سیکولر ترکیہ میں دینی تعلیم کا نظام

امام خطیب اسکول سسٹم…اسلامی روایات کے سربراہ مہمت فاتح سیلینری سے خصوصی گفتگو

مہمت فاتح سیلینری ترکیہ کے Önder امام خطیب اسکول سسٹم کے ہیڈ ہیں۔ انتہائی شفیق انسان…مہمت فاتح سیلینری بی اے پولیٹکل سائنس، ایم اے اسلامک لاء، ایم ایس سی اکنامک ہسٹری، امام خطیب اسکولز انقرہ ایسوسی ایشن کے صدر، متعدد یونیورسٹیوں اور غیر سرکاری تنظیموں میں مشاورتی اور انتظامی عہدوں پر فائز ہیں، جن میں ابن خلدون یونیورسٹی، اوسٹم ٹیکنیکل یونیورسٹی، فاؤنڈیشن برائے ہسٹری آف اسلامک سائنس اینڈ ٹکنالوجی، القدس فورم وغیرہ شامل ہیں۔

10 سال کے لیےاو آئی سی کے شماریاتی، معاشی اور سماجی تحقیق اور تربیتی مرکز (SESRIC) میں تربیت اور تکنیکی تعاون کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔

میں نے ترکیہ کے امام خطیب اسکول کی تاریخ اور سسٹم کو سمجھنے کے لیے مہمت فاتح سیلینری سے ایک خصوصی انٹرویو کیا۔ ان کی پاکستان سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسی محبت کے باعث انہوں نے انٹرویو کے لیے اپنے مصروف شیڈول میں سے وقت نکالا اور تمام سوالات کے تفصیل سے جواب دیے۔

ان سے گفتگو میں مجھے ترکیہ کی مندرجہ ذیل تاریخ معلوم ہوں:

خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد 29مئی 1923ء کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ترکیہ کو جمہوریہ قرار دیا گیا۔ پردہ کرنے پر پابندی لگادی گئی، مغربی طرز کی آئینی و پارلیمانی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا، علماء کے اختیارات کا خاتمہ کردیا گیا، مغربیت کو مکمل طور پر اختیار کرلیا گیا، عوام کو یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ عوام ہیں، جذبہ قومیت کو ابھارا گیا، وزارتِ مذہبی امور و اوقاف کا خاتمہ کردیا گیا اور 1928ء کے آئین میں ترکیہ کو ایک سیکولر ریاست قرار دے دیا گیا۔ اس طرح اسلام ریاست کا سرکاری مذہب نہ رہا۔ اس پر ستم یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ دین سے بیزاری بڑھتی چلی گئی۔

1932ء میں ترک حکومت نے فیصلہ دیا کہ اذان عربی کے بجائے ترکی زبان میں دی جائے گی۔ اذان کے الفاظ ترکی زبان میں ڈھالے گئے اور 1933ء میں عربی زبان میں اذان دینا جرم قرار دے دیا گیا، علماء کے مذہبی لباس اور سرکاری ریڈیو سے قرآن کریم کی تلاوت پر پابندی لگادی گئی، اسی طرح مدرسوں اور تصوف کے سلسلوں پر پابندی لگائی گئی۔ ترک زبان سے عربی اور فارسی کے الفاظ نکالنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی گئی۔ عربی، فارسی رسم الخط کی جگہ ترک زبان کے لیے لاطینی حروفِ تہجی کو اختیار کیا گیا، نوجوان نسل میں اس نظریے کو راسخ کرنے کی کوشش کی گئی کہ ترک کوئی جنگجو نسل نہیں بلکہ دنیا کو تہذیب سکھانے والی قوم ہے۔

حد درجہ کوشش کی گئی کہ ترکوں کو اسلام سے جدا، اور قومیت کو ذہنوں میں پختہ کردیا جائے۔

یہ وہ اقدامات تھے جنہوں نے ترک معاشرے کے ہر فرد کو فکر و پریشانی میں مبتلا کیا، اور ترک مسلمانوں نے ان تمام تر ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باوجود اپنا رشتہ اسلام سے نہ ٹوٹنے دیا۔

ترک عوام سیکولر اصلاحات کے باوجود اپنا رشتہ اسلام سے مضبوط سے مضبوط کرتے رہے۔ سیکولر اثرات کے خاتمے کے لیے سب سے اہم کردار امام خطیب اسکول سسٹم نے ادا کیا۔

ترکیہ کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان اور حکومتی منصب پر فائز افراد کی اکثریت اسی امام خطیب اسکول سے فارغ التحصیل ہے۔

صدر رجب طیب اردوان نے 1973ء میں امام خطیب اسکول سے تعلیم مکمل کی۔ قرآن مجید تجوید کے ساتھ حفظ کیا،پھر استنبول کی مرمرہ یونیورسٹی سے اکنامکس اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنس میں ماسٹر کیا اور سیاست میں آکر ترکیہ کو کامیابی کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

ترکیہ میں اس وقت بیس ہزار سے زائد ایسی مساجد ہیں جو وزارتِ مذہبی امور کے زیراہتمام چل رہی ہیں۔ ان کے ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ائمہ وخطباء انھی اسکولز اور یونیورسٹی کی الٰہیات فیکلٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ترکیہ کی وزارتِ دیانت ائمہ وخطبا ء انھی یونیورسٹیوں کی الٰہیات فیکلٹی سے ڈگری لینے والوں کو ترجیح دیتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق اس وقت ترکیہ میں 30ہزار امام خطیب اسکول قائم ہیںجن میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں۔

ترکیہ میں مقیم اکثر پاکستانیوں کے بچے ان اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور اس کے طرزِ تعلیم اور نصابی سرگرمیوں سے انتہائی متاثر نظر آتے ہیں کیونکہ یہ اسکول نہ صرف دینی بلکہ جدید دنیاوی علوم پر مشتمل ہیں۔

بچوں کومفت تعلیم دی جاتی ہے،جدید کورسز کروائے جاتے ہیں۔انٹر(بارہویں )کرنے کے بعد ترکیہ ودیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں ان اسکولوں سے فارغ التحصیل طالب علموں کو داخلہ آسانی سے مل جاتا ہے۔

میں نے مہمت فاتح سیلینری سے سوال کیا کہ اسلامی شعائر پر پابندی کے باوجود امام خطیب اسکول کب اور کیسے وجود میں آئے؟

مہمت فاتح سیلینری نے مدرسہ اسکولوں کی تاریخ پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ امام خطیب ہائی اسکولز کا پہلا مرکز Medresetü’l-Vaizin(مدرسۃ واعظین)ہے، جو 1912ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے آخری دور میں مبلغین کی تربیت کے لیے کھولا گیا تھا، اور Medresetü’l-Eimme ve’l-Huteba (مدستہ الائمہ و خطباء)، جو 1913 ءمیں اماموں اور مبلغین کی تربیت کے لیے کھولا گیا تھا ان دونوں مدارس کو 1919ء میں Medresetü’l-Irşad (مدرسۃ الارشاد)کے نام سے ضم کردیا گیا۔

دو سال بعد 8 مئی 1921ء کو مدارس علمیہ نظام یعنی ”سائنس مدارس کا قانون“ رائج ہوا، اس ضابطے نے اسکولوں کے نصاب کو ترتیب دیا، جسے امام خطیب اسکول کا پہلا نمونہ سمجھا جا سکتا ہے۔

1924ء میں Tevhid-i Tedrisat قانون کو اپنانے کے بعد ان اسکولوں کو بند کردیا گیا تھا۔ نئے قانون میں پہلی بار ”امام خطیب“ کا نام استعمال کیا گیا۔ نئے قانون میں مبلغین کی تربیت کے لیے ”امام خطیب اسکولز“ کھولنے کا تصور دیا گیا، تاہم بند ہونے والے سیکڑوں مدارس کے جواب میں صرف 29 مقامات پر امام خطیب اسکول کھولے گئے۔ اس تعداد میں ہر سال قدرے کمی واقع ہوئی اور 1932ء میں امام خطیب اسکول مکمل طور پر پھر بند ہوگئے۔

اگرچہ 1946ء میں پرائمری اسکولوں کے نصاب میں مذہبی علوم کے کورسز کو شامل کرنے کی تجاویز پیش کی گئیں، لیکن اُس وقت کے وزیراعظم ریجپ پیکر نے ان مطالبات کو مسترد کردیا۔ تاہم جیسے جیسے مطالبات بڑھتے گئے، دسمبر 1947ء میں ریپبلکن پیپلز پارٹی، کانگریس اور پارلیمانی مذاکرات میں مذہبی تعلیم کو دوبارہ بحث کے لیے لایا گیا۔ اس بحث میں حمداللہ سپی تنویر نے مثالوں کے ساتھ اماموں کی شدید کمی کی شکایت کی اور کہا کہ کوئی امام وقت پر میت کو دفن کرنے کے لیے نہیں ملتا۔ اُس وقت کے مذہبی امور کے سربراہ احمد حمدی نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لوگوں کو نماز کی امامت کرنے اور خطبہ دینے کے لیے مساجد میں اماموں اور مبلغین کی عدم موجودگی کے باعث شدید مشکلات ہیں۔ رپورٹ میں انہوں نے بتایا کہ اب حالات یہ ہیں کہ کچھ دیہاتوں میں لاشیں کئی کئی دن تک پڑی رہتی ہیں کیونکہ ان کا جنازہ پڑھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔

اسی مشکل کے پیش نظر 1949ء میں جب اسکول دوبارہ کھلے تو انہیں ”امام خطیب کورسز“ کہا جاتا تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد امام خطیب اسکول کے لیے جلال دین اوکتن نے منصوبہ تیار کیا اور اسے حکومت نے قبول کرلیا۔

13اکتوبر1951ء کو منظوری دی گئی اور امام خطیب اسکولوں کو باضابطہ طور پر دوبارہ کھول دیا گیا۔ پہلا اسکول استنبول امام خطیب ہائی اسکول تھا، اس کے بعد مزید 6 اسکول قائم ہوئے۔ اسی سال استنبول، انقرہ، قونیا، ادانا، اسپارتا، قیصری اور قہر مان ماراش میں پہلے امام خطیب اسکول کھولے گئے۔

امام خطیب اسکولوں نے قونیا، قیصری، ماراش، اسپارٹا میں پرائمری اسکول اور سیکنڈری اسکول کی سطح پر تعلیم فراہم کرنا شروع کی۔

1954-55ء کے تعلیمی سال میں ان اسکولوں کا تین سالہ ہائی اسکول سیکشن کھولا گیا۔ امام خطیب اسکولوں کے درمیانی حصے میں قرآن مجید،تجوید، عربی، تفسیر، عقائد، کلام، دینی اسباق، فقہ کا طریقہ، سیرت و اخلاق، حدیث و حدیث کا طریقہ، ترکی تقریر، لکھاوٹ، نفسیات، تاریخ، جغرافیہ، شہریات اور قانون، ریاضی، طبیعیات، کیمسٹری، جسمانی تعلیم، موسیقی، قدرتی سائنس، صحت کی معلومات، اسلامی آرٹ، غیر ملکی زبان، آرٹ کے اسباق… ہائی اسکول کے سیکشن میں قرآن مجید اور تفسیر، عربی، اسلامی فلسفہ و الٰہیات، فقہ، مذاہب، اسلام کی تاریخ، حدیث کا طریقہ کار، نفسیات، سماجیات، اخلاقیات، منطق، ترک اسلامی فنون، ترکی زبان اور ادب، تاریخ، جغرافیہ، فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی اور ہیلتھ سائنسز، ریاضی، کاسموگرافی، فزیکل ایجوکیشن، میوزک، نیشنل ڈیفنس، پینٹنگ اور غیر ملکی زبانوں کے مضامین تھے۔ بعد ازاں 1969ء میں اسپارٹا میں لڑکیوں کے پہلے مذہبی اسکول کی بنیاد رکھی گئی۔ (باقی صفحہ 33پر)

جب یہ پیش رفت امام خطیب اسکول کے حوالے سے ہورہی تھی، 1958ء میں استنبول امام خطیب اسکول کے پہلے فارغ التحصیل طلبہ کے ذریعے ”استنبول امام خطیب اسکول ایلومینائی ایسوسی ایشن“ قائم کی گئی۔

1980ء کے انقلاب کے بعد اس کے نام سے ”استنبول“ کا لفظ ہٹاکر لفظ جو کہ لفظ امام کے مترادف ہے، اس کا نام ÖNDER امام خطیب ایسوسی ایشن رکھا گیا۔اس کے بعد کے سالوں میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، لیکن امام خطیب کی زندگی ہمیشہ ایک جدوجہد سے عبارت رہی۔

میرے اس سوال کے جواب میں کہ ”دیگر کن ممالک میں یہ اسکول سسٹم رائج ہے؟“

مہمت فاتح سیلینری نے بتایا کہ ترکیہ میں ”پروجیکٹ اسکولز“ کے عنوان سے بین الاقوامی امام خطیب اسکولوں کے ساتھ ساتھ سائنس اور سماجی علوم، زبان، فنون، کھیل اور حفظ کے شعبوں میں 22 ممالک بشمول پاکستان میں 54 امام خطیب ہائی اسکول کام کررہے ہیں۔

ترکیہ کے امام خطیب اسکول جدید دینی ماڈل مدارس ہیں جن میں فزکس، کیمسٹری، طبیعیات، قرآن، حدیث، فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔

اس کے تحت ہر شہر میں ایک مفتی ہے اور ان کے نیچے ہر ضلع اور ٹاؤن کا مفتی الگ ہے۔ مساجد کا انتظام بھی ان کے ماتحت ہے۔ ہماری مساجد کے امام جدید تعلیم یافتہ ہیں۔ پینٹ کوٹ ٹائی کے ساتھ خوبصورت قرات اور دلنشیں واعظ کرتے ہیں اور سرکاری سطح پر نہایت معقول معاوضہ پاتے ہیں۔

پاکستان میں ترکیہ کے زیرِ انتظام معارف فاؤنڈیشن کے تحت 28 اسکول کام کررہے ہیں۔لیکن ان اسکولوں میں پاکستان کی خواہش کے مطابق او،اے لیول کی تعلیم دی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دیگر اسلامی ممالک بشمول پاکستان میں بھی امام خطیب اسکول سسٹم شروع کیا جاسکتا ہے اور یہ ہمارے لائحہ عمل و مستقبل کے منصوبوں میں شامل ہے۔