اصل بات یہ ہے کہ بچے نے ہر طرف ہاتھ مار کر منہ میں لیے تھے جس کی وجہ سے کسی وائرل یا کسی اور انفیکشن کا شکار ہوگیا۔ کبھی کبھی اس دور میں ناک بہنا شروع ہو، اور وہ بھی ہاتھوں کے ذریعے منہ میں جائے تو موشن لگنا عام سی بات ہے۔

ڈاکٹر کے پاس جانے سے پہلے ہی آپ بچے کو او آر ایس پلانا شروع کردیں تاکہ پانی کی کمی نہ ہو اگر موشن بہت پتلے ہیں تو۔

پہلے 6 ماہ میں بچے کو ماں سے قوتِ مدافعت ملتی ہے، ماں کے دودھ سے اور قدرتی طور پر آ نو نال کے ذریعے۔ یہ قوتِ مدافعت شروع کے 6 ماہ بہت اہم ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اگر بچے کو ترتیب کے مطابق حفاظتی ٹیکے بھی لگتے رہیں تو خاصی حد تک بیماریوں سے محفوظ رہنے کا امکان ہے۔ 6 ماہ کے بعد بچہ اپنی قوتِ مدافعت خود بھی اچھی مقدار میں بنانا شروع کردیتا ہے جو کہ ایک مسلسل عمل ہے اور کئی سال تک جاری رہتا ہے۔ ماں سے ملنے والی قوتِ مدافعت یعنی اینٹی باڈیز اور دیگر حفاظتی کیمیائی مرکبات 6 ماہ کے بعد کمزور پڑنا شروع ہوتے ہیں اور بچے کے اپنے جسم کے حفاظتی انتظامات ابھی مکمل طور پر فعال نہیں ہوئے ہوتے، اس درمیانی وقفے میں بچے موسمی تبدیلیوں/ اثرات، اور ماحولیاتی آلودگیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

یعنی نزلہ، زکام، کھانسی، لوز موشن اور کبھی کبھی سانس کا تیز چلنا وغیرہ وغیرہ۔

سردیوں میں گرم کپڑے یا گرمی میں کم کپڑے پہنانے اوردونوں موسموں میں کم سے کم باہر نکلنے دینے، اور اپنے گھر، محلوں، گلیوں کی بہتر صفائی کے ذریعے کچرے سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اب آتی ہے کھانے کی باری۔ 6,5ماہ کی عمر کے بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی عمر کے لیے مزید غذا یعنی ٹھوس غذا کی بھی ضرورت ہے۔ ٹھوس غذا کے سلسلے میں ایک اصولی بات یاد رکھیں، مہنگی غذا، برانڈڈ غذا، یا آپ کی بلاجواز احتیاط سے بچے کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

دوسری بات یہ کہ ہر گھر میں بچے کو کھلانے کے لیے غذا تیار کرنے کا سامان موجود ہوتا ہے، اس لیے کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں۔

عام طور پر بچے کو چاول نرم کرکے کھلانا شروع کریں دن میں دو بار تھوڑی مقدار میں۔ اور ایک بات یاد رکھیں کہ کسی بھی ایک غذا کو چند دن تک ایک ہی رکھیں، یعنی 4،5 دن صرف چاول۔ اس کے بعد جب بھی کوئی نئی چیز شروع کریں تو اسی بنیادی اصول پر عمل کریں، یعنی چار پانچ دن ایک ہی چیز۔ مثلاً آپ نے چار دن چاول کھلا دیئے، بچے کو کوئی پرابلم نہیں ہوئی، اب آپ اس میں مونگ کی دال ابال کر ڈال دیں، یعنی دال چاول کی پتلی سی کھچڑی بغیر نمک اور گھی کے صرف ابلی ہوئی، اتنی پتلی کہ دودھ سے تھوڑی گاڑھی۔ ابھی بچے کے دانت نہیں ہیں، اس لیے غذا ایسی ہونی چاہیے جو بآسانی بچہ نگل لیا کرے۔ دال چاول کی کھچڑی کے بعد آپ اس میں ہر چار پانچ دن کے بعد ابال کر ایک سبزی کا اضافہ کردیں، تمام سبزیاں وقفے وقفے سے ایک ایک کرکے استعمال کرتے چلے جائیں۔

اگر آپ نے بچے کو ابتدا ہی سے سبزی کی عادت ڈالی تو مستقبل میں مسائل کا شکار نہیں ہوں گے، اور اگر ابتدائی دنوں میں میٹھے کی عادت ڈالی گئی تو پھر عام گھریلو کھانا کھلانا بہت مشکل کام بن جائے گا۔ تو اس بات کو سمجھیں اور جذباتی ہونے سے پرہیز کریں۔

”انڈہ کھلا دوں؟ بسکٹ کب دوں؟ ڈاکٹر صاحب کسٹرڈ کب سے دوں؟“

پورا لیکچر دینے کے بعد بھی یہ سوال سننے کو ملتا ہے۔ یقین مانیں غصہ تو بہت آتا ہے، مگر بچوں کے ڈاکٹروں کو غصہ پینے کی عادت ہونی چاہیے۔

عام طور پر انڈہ 8 ماہ کی عمر میں اور وہ بھی پہلے زردی اور پھر سفیدی دینی چاہیے۔

گندم یا گندم سے بنی اشیاء، سوجی، بسکٹ وغیرہ وغیرہ بھی 8,7 ماہ کے بعد جب ایک مرتبہ بچہ سبزی والی کھچڑی کا عادی ہوجائے۔ پھلوں کے استعمال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ موسم کا پھل بچے کو 6 ماہ کی عمر کے بعد ضرور کھلائیں، گرمیوں میں آم اور سردیوں میں سیب کھلانے میں کوئی حرج نہیں، کھچڑی کے ساتھ ساتھ بطور میٹھی چیز اچھی طرح نرم کرکے پھل دیئے جاسکتے ہیں۔

کسٹرڈ دودھ میں بنتا ہے، اس لیے ہم چونکہ گائے/ بھینس کا دودھ بچوں کو ایک سال سے پہلے نہیں دیتے اس لیے سال سے پہلے کسٹرڈ کے لیے معذرت۔ اسی طرح بچوں کو سال بھر کی عمر سے پہلے ہم شہد چٹانے کو بھی منع ہی کرتے ہیں اور اس کی وجہ بعض اوقات اس میں موجود کچھ جراثیم ہیں جن کی وجہ سے بچے کو جھٹکے کی بیماری لگ سکتی ہے۔

چلیے جناب! کھانے پر تو بنیادی طور پر ہم نے سال بھر تک کی بات کرلی۔

اب بات کرتے ہیں کہ بچہ سال سے پہلے چار پانچ ماہ کی عمر کے بعد کیا کیا کرتا ہے۔

مثلاً 6 ماہ یا تھوڑی سی زیادہ عمر میں بچہ بغیر سہارے کے بیٹھ سکتا ہے۔ اس میں تھوڑا بہت فرق قابلِ قبول ہے، یعنی 6 نہیں تو 7 ماہ میں اس کو بیٹھ جانا چاہیے۔ اگر نہیں تو یہ تشویش کی بات ہے۔

اسی طرح تقریباً 8 ماہ کی عمر میں گھوڑا بن کر رینگنے والی پوزیشن اختیار کرتا ہے اور تقریباً 9 ماہ کی عمر میں اچھی طرح رینگنا شروع کردیتا ہے۔

تقریباً اسی عمر میں ہتھیلی کی مدد سے زمین پر موجود کسی بھی چیز کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور 10,9 ماہ کی عمر میں اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے چھوٹی سی چیز کو اٹھاکر فوراً اپنے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ کی ذرا سی نظر بچی اور کوئی بھی چیز منہ میں، چاہے چیونٹی یا کیڑا ہی کیوں نہ ہو۔

تو جناب! اگر بچے کو نیچے زمین پر چھوڑ رہے ہیں جو کہ بہت ہی اہم بات ہے بچے کی نشوونما کے لیے، تو دن میں کئی بار جگہ کی صفائی خاص طور پر بہت زیادہ ضروری ہے۔

اس انگلی اور انگوٹھے کی گرفت اور منہ میں لے جانے کے عمل کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ آپ کے بچے کی آنکھوں، دماغ اور ہاتھوں کے عضلات (Muscles) کی بہترین کو آرڈی نیشن کی علامت ہے، یعنی سب اعضاء اپنی جگہ درست کام کررہے ہیں۔

تقریباً نو ماہ کی عمر ہوگئی، بچہ غصے کا اظہار کرنے لگا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماں کی ناراضی کو بھی سمجھنے لگا ہے۔ گود میں رہنے کے ساتھ زمین پر رینگنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ بس مجھے چھوڑ دو یہ ڈیمانڈ۔ ہاں مگر کسی بھی اجنبی کو دیکھ کر فوراً جاننے والے کی طرف لپکتا ہے، مڑ مڑ کر اجنبی کو دیکھتا ہے اور اپنی محفوظ پناہ گاہ کو بھی اپنی تسلی کے لیے کہ میں محفوظ ہوں کہ نہیں، یہ بالکل نارمل رویہ ہے۔

ہم نے کھانے کی بات کرلی، بچے کی دماغی صحت کی بات کرلی، مگر یہ نہ بھولیں کہ بچے کے لیے حفاظتی ٹیکے بھی بہت اہم ہیں۔

شروع سے ہی ہم حکومتِ پاکستان کے ترتیب دیئے گئے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کو استعمال کررہے ہیں، اس کے مطابق جو جو ٹیکے اور قطرے ضروری ہیں وہ ضرور لگوائیں اور پلائیں۔

عام طور پر ابتدائی ٹیکوں کے بعد نو ماہ کی عمر میں خسرہ کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے، اور ساتھ ہی پولیو کے قطرے، اور سال کی عمر میں چکن پاکس، ایم ایم آر وغیرہ۔ کوشش کریں کہ حفاظتی ٹیکے کے شیڈول پر پوری طرح عمل کریں۔ ذرا ذرا سے بخار اور نزلے کھانسی یا تھوڑے سے موشنز پر ٹیکے لگوانے میں کوتاہی نہ کریں۔
کھانے پینے میں اب آپ کو ابتدائی محنت کی وجہ سے کوئی مشکل نہیں۔ سات آٹھ ماہ کے بعد آپ مرغی، بکرے کا گوشت اور مچھلی بھی ٹرائی کرسکتے ہیں۔
تقریباً 10 ماہ کے آس پاس کچھ بچے پکڑ کر کھڑے بھی ہوجاتے ہیں، اور کچھ قدم بھی بڑھا لیتے ہیں۔ اگر کسی بچے کے دانت نہ نکلیں، یا بچہ دس ماہ یا سال تک بھی چلنا شروع نہ کرے تو کسی پریشانی کی ضرورت نہیں۔
کچھ خاندانوں میں بغیر کسی بیماری کے دیر سے دانت نکلنا یا دیر سے چلنا ممکن ہے۔ اس میں ڈاکٹر کو پوری خاندانی ہسٹری بتاکر مشورہ کیا جاسکتا ہے۔
دس ماہ سے سال کے دوران بچے نے جو نئی چیزیں سیکھی ہیں اس میں وہ مسلسل مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مثلاً کھڑے ہونا، چلنا، وغیرہ وغیرہ۔
بچہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اظہارِ خیال بھی مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ پانچ ماہ کی عمر میں غوں غاں سے شروع ہونے والی گفتگو چھے آٹھ ماہ میں باقاعدہ سوال جواب بن جاتی ہے، اور کچھ بچے نو، دس ماہ کی عمر سے کچھ الفاظ، ما، با، ڈا وغیرہ وغیرہ استعمال کرنے لگتے ہیں، اور اپنی طلب کو اشاروں سے بڑھ کر کچھ شارٹ فام الفاظ تک لے آتے ہیں۔
تقریباً ایک سال کی عمر میں ایک دو بامعنی الفاظ بھی بعض بچے استعمال کرلیتے ہیں۔
یوں آپ کے بچے کی پہلی سالگرہ آجاتی ہے۔
منائیں سالگرہ اور خوش رہیں۔
اگلی ملاقات میں ایک سے دو سال کے سفر پر بات کریں گے… تب تک فی امان اللہ۔