سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا احتجاجی دھرنا
یقیناً پاکستان کے اندر بے امنی کے اسباب و وجوہات درونِ خانہ بھی موجود ہیں۔ ملک کے اندر کئی عوامل ہیں جو بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں پُرتشدد سیاسی میلانات کی وجہ بنے ہیں۔ بلوچستان کے اندر صوبائی یا قومی حقوق کا سیاسی نعرہ رفتہ رفتہ ایک مرتبہ پھر آزادی کی جنگ کے نعرے میں بدلا۔ اب دو عشروں سے زائد عرصے سے پانچ سے زائد مسلح گروہ ریاست سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ اس کے نتیجے میں ماورائے عدالت گرفتاریوں اور مار دینے کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں جس پر سیاسی اور سماجی طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف متواتر صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے۔ خود ریاست بھی بھاری جانی و مالی نقصان سے دوچار ہے۔ ظاہر ہے جنگ میں قوانین نظرانداز ہوجاتے ہیں، عدالتیں پسِ پشت چلی جاتی ہیں۔ ان حالات سے نکلنے کا راستہ یقیناً سیاسی میدانوں میں موجود ہے۔ آئین اور قانون کی بالادستی پُرتشدد سیاسی رجحانات کا تدارک کرسکتی ہے۔ مگر یہاں بدقسمتی سے آئینی حقوق کے بجائے استحصالی پالیسیاں دوام رکھتی ہیں۔ بہرحال مسلح سرگرمیاں ہوں گی تو لوگ بھی لاپتا ہوں گے، اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات بھی رونما ہوتے رہیں گے۔ بلوچ معاشرے کے اندر ان واقعات اور کارروائیوں کے خلاف مؤثر ردعمل موجود ہے۔ ریاستی کارروائیوں کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور سیاست کے میدان میں آواز بلند کی جاتی ہے، انسانی حقوق کے ملکی اور غیر ملکی فورمز سے رابطہ کیا جاتا ہے، ملکی عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔
تربت میں ایک زیر حراست نوجوان بالاچ بلوچ کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا ہے جس کے لواحقین کا الزام ہے کہ اُسے تین دیگر افراد کے ہمراہ جبری لاپتا کیا گیا جس کے بعد چاروں ایک جعلی مقابلے میں مار دیے گئے۔ لواحقین کے مطابق بالاچ 29 اکتوبر کو تربت میں واقع اپنے گھر سے اہلِ خانہ کے سامنے اٹھا لیا گیا اور پھر20نومبر کو اسے عدالت میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ سی ٹی ڈی کا مؤقف ہے کہ ”دہشت گرد بالاچ ولد مولا بخش کو 20نومبر کو پانچ کلو گرام بارودی مواد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کیا گیا۔ دورانِ تفتیش بالاچ نے اعتراف کیا کہ اس کا تعلق کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے ہے۔ اس نے مختلف ٹارگٹ کلنگ، دستی بم اور آئی ای ڈی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا۔“ سی ٹی ڈی کی پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بالاچ کی نشاندہی پر اس کے ساتھیوں کی موجودگی کی اطلاع پر تربت کے علاقے پسنی روڈ پر ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا تو پہلے سے موجود دہشت گردوں نے پولیس پر فائرنگ شروع کردی۔ دستی بم اور راکٹ بھی فائر کیا گیا جس سے پولیس کی گاڑی کو جزوی نقصان پہنچا۔ بالاچ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ موجود پولیس اہلکار بلٹ پروف جیکٹ پہننے کی وجہ سے محفوظ رہے۔ سی ٹی ڈی کے مطابق اس مقابلے میں تین دیگر دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔ تربت کی ایک مقامی عدالت نے لواحقین کی درخواست پر بالاچ کی موت کا مقدمہ سی ٹی ڈی کے خلاف درج کرنے کا حکم دیا۔ لواحقین سمیت سیاسی جماعتوں کے کارکن بالاچ کی میت تربت کے مرکزی چوک پر رکھ کر کئی دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ عدالتی احکامات کے مطابق سی ٹی ڈی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
اس سے پہلے 19نومبر کو کیچ (تربت) کے علاقے ”ہوشاپ بالگتر“ سے تین افراد کی لاشیں ملیں۔ سی ٹی ڈی کے ذرائع سے چلنے والی خبروں میں بتایا گیا کہ تینوں افراد کا تعلق کالعدم مسلح تنظیم سے تھا، جو دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث تھے اور ان کی موت بارودی مواد پھٹنے سے ہوئی جو وہ گاڑی میں کہیں لے جارہے تھے۔ شناخت عادل، شاہ جہاں اور نبی داد کے ناموں سے ہوئی۔ لواحقین کا الزام ہے کہ تینوں افراد اگست میں لاپتا کیے گئے تھے، ان میں سے عادل بلوچ کو ایک وکیل کے چیمبر سے اٹھایا گیا تھا۔ لواحقین الزام عائد کرتے ہیں کہ انہیں پہلے گولیاں ماری گئی تھیں، بعد ازاں گاڑی بارودی مواد سے اڑائی گئی۔
بہرحال بلوچستان کے حالات اب بھی اچھے رخ پر نہیں ہیں۔ فی الوقت امن اور بہتری کے لیے سیاسی بنیادوں پر بھی سنجیدہ کوششیں دکھائی نہیں دے رہیں۔