آزادکشمیر میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جو اپنی نوعیت میں انوکھی ہونے کے ساتھ ساتھ پارلیمانی نظام کا ایک نیا انداز ہے۔ یہ حقیقت میں آزادکشمیر کی اسمبلی کے اندر موجود سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے مگر ہر جماعت اسے اپنی حکومت تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس طرح ’’یہ تیری نہ میری، ہماری حکومت‘‘ ہے جس میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی فارورڈ بلاک شانہ بشانہ دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم چودھری انوارالحق اس حکومت کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں اور اب وہ اس حکومت کو ایک سیاسی جماعت میں ڈھالنے کے لیے کوشاں نظر آرہے ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں اور شخصیات ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی پُرزور مخالفت کررہی ہیں، توکچھ جماعتوں کے ارکان اس جماعت کے قیام کی ٹوہ لگائے بیٹھے ہیں، گویاکہ وہ اس جماعت کی طرف اُڑان بھرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔
اس وقت آزادکشمیر کی ’’ہماری حکومت‘‘کی ایک بھاری بھرکم کابینہ بھی وجود میں آچکی ہے، اور اس کابینہ سے باہر صرف چند سابق وزرائے اعظم ہی رہ گئے ہیں جن میں راجا فاروق حیدر خان، سردار عتیق احمد خان، سردار یعقوب، عبدالقیوم نیازی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شاہ غلام قادر اور پیپلزپارٹی کے صدر چودھری یاسین شامل ہیں، اور ان کے ساتھ چند ارکانِ اسمبلی بھی کابینہ سے باہر ہیں جن میں اکثر کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ آثار وقرائن سے پتا چلتا ہے کہ اگر نئی سیاسی جماعت قائم ہوگئی تو یہ چند ارکان بھی ’’چلیے اُدھر کو، ہوا ہو جدھر کی‘‘کے مصداق نئی سیاسی جماعت کا حصہ بن جائیں گے۔ سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ قائم کرچکے ہیں، مگر وزیراعظم انوارالحق استحکام پاکستان کے بجائے ایک اور پلیٹ فارم کے قیام میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور یوں انوارالحق اور تنویر الیاس میں بھی اب تعلق ِخاطر باقی نہیں رہا۔
وزیراعظم چودھری انوارالحق کے مطابق آزادکشمیر کی موجودہ حکومت سیاسی جماعتوں کے بجائے ایم ایل ایز کی حکومت ہے۔ ایم ایل ایز کی حکومت کی اصطلاح بھی دلچسپ وعجیب ہے کہ آخر ان ایم ایل ایز کا تعلق بھی سیاسی جماعتوں سے ہے اور یہ اپنی جماعتوں کے ڈسپلن کی خلاف ورزی یا فلور کراسنگ کرکے وزیر نہیں بنے بلکہ سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے ہی کابینہ میں شامل ہوئے ہیں۔ خدا جانے اس حقیقت کے باوجود اس حکومت کو سیاسی جماعتوں کی حکومت تسلیم کرنے میں کیوں عار محسوس کیا جارہا ہے! یہ وہ قومی حکومت ہے جس کا تصور برسوں پہلے مختلف سیاسی لیڈر کرتے رہے ہیں، مگر یہ وہ زمانہ تھا جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک زوروں پر تھی اور اس تحریک کی بطور بیس کیمپ کھلی مدد کرنے کے لیے قومی حکومت کا مطالبہ 1990ء کی دہائی میں دہرایا جاتا رہا۔ اب پلوں تلے بہت سا پانی بہہ گیا ہے، اور اب قومی حکومت تو بن گئی ہے مگر یہ حکومت کشمیر میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ بھارت نے کشمیر کے مسئلے کی بساط ہی لپیٹ کر رکھ دی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندانہ سیاست کے لیے اسپیس صفر ہوکر رہ گئی ہے، ایسے میں آزادکشمیر کے اپنے وجود کو خطرات لاحق ہیں تو یہاں سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد کرنا کارِدارد ہوکر رہ گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر حکومت میں شریک بھی ہے اور اس حکومت کا حصہ ہونے کے تاثر سے دامن بچانے کی بھی کوشش کررہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی ایم ایل ایز کی حکومت کی طرح حکومت میں اپنی موجودگی کے لیے مختلف تاویلات کا سہارا لے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حکومت میں ارکانِ اسمبلی تو حصہ دار ہیں مگر کارکن شریک نہیں۔ یہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا انداز ہے، اور اس کے مقاصد انتخابی اور سیاسی ہیں۔
آزادکشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان نئی جماعت کے قیام کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آزادکشمیر کے موجودہ حالات مسلم کانفرنس کو کمزور کرنے کا نتیجہ ہیں۔ سابق وزیراعظم راجا فاروق حیدر خان بھی نئی سیاسی جماعت کے قیام میں آزادکشمیر کے لیے کسی خیر کا پہلو نہیں دیکھ رہے۔ اس طرح آزادکشمیر کا سیاسی منظرنامہ تجریدی آرٹ کا نمونہ پیش کررہا ہے، جہاں تمام سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے اور ہر جماعت حکومت کو اعتماد کے ساتھ اونرشپ دینے سے کترا رہی ہے، حد تو یہ کہ وزیراعظم چودھری انوارالحق حکومت کی ہیئتِ ترکیبی سے مطمئن نہیں، اسی لیے وہ ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔
اسمبلی سے سیاسی جماعت برآمد کرنے کی آزادکشمیر میں تو کوئی مثال نہیں، البتہ پاکستان میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی سے مسلم لیگ برآمد ہوئی تھی جس نے محمد خان جونیجو کو قائدِ ایوان منتخب کیا تھا۔ اب اگر پی ٹی آئی کے دونوں دھڑوں، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اکا دُکا ارکانِ اسمبلی کے اتحاد و ادغام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم ہوتی ہے توآزادکشمیر کی سیاست میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہورہا ہے کہ اب اگر استحکام پاکستان پارٹی کی آزادکشمیر شاخ بھی معرضِ وجود میں آگئی ہے تو پھر اسی کو اپنانے کے بجائے ایک اور پلیٹ فارم کے تجربے کی ضرورت کیا ہے؟ شاید مقصد آزادکشمیر کی سیاست کو اس حد تک بگاڑنا ہے کہ نہ تو سیاست کا کوئی واضح ناک نقشہ باقی رہے اور نہ سیاسی جماعتوں کا حدودِ اربعہ معلوم ہوسکے۔ کون سی سیاسی جماعت کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتی ہے اس کنفیوژن کو بڑھاوا دینا ہی مقصد معلوم ہورہا ہے۔ یہ افراتفری کا وہ منظر ہوتا ہے جس میں کئی بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ آزادکشمیر کے الگ اور نیم خودمختار وجود کے لیے یہ ماحول اور منظر خطرے کی گھنٹی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمے جمائے نظام کی حامی سیاسی شخصیات اس ماحول کی اشاروں کنایوں میں مذمت کررہی ہیں۔
آزادکشمیر میں اِس وقت جو سیاسی ماحول قائم ہے اس میں سیاسی جماعتوں کی انفرادیت اور الگ پہچان تیزی سے تحلیل ہوتی جارہی ہے، اور کچھ عجب نہیں کہ اگلے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے بجائے شخصیات کے درمیان ہی مقابلہ ہو، یا سیاسی جماعتوں کا محض انتخابی ٹکٹ، لیبل اور بینر ہی باقی رہے۔ اس طرح آزادکشمیر تیزی سے ڈی پولیٹیسائز ہونے کی طرف جارہا ہے۔آزادکشمیر کی بعض سیاسی شخصیات پیروں تلے زمین کھسکنے کے اس عمل پر چیں بہ جبیں تو ہیں مگر شاید یہ مکافاتِ عمل ہے۔ ان سیاسی شخصیات اور جماعتوں نے خود کو مضبوط اخلاقی بنیادوںپر کھڑا کرنے اور آزادکشمیر میں ایک شفاف نظام کو فروغ دینے کے لیے کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے ان میں دبائو قبول کرنے کی صلاحیت کمزورہوتی چلی گئی۔اکثر سیاسی راہنما اور ایم ایل ایز ایک فائل کھلنے کی مار ہو کر رہ گئے تو اب اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ دبائو سہنے اور دبائو کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔عملی طور پر وہ خود سپردگی کی کیفیت کا شکار ہوچکے ہیںاور ان کی مثال ’’میں تیرا خیال ہوں، بنائے جا مٹائے جا‘‘ کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔وقت کا دھارا اور ہوا کا جھونکا کٹی ہوئی پتنگ کی طرح اب جہاں چاہے انہیں لے جائے ۔ اس لیے اگر یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ آزادکشمیر کی موجودہ اسمبلی سے ہی ایک نئی سیاسی جماعت برآمد کرنی ہے تو کوئی غیبی طاقت تو اس عمل کو روک سکتی ہے مگر آزادکشمیر کے سیاست دانوں میں اس کا دم خم باقی نہیں رہا، کیونکہ وہ حالات اور اپنی حکمتِ عملی کے باعث مضمحل اور درماندہ ہوکر دیوار سے لگے بیٹھے ہیں۔