اسلامی ادب کے شناور اور علَم بردار پروفیسر ہارون الرشید 3 جولائی 1973ء کو کلکتہ مغربی بنگال میں پیدا ہوئے اور 26جنوری 2022ء کو کراچی میں راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ اس عرصہ حیات میں دو بار ہجرت کی صعوبتیں اٹھائیں۔ 1950ء میں کلکتہ سے مشرقی پاکستان ہجرت کی اور ڈھاکہ میں سکونت اختیار کی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے موقع پر ہونے والی قتل و غارت گری، لوٹ مار اور زیادتیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ خود بھی اس کا شکار ہوئے، اور ہزاروں اردو بولنے والوں کے ساتھ تقریباً ڈھائی ماہ ڈھاکہ سینٹرل جیل میں گزارے۔ جس کے بعد دوسری ہجرت ڈھاکہ سے کراچی کی۔ لیکن مشکل ترین حالات میں بھی صبر، حوصلے اور اللہ پر توکل کے ساتھ ثابت قدم رہے اور ہر آزمائش میں سرخرو ہوئے۔
پروفیسر ہارون الرشید نے اپنی زندگی صبر، شکر، سادگی اور ایسی ہی اعلیٰ اخلاقی قدروں کے ساتھ بسر کی اور ہمہ وقت تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف میں مصروفِ عمل رہے۔ آپ کی ادبی خدمات کی متعدد جہتیں ہیں… تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید، سوانح نگاری و ناول نگاری وغیرہ۔ اسلامی ادب کے فروغ میں آپ نے اپنی پوری زندگی صرف کی۔ شاعری کی تو اس میں بھی اپنے اس بنیادی مقصد کو پیشِ نظر رکھا۔ اسی طرح ناول لکھے تو اس میں بھی معاشرتی مسائل اور اصلاحی پہلو ان کے پیش نظر رہے۔
پروفیسر صاحب تیس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے، جن میں سے چند کے نام درجِ ذیل ہیں:
اردو ادب اور اسلام، اردو نعت گوئی کا تنقیدی جائزہ، منقبتِ صحابہ کرام، ملّتِ واحدہ، محفل جو اجڑ گئی، دو ہجرتوں کے اہلِ قلم، نوائے مشرق، متاعِ درد، نیاز فتح پوری کے مذہبی افکار، اردو کا دینی ادب، جدید اردو شاعری، فغانِ درویش، لاک ڈائون کے روز و شب و دیگر۔ ان کے علاوہ ابھی کئی کتابیں منتظرِ اشاعت بھی ہیں۔
پیشِ نظر کتاب میں متعدد ادوار اور عنوانات کے تحت پروفیسر ہارون الرشید کی زندگی کے شب و روز اور علمی و ادبی خدمات پر اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں پروفیسر ہارون الرشید کے حالاتِ زندگی بہت اختصار کے ساتھ سات ادوار میں بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے باب میں مختلف عنوانات کے تحت پروفیسر صاحب کی شخصیت و کردار کی اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جب کہ تیسرے باب میں پروفیسر صاحب کی علمی و ادبی جہات پر گفتگو کی گئی ہے۔ آخر میں پروفیسر صاحب کی تعلیمات کا خلاصہ انھی کی ایک نظم کی صورت میں درج کیا گیا ہے اور ان کی غیر مطبوعہ کتابوں کی فہرست بھی شامل ہے۔
یہ کتاب پروفیسر ہارون الرشید کے لختِ جگر ساجد رشید کا اپنے والدِ مرحوم سے محبت و عقیدت کا اظہار بھی ہے اور ایک بیٹے کی جانب سے والد کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کو ایک خوبصورت خراجِ تحسین بھی۔ فاضل مصنف کی اگرچہ یہ پہلی کتاب ہے لیکن اپنے والدِ محترم کے طرزِ تحریر کی پیروی کرتے ہوئے اس کتاب میں غیر ضروری تمہید سے گریز کیا گیا ہے۔ کتاب کے ابواب مختصر ہیں اور طرزِ تحریر رواں دواں اور سلیس ہے۔ پروفیسر ہارون الرشید کی حیات و خدمات پر ایک عمدہ کتاب ہے۔