تجسس

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے سود کھانے والے ،سود لکھنے والے اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔
(مسلم ،کتاب الربا)

ولا تجسسو (تجسس نہ کرو) یعنی لوگوں کے راز نہ ٹٹولو۔ ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو۔ دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو۔ یہ حرکت خواہ بدگمانی کی بنا پر کی جائے، یا بدنیتی سے کسی کو نقصان پہنچانے کی خاطر کی جائے، یا محض اپنا استعجاب (Curiosity)دور کرنے کے لیے کی جائے، ہر حال میں شرعاً ممنوع ہے۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کے جن حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے ان کی کھوج کرید کرے اور پردے کے پیچھے جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کس میں کیا عیب اور کس کی کون سی کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں۔ لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا، ہمسایوں کے گھر میں جھانکنا، اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا اُن کے ذاتی معاملات کی ٹٹول کرنا ایک بڑی بداخلاقی ہے، جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں تجسس کرنے والوں کے متعلق فرمایا: ’’اے لوگو! جو زبان سے ایمان لے آئے ہو مگر ابھی تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اترا ہے، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہوگا اللہ اس کے عیوب کے درپے ہوجائے گا، اور اللہ جس کے درپے ہوجائے اسے اس کے گھر میں رسوا کرکے چھوڑتا ہے۔‘‘ (ابودائود)

حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہوگئے تو ان کو بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچادو گے۔‘‘ (ابودائود)

اور ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب کسی شخص کے متعلق تمہیں کوئی برا گمان ہوجائے تو اس کی تحقیق نہ کرو۔‘‘ (احکام القرآن للجصاص)

اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی کا کوئی مخفی عیب دیکھ لیا اور اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جیسے کسی نی ایک زندہ گاڑی ہوئی بچی کو موت سے بچالیا۔‘‘ (الجصاص)

اسلامی حکومت اور تجسس
تجسس کی ممانعت کا یہ حکم صرف افراد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت کے لیے بھی ہے۔ شریعت نے نہی عن المنکر کا جو فریضہ حکومت کے سپرد کیا ہے اُس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ جاسوسی کا ایک نظام قائم کرکے لوگوں کی چھپی ہوئی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور ان پر سزا دے ، بلکہ اسے صرف اُن برائیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے جو ظاہر ہوجائیں۔ رہیں مخفی خرابیاں، تو ان کی اصلاح کا راستہ جاسوسی نہیں ہے بلکہ تعلیم، وعظ و تلقین، عوام کی اجتماعی تربیت اور پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ بہت سبق آموز ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھرمیں گارہا تھا۔ آپ کو شک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی۔ آپ نے پکار کر کہا: اے دشمنِ خدا ! کیا تُو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تُو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا؟ اس نے جواب دیا: امیرالمومنین جلدی نہ کیجیے۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آئو اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جائو، اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے۔ یہ جواب سن کر حضرت عمرؓ اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا (مکارم الاخلاق لابی بکر محمد بن جعفر الخرائطی)۔ اس سے معلوم ہوا کہ افراد ہی کے لیے نہیں خود اسلامی حکومت کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے راز ٹٹول ٹٹول کر ان کے گناہوں کا پتا چلائے اور پھر انہیں پکڑے۔ یہی بات ایک حدیث میں بھی ارشاد ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’حکمران جب لوگوں کے اندر شبہات کے اسباب تلاش کرنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔‘‘(ابودائود)

(تفہیم احکام القرآن ، ص 455جلد اول)مخلوق پر شفقت اوررحم کرنے کا بیان

٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرنے والوں پر اللہ رب العزت رحم فرماتے ہیں، تم اہلِ زمین پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘

(ابودائود، ترمذی۔ عن عبداللہ بن عمرؓ)

٭ ایک صحابی ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے نیکی کی ہے یا برائی؟‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم سنو کہ تمہارے پڑوسی کہہ رہے ہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو واقعی تم نے اچھا کام کیا ہے، اور جب تم اُن سے سنو کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے غلط کام کیا ہے تو واقعی تم نے غلط کام کیا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ۔ عن ابن مسعودؓ)

٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لوگوں کے ساتھ ان کے مرتبے کے لحاظ سے سلوک کرو۔‘‘
(ابودائود ۔ عن عائشہؓ)