تیز رفتاری ہی شاید ترقی کا دوسرا نام ہے! تیز رفتاری نے فاصلے سمیٹ لیے ہیں… انسان، انسان کے قریب آرہا ہے… یہ الگ بات کہ وہ اپنے آپ سے دور ہورہا ہے۔ ہر شے، ہر دوسری شے کے قریب ہے۔ یہ تیز مسافرت، یہ جہاز، یہ انگلستان، یہ امریکہ، یہ افریقہ، یہ پاکستان اور پھر یہ زندگی… اور یہ رہا قبرستان! ہر سفر جلدی کا سفر ہے۔ کہیں قیام ہی نہیں… تیز رفتاری کی منزلوں میں کوئی مقام بھی تو نہیں… کہیں کوئی پڑائو نہیں۔ زمین سے آسمان تک کے فاصلے طے ہورہے ہیں… برسوں کی مسافتیں منٹوں میں طے ہوتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے چاند، سورج، ستارے، سیارے، سب زمین پر اتر آئے ہوں… یا… زمین آسمان پر جاپہنچی ہو۔سائنس نے انسان کو رفتار دی ہے، لیکن یہ رفتار بے جہت و بے سمت ہے۔ آج کی راہیں کوئے جاناں کو نہیں جاتیں۔ آج کا انسان اپنے آپ سے فرار چاہتا ہے۔ اپنے جامے سے نکلنے والا انسان اپنی بے مائیگی کا احساس نہیں کرتا۔
وسیع و بسیط خلا اسے کسی بنانے والے کی طرف متوجہ نہیں کرتا! انسان جلدی جلدی محنت کرتا ہے اُس آدمی کی طرح، جو گھاس کی رسی بُن رہا تھا اور اس کے پاس اس کا گدھا بُنی ہوئی رسّی کو کھاتا جارہا تھا… برسوں کی محنت کے بعد اس کی کُل پونجی رسّی کا اتنا حصہ تھی، جو اس کے ہاتھ میں تھی… باقی گدھا کھا چکا تھا۔ انسان محنت کرتا جاتا ہے اور اس کی محنتیں مٹتی جاتی ہیں… اُس کا حاصل کیا ہے… اُس کی موجود زندگی… باقی سب لامحدود ماضی کی نذر ہوجاتی ہے۔ محسوسات سے محروم انسان، معلومات کے سفر پر روانہ ہے…!! انجام نہ جانے کیا ہوگا!
انسان فطرتاً عجول بروزنِ جہول ہے۔ انسان نے ذرّے کا دل چیر کر طاقت دریافت کی ہے، لیکن ذرّے میں طاقت پیدا کرنے والے کو دریافت نہیں کرسکا۔ انسان نے آسمانوں کے راستے دریافت کیے ہیں لیکن اسے دل کا راستہ نہیں ملا… باہر کی کائنات نے انسان کو اندر کی کائنات سے غافل کر رکھا ہے۔
خارجی کائنات میں رفتار ہے، گردشیں ہیں، عجلت ہے۔ زمان و مکاں کی وسعتوں میں ہر شے تیزی سے متحرک ہے۔ انسان اس حرکت سے خود ہی متحرک ہوجاتا ہے۔ وہ لپکتا ہے ستاروں پر، وہ دوڑتا ہے سایوں کے پیچھے، بھاگتا ہے سرابوں کے تعاقب میں، وہ چاہتا ہے کہ وہ راز ہائے سربستہ معلوم کرلے… لیکن اسے معلوم نہیں کہ وہ خود ہی کلیدِ اسرار ہے، وہ خود شاہکارِ تخلیق ہے، حسنِ لازوال کا مرقع جمال ہے… جب تک وہ اپنا راز دریافت نہ کرے، وہ رازِ کائنات معلوم نہیں کرسکتا۔ اس کا بیرونی سفر تیز رفتار ہے لیکن اندرون کا سفر کسی عجلت کا تقاضا نہیں کرتا۔ اس کی باطنی کائنات، داخلی دنیا، ہر بیرونی، ظاہری اور خارجی کائنات سے زیادہ وسیع و عریض ہے، زیادہ خوبصورت ہے، زیادہ دلچسپ و دل پذیر ہے۔
رفتار کے سفر نے انسان کو اُس کے اصل سفر سے الگ کردیا ہے۔ انسان خود ہی روبوٹ بن کے رہ گیا ہے۔ وہ ملک ملک پھرتا ہے، سکون کی تمنا میں… شہر شہر، نگر نگر چھانتا ہے، دولت کی تلاش میں۔ وہ ملکِ دلبری کا راستہ نہیں جانتا، جہاں دولتِ تسکین کے خزانے مستور ہیں۔ تیز رفتار انسان، سایۂ دیوارِ یار سے محروم ہے!
آج کا انسان، تمام تر آسائشوں اور رفتاروں کے باوجود اکابرین سلف کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ دستورِ حیات کی اساس، ماضی کے عظیم انسانوں نے رکھی۔ آج کی عمارت اسی بنیاد پر قائم ہے۔ لیکن آج کا انسان اس عمارت کو جلد مکمل کرنا چاہتا ہے اور تکمیل ِ تہذیب، اختتامِ تہذیب ہے۔
جلد رفتاری نے پہلے بھی بڑے گل کھلائے ہیں۔ جلد بازیوں نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں جلوے دکھائے ہیں۔ تیز رفتار جہازوں اور گاڑیوں اور بسوں نے انسانی زندگی کو جس طرح تباہ کیا، اس کی مثال ہی نہیں ملتی۔
آج کا عجلت باز انسان دنیا کو تیزی سے ایک نئی راہ کی طرف لے جارہا ہے۔ آج کے انسان کو جلد بازی نے ایک عجب خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ خوف محض اندیشہ خیال نہیں… یہ خوف ایک حقیقت بن کر افقِ زندگی پر طلوع ہورہا ہے۔ یہ خوف ہے ایک تیسری جنگِ عظیم کا، یہ جنگ بین السیاروی جنگ ہوگی… اور اس جنگ کی تعریف صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اس کے بعد کوئی اور جنگ نہیں۔ دنیا میں کوئی انسان ہی نہ ہوگا تو جنگ کون لڑے گا کس کے ساتھ، کس کے لیے!
تیز رفتار ارتقا، بظاہر انسان کو انسان کے قریب لایا، لیکن اصل میں خطرہ، خطرے کے قریب آیا ہے!
آج کی مہذب و متمدن دنیا میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دنیا میں پسماندگی کا قائم رہنا انسان کے لیے بڑا پیغام ہے۔
(”قطرہ قطرہ قلزم“۔۔۔واصف علی واصف)
مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔