اسرائیل کے جنگی جرائم کا محاسبہ لازم ہے

غاصب اسرائیلی ریاست کی طرف سے سفاکی کی انتہاؤں کو چھوتے مظالم کا سلسلہ ڈیڑھ ماہ سے زائد بلا روک ٹوک جاری رہنے کے بعد آج کل ایک عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت وقتی طور پر اگرچہ معطل کردیا گیا ہے تاہم منہ زور ناجائز ریاست اس دوران بھی جب چاہتی ہے نہتے، معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کو گولہ باری اور فضائی حملوں کا نشانہ بنانے میں کوئی رکاوٹ محسوس کرتی ہے نہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی میں کوئی شرم و حیا، اخلاقی ضوابط یا عالمی قوانین اُس کے آڑے آتے ہیں، کہ اُس نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں جس وحشت و سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے، جنگوں کی تاریخ میں اس کی مثال تلاش کرنا بھی آسان نہیں۔ اس کے فوجی دستوں نے الشفا اسپتال زبردستی خالی کراکے اس میں اپنے ٹینک گھسا دیے، غزہ میں انڈونیشیا کے قائم کردہ اسپتال پر حملہ کرکے ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے سمیت 12 افراد کو شہید کردیا، جب کہ متعدد ڈاکٹر اور مریض اس حملے میں شدید زخمی بھی ہوئے۔ غاصب صہیونی فوج کے گھیرائو کے دوران اندھا دھند زہریلے گولہ بارود کے استعمال سے اسپتال کے اندر دھواں بھرنے کے بعد لوگوں نے دم گھٹنے سے بچنے کے لیے عمارت سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو فوج نے تمام اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ان زخمی اور بیمار افراد پر فائرنگ شروع کردی، جس کے باعث ڈھائی سو سے زائد زیر علاج زخمیوں کو باہر نکالنا محال ہوگیا۔ جبالیہ کے علاقے میں اقوام متحدہ کے قائم کردہ اسکول اور الخورہ میں قائم پناہ گزیں کیمپ پر اسرائیلی بم باری کے باعث 80 افراد شہید ہوگئے، نصائرات کیمپ میں رہائشی عمارتوں پر بمباری سے 22 رہائشی شہید ہوئے، ایک اور شہری رہائشی عمارت پر حملے میں 26 افراد موت کے منہ میں چلے گئے، جب کہ رفح کے دو گھروں پر حملوں میں بھی 11 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران غاصب اسرائیل نے جنگ کے تمام ضابطوں کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائیں۔ معصوم بچوں اور نہتی عورتوں، بوڑھوں، زخمیوں اور معذوروں کو بے دھڑک بموں کا نشانہ بنایا، عالمی امدادی اداروں کے کارکنان بھی اس کے حملوں سے محفوظ نہ رہ سکے، حتیٰ کہ صحافتی برادری کے اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتے پانچ درجن کے قریب ارکان کی جانیں بھی لے لی گئیں، عبادت گاہوں پر بھی بے دریغ حملوں میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی گئی ۔

یہ سراسر یک طرفہ ظالمانہ اور جابرانہ کارروائیاں تھیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں غزہ میں 80 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جن کی تعداد 17 لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے 10 لاکھ افراد 156 پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس ننگی جارحیت سے 15 ہزار فلسطینی شہید ہوئے جن میں 6 ہزار بچے اور 4 ہزار عورتیں بھی شامل ہیں، جب کہ 36 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد زندگی بھر کے لیے معذور ہوچکی ہے۔ اسرائیل نے نہایت ڈھٹائی سے غزہ کا تمام انتظامی ڈھانچہ تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ غزہ کی محصور پٹی کے پاس نہ کوئی باقاعدہ فوج ہے، نہ ہی کوئی فضائی قوت… جب کہ معاشی لحاظ سے بھی غزہ کی حالت تشویش ناک ہے۔ وہاں 7 اکتوبر سے پہلے ہی بے روزگاری کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ تھا۔ اسرائیل کی جانب سے پچھلے 17 برس سے جاری ناکہ بندی کے باعث 23 لاکھ محصور فلسطینیوں کی اس بڑی جیل میں پانی، بجلی، ایندھن، خوراک اور ادویہ سمیت کچھ بھی غاصب صہیونی ریاست کے ظالم حکمرانوں کی اجازت کے بغیر فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ غزہ کے ماہی گیر اپنے ہی سمندری علاقے میں اسرائیل کی مرضی کے بغیر ایک مچھلی تک نہیں پکڑ سکتے۔ اس کسمپرسی کے باوجود جس ہمت اور جواں مردی سے اس علاقے کے فلسطینی زندگی بسر کررہے ہیں اس کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا، خاص طور پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران تمام تر مسائل و مصائب کے باوجود جس جرأت و استقامت، صبر اور پامردی کا مظاہرہ غزہ کے حوصلہ مند فلسطینی مسلمانوں نے کیا ہے اس کی نظیر دنیا کی حالیہ تاریخ میں تلاش نہیں کی جاسکتی۔

غزہ کے ان مسلمانوں کے اس بے مثال کردار کے برعکس مہذب ہونے کی دعویدار دنیا کا کردار بلاشبہ انتہائی گھنائونا اور شرم ناک رہا ہے۔ یک محوری دنیا میں واحد بڑی طاقت امریکہ اور اُس کے بے دام اسیر برطانیہ نے نہایت ڈھٹائی سے کھل کر نہتے، بے بس، مجبور اور محصور غزہ کے مسلمانوں کی نسل کُشی کی کارروائیوں میں جارح اسرائیل کی نہ صرف تائید و حمایت کی بلکہ اسلحہ، گولہ بارود اور جدید ترین دفاعی سازو سامان بھی اُسے مہیا کیا۔ تہذیب اور انسانی حقوق کی علَم بردار باقی مغربی دنیا کے حکمران بھی امریکہ اور برطانیہ سے پیچھے نہیں رہے۔ دوسری جانب مادی وسائل سے مالامال اور جدید جنگی اسلحہ سے لیس مسلمان ممالک نے بھی بزدلی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے عملی جنگ میں فلسطینی بھائیوں کی کوئی مددنہیں کی، عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت کسی کو اپنے مجبور اور مظلوم بھائیوں کی حمایت میں کلمۂ خیر کہنے کی توفیق تک نہ ہوسکی۔ یہ الگ بات ہے کہ تمام مسلمان ممالک ہی نہیں غیر مسلم دنیا کے عوام نے بھی غاصب اسرائیل اور اُس کے سرپرستوں کے مجرمانہ کردار کے خلاف زور دار صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ اب جب کہ عارضی جنگ بندی جاری ہے تو جہاں ایک طرف ظلم کا یہ سلسلہ مستقلاً بند کیا جانا لازم ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ غزہ میں ناجائز صہیونی ریاست کے جارحانہ طرزِ عمل اور جنگی جرائم کا عالمی سطح پر مواخذہ کیا جائے اور اسے عالمی عدالتِ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے باقاعدہ چارہ جوئی کی جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون… (حامد ریاض ڈوگر)