اسرائیلی افواج کی غزہ کے قلب میں موجودگی کے باوجود حماس و غزہ کے عوام میں شکست کے کوئی آثار نہیں
فلسطین اسرائیل جنگ کو سات ہفتے گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں مغرب میں کئی نئے رجحانات دیکھنے میں آئے، جس کی بنیاد پر اگر اس جنگ کو مغرب میں فلسطین کے حوالے سے نئی آگہی اور معلومات کے نئے باب کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ فلسطین اسرائیل تنازعے کو 75 سال گزر جانے کے باوجود بھی شاید مغربی عوام کی اکثریت اس بات سے قطعی نابلد تھی کہ اس کی کیا وجوہات ہیں اور کیا تاریخی تناظر ہے۔ شاید اس بات کا علم بھی ایک اقلیت کو ہی ہوگا کہ اس تنازعے کی ابتدا ہی دراصل مغربی اقوام کے فلسطین پر قبضے کے بعد ہوئی ہے۔ ورنہ فلسطین ایک طویل عرصے سے ایک پُرامن خطہ تھا جس میں تینوں مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے ماننے والے اپنے مقاماتِ مقدسہ تک جانے میں مکمل طور پر آزاد تھے۔
یہ 7 ہفتے کا تنازع اس حوالے سے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ پہلی بار دنیا کی تمام بڑی قوتیں بغیر کسی حجاب کے اسرائیل کی مکمل پشت پر نظر آئیں، تو دوسری جانب فلسطین میں بھی دونوں بڑی سیاسی قوتوں سمیت دونوں حصوں کے فلسطینی عوام میں مکمل یکجہتی نظر آئی۔ حماس اور الفتح کی سیاسی رقابت اور رسّاکشی کا اس پورے عرصے میں شائبہ تک نہیں ملا، بلکہ اس حوالے سے الفتح کی پوری سیاسی و حکومتی مشنری نے مکمل طور پر حماس کے مؤقف کی حمایت کرکے اس بات کو ثابت کیا کہ یہ مسئلہ محض غزہ کا نہیں بلکہ پورے فلسطین کا ہے۔
مغرب کے عوام میں جنگِ عراق کے ایک طویل عرصے کے بعد حکومت مخالف بیانیہ پنپتا نظر آیا، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیانیہ حکومت و اپوزیشن کے بیانیے سے قطع نظر ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ میں بھی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا مؤقف اس اہم معاملے پر یکساں تھا۔ برطانیہ میں اس پر خاصی مزاحمت نظر آئی جس نے سڑکوں سے لے کر ایوانوں تک ایک الگ شناخت قائم کی، اس میں اپوزیشن و حکومتی اراکینِ پارلیمان نے کھل کر حصہ لیا۔ سیاسی جوڑ توڑ اور جمع تفریق سے قطع نظر اس وقت پورے مغرب میں حکومت اور عوام کے بیانیے میں ایک واضح فرق محسوس کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے مغربی ممالک میں سیاسی حدت سے بچنے کے لیے خود حکمران اس معاملے پر اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرتے نظر آئے جس میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون سرفہرست ہیں، جنہوں نے بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کی وجہ سے سب سے پہلے اسرائیل کے جارحانہ عزائم کی مذمت کی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
مغربی میڈیا کی جانب داری کا اثر سوشل میڈیا نے نہ صرف زائل کردیا بلکہ عوامی اور سوشل میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے روایتی میڈیا نے بتدریج جنگ کی یک طرفہ کوریج کو کسی حد تک کم کردیا۔
اس ساری صورتِ حال میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ مغرب کی سیاست میں فلسطین کی وجہ سے ایک سنگین بحران پیدا ہوچکا ہے۔ لندن میں تقریباً ہر ہفتے ہونے والے مظاہروں میں عوام کی بھرپور شرکت نے نہ صرف مغرب کے حکمرانوں کے لیے مشکلات پیدا کیں بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بلاتفریقِ رنگ و نسل و مذہب آواز بلند کرکے فلسطین کے مظلوموں کو واضح پیغام دیا کہ مغرب کے عوام و حکمران دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔
واضح رہے کہ جنگ بندی کے حوالے سے ہونے والے مظاہروں کو سابق وزیر داخلہ سوئیلا براومین نے نہ صرف روکنے کی کوشش کی بلکہ پولیس پر جانب داری کا الزام بھی عائد کیا۔ ان مظاہروں میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے شرکت نہیں کی، اور دوسری جانب گزشتہ اتوار 26 نومبر 2023ء کو اسرائیل کی حمایت میں ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 45 سے 60 ہزار افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کا عنوان Antisemitism رکھا گیا جس میں یہود منافرت کا بیانیہ سامنے نظر آیا لیکن دراصل یہ مارچ اسرائیل کی حمایت میں تھا جس میں بڑی تعداد میں اسرائیلی پرچم موجود تھے، اور فلسطین کی جدوجہد ِآزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
اس سے ایک دن قبل ہفتہ 25 نومبر کو بھی لندن میں جنگ بندی کے حوالے سے اور فلسطین کے حق میں مارچ کیا گیا۔ گو کہ اسرائیل کی حمایت میں ہونے والا مارچ اس بیانیے کے ردعمل میں نظر آیا کہ جس میں جنگ بندی اور اسرائیل و فلسطین تنازعے کے پُرامن حل کی بات کی جارہی ہے۔ اسرائیل مخالف جذبات کو بھی اب مغرب میں Antisemitism سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کو پورا مغرب اب اسرائیل کے صہیونی عزائم سے الگ کرکے دیکھ رہا ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں کیے جانے والے مارچ کی اہم ترین بات یہ تھی کہ اس میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن اور اراکین پارلیمنٹ نے شرکت کی، اس کے علاوہ شوبز اور دیگر شعبہ جات کی نمایاں شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اس مارچ سے خطاب کرتے ہوئے یہودیوں کے چیف ربی نے کہا کہ عوام سوشل میڈیا کے بجائے حقیقی معلومات پر توجہ دیں۔ ان کا یہ بیان اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ فلسطین اسرائیل جنگ میں یہ سوشل میڈیا و میڈیا کے محاذ پر اسرائیل کی مکمل شکست کا اعتراف ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں کیا جانے والا مارچ برطانیہ کی تاریخ میں 1936ء کے بعد کیا جانے والا دوسرا بڑا مارچ ہے جس کا انعقاد یہودی مذہب کے ماننے والوں نے کیا ہے۔ اس سے قبل 1936ء میں مشرقی لندن کے علاقے میں ہونے والے فسادات کے بعد ایک Antisemitism مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت برطانیہ میں یہودی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد تقریباً 250,000 ہے جن میں سے اکثریت برطانیہ کے دو بڑے شہروں لندن اور مانچسٹر میں مقیم ہے۔ اس حوالے سے مارچ میں دہشت گردی، Antisemitism کے عنوانات کا زیادہ چرچا رہا، تاہم اُس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوئی جب انتہائی دائیں بازو کے نسل پرست رہنما ٹومی روبنسن نے مارچ میں شرکت کی کوشش کی تو مارچ کی انتظامیہ نے ان کو شرکت سے روک دیا، جس پر مزاحمت پر پولیس ٹومی روبنسن اور ان کے ساتھیوں کو مارچ سے دور رکھنے میں کامیاب رہی۔ ٹومی روبنسن نے اس سے قبل 11 نومبر کو ہونے والے جنگ بندی مارچ میں بھی مداخلت کی کوشش کی تھی جس کو پولیس نے ناکام بنادیا تھا۔
برطانیہ میں جنگ بندی مارچ کی مخالفت میں یہودی منافرت (Antisemitism) مارچ کا انعقاد اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اسرائیل کے حامیوں کے پاس ان مظالم اور پورے فلسطین کے عوام کو سزا دینے کے حق میں کوئی دلیل بھی باقی نہیں رہی۔ 7 ہفتے کی جنگ میں مغرب کی سیاست، سماج اور حکومت میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کے حوالے سے بلا تفریقِ رنگ و نسل و مذہب مشترکہ مظاہروں کے انعقاد سے مغرب کے عوام نے مغرب کی حکومتوں کی پالیسی سے نہ صرف اعلانِ برات کیا ہے بلکہ مظلوموں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ مغرب کی حکومتیں اور عوام دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ جنگ بندی میں مزید دو دن کی توسیع اس بات کا غیر اعلانیہ اقرار ہے کہ جنگ فی الحال ختم ہوچکی ہے اور اسرائیل اپنے تمام تر بلند و بانگ دعووں کے باوجود بھی نہ حماس کو ختم کرسکا اور نہ ہی فوجی آپریشن سے اپنے قیدیوں کو بازیاب کروا سکا۔ ایک طرف اسرائیل اپنے قیدی مذاکرات سے آزاد کروا رہا ہے تو دوسری جانب اسرائیل میں تاحال حکومت پر دباؤ اور اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ غزہ میں 14 ہزار سے زائد ہلاکتوں کے باوجود بھی کوئی ایک مظاہرہ حماس کے خلاف رپورٹ نہیں ہوا، نہ ہی اسرائیلی افواج کی غزہ کے قلب میں موجودگی کے باوجود حماس و غزہ کے عوام میں شکست کے کوئی آثار تلاش کرنے میں مغربی میڈیا کامیاب ہوا ہے۔ 7 ہفتے کی جنگ کا حاصل ابھی تک یہی نظر آرہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ نہ صرف زندہ ہوا بلکہ غزہ کے، محاصرے میں موجود فلسطینیوں کی آواز اور اُن کے کرب کو اب پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں لیبر پارٹی کے سابق قائد جرمی کوربن نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پولیٹکل ایلیٹ سیاسی اشرافیہ اس مسئلے پر ایک طرف ہے۔ اور مغرب میں ہونے والی نئی ڈیولپمنٹ اسی بات کا اظہار ہے۔ یہ جنگ اشرافیہ اور عوام کے درمیان ایک بڑھتی ہوئی خلیج کا اظہار بھی ہے، جس کا انجام بڑھتے ہوئے معاشی تفاوت کے ساتھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس میں مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اور سیاسی اشرافیہ بمقابلہ عوام کی سی صف بندی ہے۔ اس کا حتمی انجام ابھی شاید دور ہے، لیکن اس پورے منظرنامے میں مسئلہ فلسطین بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے، اور اشرافیہ اور عوام کے درمیان کشمکش کی علامت کے طور پر ابھرا ہے۔