انفاق فی سبیل اللہ اور سماجی انصاف

انفاق فی سبیل اللہ… اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، اچھی اور عمدہ چیز اللہ کی راہ میں دینا دنیا و آخرت میں سربلندی اور عروج کا ذریعہ ہے، اسی سے انسان کی ذاتی زندگی اور اجتماعی زندگی یعنی معاشرے میں خیر کے دروازے کھلتے ہیں، اس سے فلاح و سعادت اور اجتماعی اخلاقیات پروان چڑھتی ہیں اور مہلکات کا قلع قمع ہوتا ہے۔

منیر احمد خلیلی کی تصنیف ’’انفاق فی سبیل اللہ اور سماجی انصاف‘‘ کا دوسرا ایڈیشن پیش نظر ہے، اس کا پہلا ایڈیشن کوئی 18/20 سال قبل چھپا تھا۔ اب اس میں سماجی انصاف پر مضمون کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس میں زکوٰۃ و صدقات کے ضمن میں مفید مباحث ہیں۔ یہ دراصل ان کی برسوں کی ریاضت، سوچ بچار اور قرآن و سنت کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ ایسا لوازمہ عمومی طور پر کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ پر دین و دنیا کی بھلائی اور اخروی فلاح و سعادت کا دارومدارہے۔ انسان کی دُنیوی زندگی میں خوشحالی کی نعمت بنیادی طور پر سخاوت کے جذبے اور رویّے سے جڑی ہوتی ہے اور سخاوت کا جذبہ اور رویہ اجتماعی اخلاقیات پروان چڑھانے اور مہلکات اور آفات بالخصوص بیماریوں، کینہ، حسد، سازش کے انسداد اور روک تھام کا بھی ذریعہ ہے، جس سے نیکی اور بھلائی کے راستے فروزاں ہوتے ہیں۔ اگر صاحبانِ مال بخل سے کام لیں اور زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی میں کوتاہی برتیں تو قدرتِ خداوندی معاشرے اور قوم کو آفات و مصیبتوں میں مبتلا کردیتی ہے اور یہ مال امرا کے لیے نافع نہیں رہتا، نیز معاشرے میں نفسیاتی اور پیچیدہ امراض کا سبب بنتا ہے جن کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ آخرت فراموشی میں بھی دولت اہم ترین عامل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اس مرض سے بچائو اور قربِ الٰہی کے حصول میں انفاق فی سبیل اللہ کا کردار بہت اہم اور کلیدی ہے جس سے انسان میں تزکیہ نفس، اخلاص، تقویٰ اور تعلق باللہ میں بڑھوتری ہوتی ہے اور معاشرے کے معاشی مسائل کے حل اور اہلِ ایمان میں خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبات و احساسات پروان چڑھتے ہیں۔ دینی و ملّی دفاع میں بھی جذبۂ انفاق کا اہم کردار ہے۔ دشمنانِ دین اور مخالفینِ دین کی قوت کو کمزور کرنے، اسلام اور اہلِ اسلام کی قوت میں اضافے اور غلبۂ دین کے لیے بھی اس کا اہم کردار ہے۔

اہلِ ایمان کو غلبۂ دین کے لیے اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاں جہاں نماز کا ذکر آتا ہے وہیں پر زکوٰۃ و صدقات کا تذکرہ ہے، اور جہاد کے ساتھ نفس اور مال سے جہاد کا حکم وارد ہوا ہے۔ یہ دونوں مالی و جسمانی عبادات اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کو وہ قوت فراہم کرتی ہیں جس کا کوئی دوسرا نعم البدل نہیں ہے۔

اسلام کے احکام میں ایک گہرا اور لطیف ربط پایا جاتا ہے، لیکن یہ اندرونی ربط اور معنویت گہرے غور و فکر اور تدبر کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں غلبۂ اسلام کے طریقِ کار پر سوچ بچار کی جائے تو اس میں نماز اور انفاق فی سبیل اللہ، جہاد اور صبر کا تذکرہ سامنے آتا ہے۔ نماز کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات کی تاکید ہے جبکہ جہاد کے ساتھ صبر کی تلقین ہے۔ نماز انسان کو اللہ سے وابستہ کرتی ہے، عاجزی و خاکساری اور شعورِ بندگی پختہ اور زندہ کرتی ہے۔ انسان ایمان اور روحانیت کا سفر نماز کے سہارے طے کرتا ہے۔ جبکہ مال ودولتِ دنیا اس میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ مال و دولت کے ساتھ حد سے بڑھی ہوئی محبت اور دلچسپی انسان کی اخلاقی و روحانی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے اور اللہ سے تعلق کمزور کرتی ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ پر یہ لوازمہ مستند مصادر پر مبنی ہے، جو جامع اور مبسوط انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔

کتاب کی دوسری اشاعت کے موقع پر ضروری ترامیم، اصلاح، مشکل الفاظ و اصلاحات کی جگہ نئے اور آسان فہم الفاظ و تراکیب شامل کی گئی ہیں،نیز جن احادیث و قرآن کے حوالہ جات درج نہیں تھے درج کیے گئے ہیں۔ اسی طرح بعض مقامات پر ناگزیر اضافہ جات شامل ہیں جس سے کتاب کی اہمیت اور وقعت دوچند ہوگئی ہے۔ جہاد، رفاہِ عامہ، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون، انفاق اور ایثار و قربانی کے جذبوں کو دو آتشہ کرنے میں یہ مفید اور عمدہ لوازمہ ہے۔

شیخ عبدالبدیع صقر کے کلمات نے کتاب کی وقعت کو بڑھایا ہے۔
اقامتِ دین اور غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنان و قائدین کے لیے یہ کتاب مطالعے کے لائق ہے۔ اس سے جہاں اقامتِ دین کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے نئی جہات اور پہلوآشکار ہوتے ہیں وہیں پر یہ پہلو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔
’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ جذبۂ عل اور داعیانہ قوت کو مہمیز کرنے کا ذریعہ ہے اور قیمت بھی زیادہ نہیں ہے۔