یادوں کا دریچہ ”چہرہ جو میں نے دیکھا “ شیخ الحدیث استاذ آغا محمدؒ

یہ نورانی چہرہ… ایک خالص بلوچ، داعیِ اسلام،مبلغِ اسلام، عالمِ دینِ اسلام…قرآن وحدیث اور فقہ کے استاد ،بلکہ ہزاروں اساتذہ کے استاد ،نمونہ اسلاف، اور پاکستان سے وفادار مولانا آغا محمد علیہ الرحمۃکا ہے۔

قیام پاکستان سے گیارہ سال قبل 1936ء میں بلوچستان کے علاقے ”پشین“ کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے شیخ القرآن والحدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ منصورہ سندھ مولانا آغا محمدؒ میرے اُس وقت کے استاد ہیںجب وہ عنفوانِ شباب میں تھے اور میں لڑکپن کی حدود سے نکل رہا تھا۔

گھنی اور لمبی سیاہ داڑھی کے ہالے میں محصور یہ نورانی چہرہ تب سے میری لوحِ شعور پر نقش اور یادوں کی خوبصورت البم میں ناقابلِ فراموش اور ناقابلِ محو ہے۔

شیخ کے بحرِ علوم سے میں بڑی کلاس میں یا شاید چھوٹی کلاس میں اپنے بے حد معمولی ظرف کے مطابق یقیناً چند ہی قطرے سمیٹ پایا،جو مجھ کج فہم کے دماغ تک تو نہ پہنچ سکے،اپنے چہرے پر ضرور مل لیے۔ان ہی کی برکتوں کا فیض مجھے سرشار کرگیا۔

ان کے فاضل صاحب زادے ڈاکٹر آغاعبدالصمد منصوری کے مطابق شیخ آغا محمدؒ نے قرآن مجید اور فارسی کی پانچ بنیادی کتابیں (گلستان، بوستان وغیرہ) اپنے علاقے کی مسجد میں پڑھیں، اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے کوئٹہ آئے جہاں انہوں نے مشہور عالمِ دین حافظ حسین احمد کے والد مولانا عرض محمد کے مدرسہ مطلع العلوم میں جو کوئٹہ کے دو بڑے مدارس میں سے ایک تھا،فنون کی کتابیں (شرح وقایہ، شرح جامی، کافیہ وغیرہ) کا درس لیا۔

اس کے بعد علم کی طلب میں وہ کراچی تشریف لائے۔ یہاں کی مشہور عظیم دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ بنوریہ کراچی میں 4 سال تعلیم حاصل کی اور دورۂ حدیث کی تکمیل کی، اور 1960ء میںوفاق المدارس الاسلامیہ سے دورہ کی سند حاصل کی۔آپ نے بخاری شریف اور ترمذی شریف کی تعلیم کے لیے براہِ راست مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔

1958ء میں شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ کا قیام عمل میں آیا،جس کے پہلے پرنسپل پروفیسر سید محمد سلیمؒ تھے۔ اس کالج میں طلبہ کو حیدرآباد بورڈ سے مولوی، عالم اور فاضل کے امتحان دلائے جاتے تھے،لہٰذا فنون کی کتب پڑھانے کے لیے ایک استاد کی ضرورت درپیش ہوئی توپروفیسر سید محمد سلیمؒ نے کچھ افراد کو جامعہ بنوریہ کراچی بھیجا اور مفتی ولی حسن ٹونکیؒ ، جو حضرت شیخ آغا محمدؒ کے استاد تھے، سے استاد کا مطالبہ کیا۔ نوجوان شیخ آغا محمد اس وقت تخصص میں زیر تعلیم تھے۔ مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے آپ کو بحیثیت استاد منصورہ بھیجا اور آپ نے 1961ء میں شاہ ولی اللہ کالج میں بحیثیت استاد تدریس کا منصب سنبھالا۔

استادِ گرامی اُس زمانے ( 1968ء) میں جب میں وہاں اپنی عمر کے گیارہویں سال میں ابتدائی کلاسوں کا طالب علم تھا،نوجوان اساتذہ میں بہت نمایاں تھے۔ان کی شخصیت کا رعب،علمی وقار اور فنونِ تعلیم میں مہارت کے چرچے سن کر حسرت ہوتی کہ کاش میں بھی ان کا شاگرد ہوتا۔

1972ء میں جب میں اور میرے ہم جماعت تعلیم کے چار مدارج طے کرکے اس منزل تک پہنچےجہاں ہمیں استاذ کی شاگردی کا شرف ملنا تھا،ادارے کی بساط لپیٹے جانے کی خبر عام ہوگئی۔اور پھر یہ ادارہ،اس کے اساتذہ،طلبہ،انتظامیہ اور عمارات سب ہی ٹوٹ اور بکھر گئے۔

میرے حافظے میں شیخ کے براہِ راست تلمّذ کی کوئی تصویر موجود نہیں،البتہ اپنے کچھ کلاس فیلوز کی باتوں اور یادوں سے اس پرچھائیں اور دھندلی تصویر میں رنگ بکھرتے ہیں کہ ہم نے شاید چل چلاؤ کے زمانے میں شیخ سے فقہ و منطق کی کچھ دقیق کتب یا حدیث پاک کے کچھ دروس سماعت کیے تھے۔

1997ء میں آپ جامعہ منصورہ کے مہتمم مقرر ہوئے، اور اپنی پوری زندگی مدرسےاور صبح و شام بخاری شریف کی تدریس میں وقف کردی اور تقریباً 60 سال تدریس سے وابستہ رہے۔

لیکن یہ میرا موضوع نہیں۔

میرا ہدف اس خوبصورت اور وجیہ چہرے کی لفظی تصویر کشی ہے،جو 55 سال پہلے میری آنکھوں میں سمایا تھا۔

یہ چہرہ
ایک اللہ والے کا ہے،
ایک عالمِ باعمل کا ہے،
ایک فنا فی القرآن والحدیث کا ہے،
ایک وارثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے،

جس نے اس علمی وراثت کو نسل در نسل منتقل کرنے میں اپنی ساری عمر کھپادی،اور 62 سال کے اس علمی اور ابلاغی سفر میں اپنے شب اور روز بسر کیے،ہزاروں شاگردوں کے سیرت و کردار اور شخصیتوں کو قرآنی علوم اور حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پھولوں اور ان کی خوشبو سے منور و معطر کیا۔

55 سال بعد بس فرق اتنا پڑا کہ پہلے سیاہ بادلوں…بالوں…کے ہالے میں محصور یہ چہرہ ایک ”ہلال“(ابتدائی دنوں کا چاند)کی مانند تھا،اب عمرِ عزیز کے 87 ویں سال میں سندھ کے ایک دور دراز گاؤں میں، قرآن وحدیث کے نور سے مزین و منور ہوکر اور ستائش و صلے کی تمنا اور ناموری اور شہرت کی خواہشوں اور قباحتوں سے دور اور بے نیاز ہوکرعلم کا”بدر“کامل بن کر13 ستمبر 2022ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔اللہ پاک آپ کی علمی و تدریسی خدمات کو قبول فرمائے اور بہترین اجر سے نوازے۔آمین
اذا رأیت الھلالَ بُدوءَہ
أیقنت أنه سیکون بدراً کاملاً
جب میں نے چاند…ہلال…کو نکلتے دیکھا،تو یقین کرلیا کہ یہ بدرِ کامل بن کر ہی رہے گا۔
اللهم اغفر له وارحمه وعافہ واعف عنہ وأدخلہ فسیح جناتک یا آرحم الراحمین۔یا رب العالمین۔