یعنی وہ خوابِ عشق حقیقت میں وَڑگیا

گودھرا، گجرات، انڈیا سے محترم محمد سفیان بڈھا قاسمی صاحب کا ایک مفصل مکتوب، مولانا عبدالمتین منیری کے توسط سے، موصول ہوا ہے۔ موصوف نے ہمارا پچھلا کالم پڑھ کر طویل کلماتِ تحسین کے بعد تحریر فرمایا:

’’…آپ کا اسلوب جو مزاح سے بھرپور ہوتا ہے قاری کو باندھ کر رکھ دیتا ہے اور مضمون پڑھنے کے بعد چائے کی طلب بھی نہیں ہوتی۔ ورنہ ایسے تحقیقی مضامین پڑھنے کے بعد قاری کو دماغی بخارات زائل کرنے کے لیے اس شوقیہ مشغلے کا سہارا لینا ایک لابدی امر ہے، دماغی گیس کا خطرہ رہتا ہے۔ مگر معذرت کے ساتھ دست بستہ عرض کررہا ہوں کہ اس مضمون میں آپ کا وہ مزاحیہ اسلوب تقریباً ناپید ہے۔ بڑا سنجیدہ مضمون ہوگیا۔ اس کو پڑھنے کے بعد واقعی چائے کی طلب پیدا ہوگئی‘‘۔

کہتے ہیں لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور زہر کا تریاق زہر سے تیارکیا جاتا ہے۔ شاید اسی اصول پر عمل پیرا ہوکر جنابِ سفیان قاسمی بھی دماغی بخارات اور دماغی گیس کا دف چائے کے بخارات سے مارا کرتے ہیں۔ مگر ہمارے کالموں اور چائے کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم چائے پی پی کر لکھتے ہیں اور پڑھنے والے پڑھ پڑھ کر چائے پیتے ہیں۔ 1984ء میں جب ہم نے مستقل کالم نگاری کا آغاز کیا تھا تو اُس وقت استادِ محترم اطہر علی ہاشمی مرحوم و مغفور روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی کے ادارتی صفحات کے مدیر تھے۔ یہ وہ دور تھا جب مدیرِ محترم کے حجرے کے سامنے واقع ’کمرۂ کتابت‘ میں کاتبوں کی ایک قطار بیٹھی ’می نویس و می نویس و می نویس‘ کرتی رہتی تھی۔ اُستاد کا مستقل فرمان تھا: ’’حاطب میاں! اپنا کالم کاتب میاں کو دے جایا کرو۔ شائع ہونے کے بعد ہم پڑھ لیں گے‘‘۔ مگر وہ موجود ہوتے تو احتراماً ہم اپنے کالم کاتب کے بجائے اُنھیں کی خدمت میں پیش کرتے۔کالم وصول کرتے ہی میز پر ایک طرف ڈال دیتے اور چائے منگا لیتے۔ چائے آجاتی تو کالم اُٹھاتے اور فرماتے: ’’تمھارے کالم چائے کے ساتھ زیادہ مزہ دیتے ہیں‘‘۔ یہ سن کر ہم سے زیادہ خوشی دفتر میں ’چائے فروشی‘ کرنے والے لڑکے کو ہوتی۔ وہ خوش ہوکر سارے دانت نکال دیتا۔ مگر اب اللہ جانے ’گجرات کے چائے فروشوں‘ پر ہمارے کالموںکے کیا اثرات پڑتے ہیں۔ کسی کو ہمارا کالم پڑھتے دیکھ کر ’گجراتی چائے فروش‘ دانت نکالتے ہیں یا دانت کچکچا کر رہ جاتے ہیں؟

دانتوں کے ذکر پر یاد آیا کہ پچھلے دنوں برادر عزیز ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے ایک دنداں شکن فرمائش کردی۔ ہمارے کالموں میں ’بھنڈ کرتے‘ جیسی شاعرانہ تراکیب کو ’وڑتے‘ دیکھ کر اُنھوں نے داد خواہانہ انداز میں فرمایا: ’’ایک فرمائشی کالم ’وڑ گیا‘ پر بھی ہوجائے‘‘۔

عرض کیا: ’’آپ کی فرمائش سر آنکھوں پر! مگر یہ فرمائیے کہ ’وڑ گیا‘ کی تحقیق کے لیے کہاں وَڑوں؟‘‘

چٹکی بجا کر مسئلہ حل کردیا۔ فرمایا: ’’آپ توپنجاب اور خیبر کے درمیان بیٹھے ہیں۔ وڑنے کی اس سے اچھی جگہ کون سی ہوگی‘‘۔

جگہ متعین کردینے کے بعد مزید فرمایا: ’’اب تو یہ لفظ شاعری میں بھی آگیا ہے‘‘۔

حیران ہوکر خود بھی فرمائش کر ڈالی: ’’کوئی شعر سنائیے!‘‘جھٹ ڈاکٹر اسحاقؔ وردگ کا شعر سنا دیا:

اِک تیر کی طرح سے مرے دل میں گڑ گیا
یعنی وہ خوابِ عشق حقیقت میں وڑ گیا

عرض کیا: ’’واہ وا، کیا منفرد بیان ہے۔ وردگؔ کا مجموعہ کلام ’’شہر میں گاؤں کے پرندے‘‘ ہمارے کتب خانے میں موجود ہے، مگر یہ پرندہ اس میں موجود نہیں۔ غالباً شہری پرندہ ہوگا، وڑنے کے بجائے اُڑ گیا ہوگا۔ لیکن حضرت! ’وڑنے‘ پر شعر توفقط خیبر پختون خوا سے آیا‘‘۔

فوراً فرمایا ’’سندھ سے بھی بھیج دیتا ہوں‘‘۔ یہ کہتے ہی ڈاکٹر صاحب نے فی البدیہ ایک ذاتی شعرکہا اور فی الفور ارسال کیا:

یار جب سے بچھڑ گیا میرا
سارا جیون ہی وڑ گیا میرا

سندھی کا تو ہمیں نہیں معلوم، مگر ’وڑنا‘ یا ’وڑ جانا‘ پنجابی اور سرائیکی زبانوں کا روزمرہ ہے۔ اس کا مطلب ہے داخل ہونا یا گھس جانا۔ ان معنوں کی سَند پنجابی زبان کے مشہور شاعر اُستاد امام دین گجراتی سے مل جاتی ہے۔ اُستاد امام دین گجراتی علامہ اقبال کے ہم عصر تھے۔ ضرورتِ شعری کے تحت لفظوں کا تلفظ بگاڑنے اور ضرورتِ نثری کے تحت بے وزن شاعری کرنے کے بے بدل بادشاہ تھے۔ ’بانگِ درا‘ کی بھاری بھرکم شاعری کے مقابلے میں ’بانگِ دُہَلا‘ کے نام سے اپنی ہلکی پھلکی [بے وزن] شاعری کا مجموعہ لائے تھے۔ ’دُہَل‘ ڈھول یا نقارے کو کہتے ہیں۔ نقارہ بجا بجا کر جو اعلان کیا جاتا ہے وہ اعلان ’ببانگِ دُہَل‘ ہوتا ہے۔ استاد امام دین گجراتی کا مجموعۂ کلام ’بانگِ دُہَل‘ بھی ہمارے کتب خانے میں موجود ہے۔ مگر اُس میں بھی وہ غزل موجود نہیں جس کا حوالہ ہم ’وڑ‘کی سند کے طور پر دینا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ غزل اہلِ پنجاب میں زباں زدِ خاص و عام ہے۔ اشعار کا لب و لہجہ، بے وزنی کی کیفیت اور مطلعے میں ضرورتِ قافیہ کے تحت مٹر کو ’مٹڑ‘ کردینا صاف بتارہا ہے کہ یہ استاد ہی کے اشعار ہیں۔ اکثر شعرا کے کچھ اشعار ان کے مجموعۂ کلام کی ترویج و اشاعت کے بعد تولد ہوا کرتے ہیں:

ترے گھر میں پکّی مٹڑ مام دینا
تُو کوٹھے پہ چڑھ کر اکڑ مام دینا
جنت کی سیٹیں تو پُر ہو چکی ہیں
تُو چھیتی سے دوزخ میں وڑ مام دینا

کچھ لوگوں نے دوسرے شعرکے پہلے مصرعے کو وزن میں لانے کی کوشش کی، مگر مصرعے کاسارا لطف ہی غارت کرڈالا۔

اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ پوری قوم اُردو بولتی ہے۔کشمیری، بَلتی،سندھی،سرائیکی، پنجابی، پختون، بلوچ(بالخصوص مکرانی) اور میمن جب اپنے اپنے میٹھے، نرم یا کڑوے اور کرخت لہجے میں اُردو بولتے ہیں تو اُردو بولنے کے انداز ہی سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ اُردو ان کا اثر قبول نہ کرے۔ یوں بھی اُردو میں نِت نئے الفاظ کے ’وڑنے‘ یا دخول کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ جن الفاظ کو اہلِ شعر و سخن قبول کرلیں وہ مقبول ٹھہرتے ہیں، اور جنھیں رد کردیں وہ مردود ہو جاتے ہیں۔ ’وڑ‘ کا لفظ بھی اُردو ذخیرۂ الفاظ میں وَڑ گیا ہے۔

اُردو ذخیرۂ الفاظ میں ’واڑ‘ اور ’واڑہ‘ جیسے الفاظ پہلے سے موجود ہیں۔’واڑ ‘اُس جگہ کو کہتے ہیں جس کے گرد’ باڑ‘ ہو۔باڑ کو لکھنؤ والے ’باڑھ‘ بولتے ہیں۔باڑ اور باڑھ کا مطلب ہے احاطہ یا حاشیہ۔ کھیت اور باغ کو گھیرنے کے لیے باڑ یا باڑھ باندھی جاتی ہے۔جہاں باڑ باندھ دی جائے وہ جگہ ’واڑ‘ کہلاتی ہے۔ کیاعجب کہ ’واڑ‘ میں گھسنے یا داخل ہونے کو ’وڑنا‘ کہا گیا ہواور کسی کو داخل کرنے یا گھسانے کے عمل کو ’واڑنا‘۔ ’واڑ‘ ہی سے ’واڑا‘ بنا ہے، جسے اب ہر جگہ ’واڑہ‘ لکھا جانے لگا ہے۔ ’واڑا‘ کا مطلب ہے گلی، محلہ، ٹولا، کوچہ یا شہر کا وہ مقام جہاں ایک ہی قسم کے لوگ رہتے ہوں۔جیسے ’نانک واڑا‘ اور ’چاکی واڑا‘۔’چاکی واڑا‘ میں ’چاکی‘ نسل کے گجراتی مسلمان ’وڑے‘ ہوئے تھے۔ اب وہاں ’چھاچھی‘ اور ’چھیپا‘ سمیت کئی نسلیں آباد ہیں۔اِس کالم کا آغاز گودھرا گجرات سے ہوا تھا، سو اختتام بھی گجراتی مسلمانوں کے ’واڑے‘ پر ہو رہا ہے۔ معروف مزاح نگار محمد خالد اختر نے ’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘ کے عنوان سے ناول لکھ کرلیاری کے اِس معروف محلے کو دنیائے ادب میں ’واڑ‘ دیاہے۔ناول کا معلوماتی عنوان پڑھ کر محققین کو مصنف کی ذات سے متعلق ایک تحقیق کی مشقت سے مکمل نجات مل گئی۔بے تحقیق معلوم ہو گیا کہ خالد اختر جو ریاست بھاولپور کی تحصیل لیاقت پور میں پیدا ہوئے تھے، کراچی آ ئے تو چاکیواڑہ میں ’وڑ‘ گئے۔