ایک عرصہ ہوگیا ہے مارکیٹوں، بازاروں اور منڈیوں میں اشیاء کے نرخ میں ٹھیرائو نہیں ہے۔ صبح، دوپہر اور شام ایک ہی دن میں اشیاء کے نرخ بدلتے ہوئے ملتے ہیں۔ اب تو یہ فیصلہ بھی ہونے جارہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی ہر ہفتے تبدیل ہوا کریں گے۔ یہی حال ملکی سیاست کا بھی ہے۔ آئینی لحاظ سے جو اسمبلی اپنی مدت مکمل کرلے، تو جیسی بھی صورتِ حال ہو، 60 روز یا 90 روز میں انتخابات ہونا لازمی ہے، لیکن یہ آئینی تقاضا بھی پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ عین ممکن ہے کہ ملک میں امن و امان اور معیشت کی دگرگوں صورتِ حال کے پیش نظر کوئی ایسا فیصلہ لے لیا جائے۔ انتخابات تو فروری میں ہی ہوں گے مگر یہ ’’فروری‘‘ نہ جانے کب آئے؟ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند سیاسی جماعتوں کے عوامی مظاہرے، جلسے اور رابطہ عوام مہم اگرچہ جاری ہیں لیکن پر چھائیاں بھی اپنی جگہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے بنوں میں ہونے والے ایک خودکش حملے کے واقعے نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ملک میں غیر ملکی سازش کے ذریعے الیکشن کا عمل سبوتاژ کیے جانے کی مکروہ منصوبہ بندی کا سراغ بھی ملا ہے۔ ملک میں اس وقت ایک جانب امن و امان کی دگرگوں صورتِ حال ہے دوسری جانب صدر عارف علوی کو اُن کے منصب سے ہٹانے کے لیے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے، اگر عدالتِ عظمیٰ نے اس درخواست پر مثبت فیصلہ دے دیا اور صدر علوی منصب سے الگ ہوگئے تو اُن کی جگہ چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر بن جائیں گے۔ سینیٹ کی اگلے تین سال کی مدت کے لیے چنائو کا عمل بھی فروری کے آخری ہفتے یا مارچ کے پہلے ہفتے میں ہونا ہے، لیکن یہ سب کچھ دھندلی تصویر کے نیچے ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی چاہتی ہیں کہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال ایسی ہونی چاہیے جس میں انتخابی مہم محفوظ انداز میں چلائی جاسکے۔ تحریک انصاف کے لیے الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ کہ وہ بیس روز کے اندر اندر پارٹی الیکشن کرائے تاکہ اسے اس کا انتخابی نشان مل سکے، تحریک انصاف کی جیل سے باہر فعال قیادت اس مسئلے کی وجہ سے پریشان دکھائی دے رہی ہے، لیکن الیکشن کمیشن کا یہی فیصلہ ہوگا کہ پارٹی الیکشن نہ کرائے گئے تو تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف برملا کہہ رہی ہے کہ اسے اگر سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا تو انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔
الجھی ہوئی سیاست، دیوار سے لگی ہوئی معیشت اورگمبھیر معاشی مسائل میں الجھے عام آدمی کو ہر آنے والی منتخب حکومت امید کی ایک نئی کرن دکھائی دیتی ہے، لیکن 2018ء سے2023ء کا عرصہ قومی معیشت کو تاریخی تباہی کے دہانے پر لے گیا، پاکستان کے پاس اِس وقت زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر بمشکل 13.3ارب ڈالر ہیں، اس میں کمرشل بینکوں کا 5 ارب 42کروڑ ڈالر کا سرمایہ بھی شامل ہے۔ اِس سال پاکستان کو قرضوں کی مع سود ادائیگی کے لیے 25 ارب ڈالر درکار ہیں، اس رقم کا بندوبست کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اِس ماہ دسمبر کے آخر تک 2ارب ڈالرکا نیا قرضہ مل رہا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مجموعی لحاظ سے 15ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے، تاہم قرض بھی بڑھ جائے گا۔ دسمبر میں آئی ایم ایف سے قرض کی قسط مل جائے گی، تاہم قرض کے بوجھ سے نجات نہیں ملے گی۔ دوسری طرف ملک پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں کی مالیت 64 ہزار ارب روپے سے متجاوز ہوگئی ہے۔ قومی معیشت کے سکڑنے کا عمل اور عالمی کساد بازاری، بڑھتی ہوئی شرح سود اور اندرون ملک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی غیرمعمولی گراوٹ بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ پرانے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضوںکا حصول معاشی مسائل کا حل نہیں۔
ملک میں تاریخی مہنگائی سے پریشان حال لوگوں کو نئی منتخب حکومت کا بے چینی سے انتظار ہے،لیکن ہماری سرحدوں کے پار کی صورتِ حال جس قدر پریشان کن ہے اس کا احاطہ چند لفظوں میں ممکن نہیں۔ پاکستان کے نظریاتی مفادات کے تحفظ کے لیے تن، من، دھن قربان کرنے والی سیاسی قوتوں کو سوچنا اور تجزیہ کرنا چاہیے کہ ہمارے آس پاس کے حالات کس قدر بدل رہے ہیں، اور درست حقائق قوم کے سامنے رکھنے چاہئیں۔
حال ہی میں امریکہ کی ہاؤس کمیٹی برائے خارجہ امور کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان حکومت، تحریک طالبان پاکستان کو مسلح کررہی ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا الگ بات ہے، تاہم اسے دشمن کی اڑائی ہوئی بات سمجھ کر نظرانداز کردینا بھی مناسب نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑے گئے امریکی ہتھیارطالبان حکومت کی نگرانی میں آگئے جس کے بعد یہ جدید ہتھیار پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تک پہنچ گئے۔ رپورٹ کے مطابق اِن ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو عسکری طور پر مضبوط کیا۔ امریکی امورِ خارجہ کمیٹی کے چیئرمین نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ افغان انتظامیہ پاکستان مخالف گروہوں کو مسلح کرنے میں پوری طرح ملوث ہے۔ پنٹاگون کی ایک رپورٹ میں اِس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ امریکی انخلا کے وقت لگ بھگ سات ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ افغانستان میں رہ گیا تھا جبکہ امریکہ نے افغان فوج کو چار لاکھ سے زائد ہتھیار فراہم کیے تھے جن میں سے تین لاکھ کے قریب انخلا کے وقت افغانستان میں ہی رہ گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان انتظامیہ کی کھلی چھوٹ کے باعث ٹی ٹی پی کو ملنے والے ہتھیاروں میں جدید امریکی ہتھیار شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اِن ہتھیاروں کے ذریعے ٹی ٹی پی نے لکی مروت، پشاور، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ملک کے کئی شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں اور سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ امن و امان کی یہ صورتِ حال سنگین نہیں تو پریشان کن ضرور ہے، یہی ایک نکتہ ہے جس کے باعث ملک میں ہونے والے انتخابات کسی حد تک متاثر ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب قومی معیشت کا حال یہ ہے کہ نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اسلام آباد میں ایک اقتصادی فورم پر اس کی تصویرکشی کی ہے کہ ملک پر واجب الادا قرضوں، حتیٰ کہ صرف سود کی ادائیگی ناممکن حد تک مشکل دکھائی دیتی ہے۔ وزیر خزانہ بنیادی طور پر ماہر معاشیات ہیں اور وزیر خزانہ ہونے کی حیثیت سے وہ ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں کا ادراک رکھتی ہیں۔ انھیں پورا یقین ہے کہ سنجیدہ کوششیں ملک کو معاشی گرداب سے نکال سکتی ہیں۔ ملک پر واجب الادا قرضوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1947ء سے 2008ء تک پاکستان مجموعی طور پر 6127ارب روپے کا مقروض تھا۔ 2013ء تک کے پانچ سالہ دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس میں 133فیصد یعنی 8165 ارب روپے کا اضافہ کیا اور یہ 14292ارب روپے پر پہنچ گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں اس حجم کو 74.60فیصد یعنی 10661ارب روپے بڑھاتے ہوئے 24953ارب روپے پر پہنچا دیا جو ملکی جی ڈی پی کا 72.5 فیصد تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے قرضوں میں کمی لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن تین سال میں 60 فیصد یعنی 14907ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا اور جون 2021ء میں پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرضہ 39859 ارب روپے پر پہنچ گیا جو مجموعی قومی پیداوار کا 83.5فیصدبنتا ہے۔پی ڈی ایم کے دورِ حکومت 30 جون 2022ء تا 30جون2023ء ملک پر واجب الادا قرضوں کے حجم میں 13638ارب روپے کا اضافہ ہوا، اس دوران ڈالر کی قدر 204.4 روپے سے بڑھ کر 286.4 روپے پر پہنچ گئی جس کے باعث غیر ملکی قرضے 27.3 فیصد سے بڑھ کر 28.4 فیصد پر پہنچ گئے اور ان پرسود کی شرح 3182 ارب روپے سے بڑھ کر 5671 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی۔ آج ملک پر واجب الادا قرضے 62000 ارب روپے سے متجاوز ہوچکے ہیں۔
اس وقت پاکستان جن ملکوں اور عالمی اداروں کا مقروض ہے ان میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، پیرس کلب اور دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سرفہرست ہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اُن 10ملکوں میں شامل ہے جنھوں نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ قرض لے رکھا ہے۔ آئی ایم ایف کے سب سے بڑے مقروض ملکوں کی بات کی جائے تو ان میں ارجنٹائن، مصر، یوکرین اور ایکواڈور کے بعد پاکستان پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ ایشیائی ملکوں میں آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ ہوتا یہ آرہا ہے کہ قرضے لینے والا کوئی اور ہوتا ہے اور ادا کرنے والا کوئی اور۔ بالآخر یہ سب ملک کے ٹیکس دہندگان کو بھرنا پڑتا ہے۔ جہاں پاکستان کے محب وطن اور اس کا درد رکھنے والے شہری یہ بوجھ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں، وہیں اخلاقی تقاضا بنتا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ جس روز ہر شہری بہ لحاظِ حیثیت اس میں شریک ہوگیا، غیر ملکی قرضے اتارنے اور ترقی و خوشحالی کا نہ رکنے والا سفر شروع ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
ہمارے ملک کو مختلف نوعیت کے بے شمار سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ہماری معاشی بدحالی اور ابتری سر فہرست ہیں۔ وطنِ عزیز قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دب چکا ہے۔ ملکی ادارے سنگین خسارے کا شکار ہیں۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان ہاتھوں میں تعلیمی اسناد پکڑے باعزت روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور بد قسمتی سے اس صورتِ حال میں بہتری کے بجائے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر نئی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی خزانہ خالی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈال دیتی ہے، پچھلے چالیس پچاس سال سے بس یہی سب کچھ چل رہا ہے اور قرض در قرض لے کر اس ملک کو چلایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کو اس دلدل میں پھنسانے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کا ایک آسان اور سادہ جواب یہ ہے کہ من حیث القوم ہم سبھی اس کے ذمہ دار ہیں، ہم سب نے مل کر اس ملک کو بد ترین معاشی بحران سے دوچار کیا ہے۔ کبھی ڈیفالٹ کرنے کی باتیں ہوتی ہیں اور کبھی عالمی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر قرض لے کر اس کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ غیر ملکی قرض حاصل کرلینا ہی ایک کامیاب معاشی پالیسی کا ثبوت اور دلیل بن کر رہ گیا ہے۔ تباہ حال بڑے بڑے قومی اداروں کو اسکریپ کے طور پر اونے پونے داموں فروخت کرنے کے عمل کو نجکاری کا نام دے کر ڈھول پیٹتے ہوئے کریڈٹ لیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ نہیں سوچا جاتا کہ آخر ہم اس معاشی بدحالی کی دلدل میں کیونکر پھنسے ہیں اور اس سے نکلنے کی کیا تدبیریں ہیں۔ قرضے لے کر ملک چلانا کون سی دانش مندی ہے! اور جب گھر تباہ و برباد ہوجائے تو گھر کی قیمتی اشیاء کو فروخت کرکے گزارا کرنا کون سی عقل مندی ہے! اس ملک کی معاشی تباہی کی طویل داستان کا ہر باب اس قدر سنگین اور خوف ناک ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔ انگریز صاحب بہادر نے یہاں سے جاتے وقت کم و بیش بائیس ہزار افراد میں جاگیریں تقسیم کی تھیں، اور آج وہی خاندان اس ملک کے وسائل پر قابض اور سیاہ و سفید کے بلاشرکتِ غیرے مالک چلے آرہے ہیں۔ کیا کوئی عوام کو یہ بتانا پسند کرے گا کہ ماضی میں کن کن شرفاء نے کتنے قرضے لیے اور کس عوض معاف کرائے ہیں؟ سرکاری اداروں کی تباہی کی ایک بڑی وجہ میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں ہے۔ اگر کسی ادارے میں ایک ملازم کی ضرورت ہو اور وہاں پچاس افراد بھرتی کردیے جائیں تو اس ادارے کا تباہ ہوجانا یقینی ہے، کچھ ایسا ہی ہمارے سرکاری اداروں میں بھی ہوا ہے، درجنوں غیر ضروری سرکاری ادارے نظر آتے ہیں جن کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی کوئی کارکردگی ہے۔ سیاسی آشیرباد کی بنا پر احساسِِ تحفظ اور عدم احتسابی نے سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پرائیویٹ ادارے تو کامیا بی سے چلتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں، مگر سرکاری ادارے ہمیشہ خسارے میں ہی نظر آتے ہیں۔ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ وہ تمام ادارے جن کے سربراہوں کی تنخواہ پچاس ساٹھ لاکھ روپے ہے، خسارے میں چل رہے ہیں؟ زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی اجناس اور اشیائے خورونوش کی قلت اور ان کی درآمد کا عمل حد درجہ باعثِ تکلیف و افسوس ہے۔ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار نے بری طرح سے زراعت کے شعبے کو گزند پہنچائی ہے، جبکہ دوسری جانب دنیا ریگستانوں میں زراعت کو فروغ دے رہی ہے۔ ہماری برآمدات میں بتدریج کمی اور درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مقامی صنعت کو تحفظ دینے کے لیے انقلابی اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔
ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ جنگِ عظیم دوئم میں تباہ و برباد ہوجانے والے ممالک محض چند ہی دہائیوں میں اپنے پائوں پر دوبارہ کھڑے ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے نیک نیتی سے درست سمت میں پالیسیاں بنائیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیشت کی بحالی کے لیے ایک میثاق پر متفق ہوجائیں اور عہد کریںکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو ملکی مفاد پر قربان کریں گی۔ مراعات یافتہ طبقاتی نظام کے خاتمے کا یہی وقت ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ صدرِ مملکت، وزیر اعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور اراکینِ پارلیمنٹ بغیر مراعات کے اپنی خدمات انجام دیں۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کے نظام کو موثر اور مربوط بنایا جائے، سرکاری دفاتر میں کفایت شعاری کو نافذ کیا جائے۔
معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سات دہائیوں سے کوشش یہ رہی کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لے لیا جائے، اسی سبب قوم پر قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا گیا، معاشی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا رہا۔ اب دعویٰ کیا جارہا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل بیرونی قرضوں کے بجائے ملک میں بڑے پیمانے پر غیرملکی سرمایہ کاری لائے گی، پاکستان اور کویت کے مابین سرمایہ کاری کے لیے 7 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہونے جارہے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ ہفتے یہ خوش خبری دی کہ اگلے چند ہفتوں میں کئی ممالک کے ساتھ معدنیات، آئی ٹی، زراعت اور دیگر شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوجائیں گے، کویت 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یادداشتوں پر دستخط کرنے جارہا ہے جس میں آبی ذخائر کی توسیع، کان کنی کی سہولیات، ساحلی علاقوں کے لیے تمر کے جنگلات کی حفاظت اور توسیع، آئی ٹی کے شعبے اور تحفظِ خوراک کے منصوبے شامل ہیں۔ حکومت کی دوسری ترجیح پی آئی اے سمیت متعدد قومی اداروں کی نج کاری ہے۔ اگلے سال جنوری میں یہ کام ہونے جارہا ہے۔ اس کے بعد بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں، اسٹیل مل اور ریاست کے زیر ملکیت اداروں کی نج کاری ہوگی۔
وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری آرہی ہے۔ یہ کام ٹیکس سسٹم میں اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں ہے، اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی زبوں حال معیشت کی بحالی، کھربوں روپے کے قرضوں کی ادائیگی اور کثیرالمقاصد منصوبوں پر عمل درآمد کی غرض سے ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ٹیکس چوری روکنے کے اقدامات کسی دبائو کے بغیر کیے جانے چاہئیں جس کے لیے ایف بی آر اور نادرا سے بھی مدد لی جارہی ہے۔ چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر کی سربراہی میں 8 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے ایف بی آر کے منصوبے پر عمل درآمد کے بارے میں سفارشات مرتب کرے گی۔ ملک میں ٹیکس دہندگان کی اصل آمدن کا جائزہ لیا جارہا ہے، توقع ہے کہ ٹیکس سے فرار کے راستے بند ہوجائیں گے۔ آئی ایم ایف اگلے سال ملک میں 15 سے 20 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دے چکا ہے، سب معیشت دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملکی تاریخ کے 76برس کے تناظر میں معیشت کو سب سے زیادہ نقصان تجارتی عدم توازن اور اندرونی سطح پر ٹیکسوں کے کمزور نظام کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہر دور میں محصولات کے نظام میں اصلاحات اور ٹیکس دہندگان کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت پربھی زور دیا جاتا رہا ہے۔ مالی سال 2018ء میں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں 7 لاکھ 15 ہزار کا اضافہ ہوا تھا۔ جون 2023ء سے قبل گیارہ ماہ میں 11 لاکھ 61ہزار نئے ٹیکس دہندگان کا اضافہ ہوا۔ ابھی تک ٹیکس ادائیگی کے قابل طبقے کا محض 33 فیصد ٹیکس میں شامل ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ ٹیکسوں میں اضافے کے بجائے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ اگر حکومت ٹیکسوں کی ادائیگی کے طریقہ کار کو آسان بنادے تو ٹیکس گزاروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔