انبیاء علیہم السلام کی سرزمین پر انسانی تاریخ کا بدترین ظلم جاری ہے۔ اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کررکھا ہے۔ 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل جبکہ مواصلاتی نظام منقطع ہے۔ غزہ میں 50 فیصد گھر تباہ ہوگئے۔ غاصبانہ صہیونی تسلط کے بعد سے آج تک فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کے خلاف آواز بلند ہے۔ مسئلہ فلسطین اردو زبان کے ساتھ عالمی مزاحمتی ادب میں نمایاں رہا ہے اورگاہے بگاہے ادب کا موضوع بنا رہتا ہے۔ ارضِ فلسطین پر یہودیوں کے جبر، غاصبانہ قبضے اور شیطانی منصوبے کے خلاف شاعری ہوئی ہے اور کلام پڑھے گئے ہیں۔ شعراء غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اسرائیل کے جنگی جرائم کی مذمت کرتے ہیں اور ساتھ ہی فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی، مزاحمت اور عزمِ محکم و یقین کو سلام پیش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال، فیض احمد فیض، ابن انشا، حبیب جالب، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی، ادا جعفری، اسلم فرخی سمیت بہت سے شعراء نے فلسطین پر نظمیں لکھی ہیں۔ نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم ادیبوں نے بھی فلسطین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آوازبلند کی ہے، ان میں ایڈورڈ سعید فلسطین کی آزادی کے لیے اٹھنے والی توانا آواز تھی۔ اسی طرح حنا اشروی، لیلیٰ خالد، جارج گیلو وغیرہ کے نام بھی فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ اسی پس منظر میں ادارۂ تعمیر ادب کے تحت ادارۂ نورحق میں ’’غزہ کے مزاحمت کارو!‘‘ کے عنوان سے مشاعرے کا انعقاد کیا گیاجس میں شعرا نے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیا اور ظلم کرنے والے مغرب کو بے نقاب کیا۔
مشاعرے میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم،انور شعور،تاجدار عادل، فراست رضوی، شاہنواز فاروقی،اخترسعیدی،ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، خلیل اللہ فاروقی،اجمل سراج، اقبال خاور، ڈاکٹر فیاض وید، سلیم فوز،عبد الحکیم ناصف، اے ایچ خانزادہ، نجیب ایوبی،عمران شمشاد، حجاز مہدی،جوہر مہدی،عبد ا لرحمٰن مومن،مرزا عاصی اختر، نعیم الدین نعیم، مختار شارق، محب احمد ودیگرنے منظوم کلام پیش کیا۔ معروف ادبی و سماجی شخصیت شکیل احمد خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے مشاعرے سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس کی مزاحمت میں ہی زندگی اور کامیابی ہے، اسرائیل نے جارحیت و درندگی کی حدیں پار کرتے ہوئے تمام اسپتالوں کو بمباری کرکے ختم کردیا ہے، لیکن ہم نوحہ پڑھنے کے بجائے مزاحمت کاروں کا حوصلہ بڑھائیں گے، حماس کے مجاہدین کی مزاحمت آزادی کی تحریک کا آغاز ہے اور یہ تحریکِ مزاحمت کامیاب ہوگی اور فلسطین کی سرزمین اسرائیلیوں سے آزاد ہوگی۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 76سال سے اسرائیلی صہیونی افواج فلسطینیوں کو شہید کررہی ہیں اور لاتعداد فلسطینیوں کو قیدی بنایا ہوا ہے، ان حالات میں عرب ممالک فلسطین کا ساتھ دینے کے بجائے اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں، عالم اسلام کے حکمران اسرائیل اور امریکہ کی ایماء پر اپنی قوم کو فتح کرنے میں لگ جائیں تو ایسی صورتِ حال میں حماس کے مجاہدین کی مزاحمت وقت کا تقاضا ہے، اور وہ دن دور نہیں جب فلسطین میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ 56اسلامی ممالک اور ان کے حکمرانوں نے بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے، دوسری طرف حماس کے مجاہدین نے زبردست مزاحمت کرکے انسانی تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے اور دنیا کو پیغام دیا ہے کہ اگر کوئی ساتھ نہ دے تب بھی ہم اسرائیل اور اُس کے آلۂ کاروں کے غلام بننے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ امریکہ خود سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہے جو دوکروڑ ریڈ انڈین کی لاشوں پر وجود میں آیا۔ اسلام دشمن طبقے نے مغربی عوام کو القاعدہ، داعش اور مجاہدین کے نام سے ڈرا دھمکا کر رکھا ہے اور اپنے عوام کو بے وقوف بناکر ان پر حکمرانی کررہا ہے، جب کہ حماس کی مزاحمت سے خود مغربی عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حماس نے 2006ء کے انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ حماس میں ایسے افراد شامل ہیں جو پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہیں، جو فلاح و بہبود کے کام بھی کرتے ہیں۔ حماس میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے اردن، مصر سمیت دیگر مقامات پر یونیورسٹیاں بنائیں، ان یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والوں میں پی ایچ ڈی، ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے عوام حماس کی مزاحمت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
مشاعرے میں شاعروں نے فلسطین کے مظلوم عوام اور بچوں کے لیے اپنی نظمیں پیش کیں اور ان کی حمایت کا اظہار کیا کہ فلسطین کے بچے بھی اپنے بزرگوں کی طرح مزاحمت کررہے ہیں اور وہ یقینی طور پرکامیاب ہوں گے۔ مشاعرے کے شرکاء نے فلسطین کے بچوں کے لیے اظہارِ یکجہتی کیا اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا وعدہ کیا۔
یہ مشاعرہ فلسطین کے لیے جدوجہد اور مزاحمت کرنے والوں کے لیے ایک اہم پیغام تھا۔
شاعری شعورپیدا کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہ لوگوںمیں جذبات کو بیدار کرتی ہے اور انہیں ایک مقصد کے لیے متحد کرتی ہے۔ فلسطین اور غزہ کے لیے یہ مشاعرہ ایک ایسا موقع تھا جہاں شاعروں نے اپنی نظموں کے ذریعے لوگوں میں فلسطینیوں کے لیے ایک شعور پیدا کیا ہے جو یقیناً قابلِ ستائش ہے۔