بھارت کے لیے فائنل ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا
آسٹریلیا نے ورلڈ کپ میں بھارت جیسی مضبوط ٹیم کو فائنل میں شکست دے کر نہ صرف بھارتی کرکٹ ٹیم بلکہ پورے بھارت میں ہی اداسی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ بھارت کو اِس بار یقین تھا کہ میزبان ملک ہونے کے ناتے اور یہاں کی کنڈیشن کی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر وہ اس بار ورلڈ کپ آسانی سے جیت لے گا۔ بھارت اس پورے ٹورنامنٹ میں ناقابلِ شکست رہا، اُس نے فائنل سے پہلے لگاتار10میچوں میں آسانی سے کامیابیاں سمیٹیں، اسی بنیاد پر ماہرین کا تجزیہ تھا کہ بھارت یہ ورلڈ کپ جیت سکتا ہے۔ لیکن فائنل کا دن بھارت کے لیے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا اور وہ یہ میچ ہار کر ورلڈ چیمپئن بننے سے محروم رہا، اُسے یہ شکست مدتوں یاد رہے گی جسے بھلانا آسان نہیں ہوگا۔ بھارت اورآسٹریلیا کے درمیان احمد آباد میں یہ فائنل کھیلا گیا جہاں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی مہمانِ خاص تھے۔ احمد آباد مودی کا اپنا شہر ہے اور اس میدان کو بھی مودی اسٹیڈیم کا نام دیا گیا ہے۔
اس سے قبل 15نومبر کو ممبئی میں سیمی فائنل میں بھارت کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہوا۔ بھارت نے اس میچ میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ پچاس اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر397 رنز بنائے۔ 398رنز کے ہدف کے تعاقب میں نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم 48.5 اوورز میں 327رنز بنا کر آئوٹ ہوگئی۔ نیوزی لینڈ کے بیٹسمین ڈیرل مچل کی شاندار 134کی اننگ بھی نیوزی لینڈ کو کامیابی نہیں دلوا سکی۔ اس میچ میں بھارتی بولر محمد شامی نے 7 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا جو اُن کی بہترین کارکردگی تھی۔
دوسرے سیمی فائنل میں جو 16نومبر کو کلکتہ میں کھیلا گیا، آسٹریلیا نے دلچسپ مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ کو3وکٹ سے شکست دے کر فائنل میں اپنی جگہ پکی کرلی تھی۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم محض212رنز بناکر آئوٹ ہوگئی تھی، صرف ڈیوڈ ملر جنہوں نے سنچری بنائی اور ہنرچ کلاسن ہی آسٹریلوی بولرز کا مقابلہ کرسکے۔ یہ ہدف آسٹریلیا نے سخت مقابلے کے بعد حاصل کیا۔
اب سب کی نظریں فائنل پر تھیں۔ احمد آباد میں بھارت ورلڈ کپ کا فاتح بننا چاہتا تھا، اور بھارتی شائقین میچ سے پہلے ہی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اِس بار ہم ہی عالمی چیمپئن بنیں گے۔ پورے ٹورنامنٹ میں بھارت ہی ٹاس جیتا تھا لیکن فائنل میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 240رنز بنائے۔ پہلے 10اوورز تک ایسا لگ رہا تھا کہ بھارت اس میچ میں تین سو سے زیادہ اسکور کرکے آسٹریلیاکو مشکل ہدف دے گا۔ لیکن بھارت کی بیٹنگ جو بہت مضبوط تھی، آسٹریلیا کی نپی تلی بولنگ اور انتہائی شاندار فیلڈنگ کے سامنے بڑا اسکور بنانے میں ناکام ثابت ہوئی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آخری 40 اوورز میں صرف 4 ہی چوکے لگ سکے۔ روہت شرما، کوہلی اور راہول نے کچھ اسکور کیا، مگر وہ بھارت کے لیے بڑا اسکور کرکے آسٹریلیا کو دبائو میں نہیں لاسکے۔ آسٹریلیا کا آغاز بھی بہت زیادہ اچھا نہیں تھا، 45 رنز پر اس کی تین اہم وکٹیں گرچکی تھی اورخیال تھا کہ اب بھارتی بولر آسٹریلیاکو دبائو میں لے آئیں گے۔ لیکن ٹریوس ہیڈ نے 134 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر بھارت کے ورلڈ کپ جیتنے کی امیدیں ختم کردیں اور آسٹریلیا چھٹی بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بن گیا جو عالمی کرکٹ میں اُس کے لیے بڑا اعزاز ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا نے ابتدائی 2 شکستوں کے بعد کم بیک کیا اور اس کی کارکردگی تمام میچوں میں پروفیشنل ٹیم کے طور پر سامنے آئی۔ بھارت کے ویرات کوہلی کو اس ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور وہ اس ایوارڈ کے بجا طور پر مستحق تھے۔
ورلڈ کپ میں اگر پاکستان کرکٹ ٹیم کی بات کی جائے تو اُس نے اس مرتبہ بھی اپنی پانچویں پوزیشن کو برقرار رکھا۔ ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم نے تمام فارمیٹ کی کپتانی سے استعفیٰ دے دیا، یا ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے شان مسعود کو ٹیسٹ اور فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کا کپتان مقرر کردیا۔ فاسٹ بولر وہاب ریاض کو انضمام الحق کی جگہ چیف سلیکٹر بنادیا گیا۔ یاد رہے کہ وہاب ریاض پہلے ہی پنجاب کی نگران حکومت میں بطور وزیر اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں اور انہیں نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی منظوری کے بعد چیف سلیکٹر بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یونس خان کو بیٹنگ کوچ اور عمر گل کو بولنگ کوچ مقرر کیا گیا ہے۔ سعید اجمل کو بھی پاکستان کا اسپن بولنگ کوچ مقرر کردیا گیا ہے۔ اسی طرح محمد یوسف کو پاکستان کی انڈر 19ٹیم کا بیٹنگ کوچ اور سہیل تنویر کو انڈر 19کا چیف سلیکٹر بنادیا گیا ہے۔ مکی آرتھر کو این سی اے میں بھیج دیا گیا ہے تاکہ وہ بچوں کے ساتھ کام کرسکیں، اور ان کی جگہ محمد حفیظ کو پاکستان ٹیم کا نیا ہیڈ کوچ اور ڈائریکٹر بنادیا گیا ہے۔
پاکستان کو رواں برس دسمبر میں آسٹریلیا کے ساتھ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنی ہے جس میں ٹیم کی قیادت نئے کپتان شان مسعود کریں گے۔ اس کے بعد پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلے گی جس میں شاہین شاہ آفریدی کپتانی کریں گے۔ اگر بابراعظم کی کپتانی کی بات کی جائے تو اُن کی کپتانی میں 2021ء میںپاکستان نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میچزمیں شکست دی تھی اور جنوبی افریقہ کو اُس کے ہوم گرائونڈمیں شکست دینا اہم کامیابی تھی۔اس کے علاوہ 2021ء میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان نے اپنی جگہ بنائی تھی۔ایک برس کے بعد پاکستان نے بابراعظم کی کپتانی میںایشیا کپ کے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ ان ہی کی کپتانی میں 2022ء میں ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں جگہ بنائی لیکن پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ واحد کپتان ہیں جن کی قیادت میں پاکستان نے پہلی بار بھارت کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست دی تھی، وہ بھی 10وکٹوں سے۔بابراعظم کو 2019ء میں سرفراز احمد کی جگہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا تھا۔لیکن جیسے ماضی میں سرفراز احمد کو کپتانی سے بے دخل کیا گیا تھا اسی طرح آج 2023ء میں بابراعظم کو کپتانی سے محروم کیا گیا ہے۔ان کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اچھے بیٹسمین ہیں مگر اچھے کپتان نہیں، اورامید کی جارہی ہے کہ کپتانی سے علیحدگی کے بعد بابراعظم زیادہ بہتر طور پر بیٹنگ کے محاذ پر اپنی کارکردگی کو جاری رکھیں گے۔لیکن کیا نئے کپتان، کوچز اور دیگر عہد یدار قومی کرکٹ ٹیم میں جو مسائل ہیں ان کا مستقل علاج تلاش کرسکیں گے، یا ٹیم میں پہلے سے موجود گروپ بندی میں مزید اضافہ ہوگا؟ کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بابراعظم کی کپتانی کے خاتمے میں سیاسی امور کا زیادہ دخل ہے اوریہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے ہماری قومی کرکٹ ٹیم ہمیشہ بحران کا شکا ررہی ہے، اورجو موجودہ کپتان اور سلیکشن کمیٹیاں سامنے آئی ہیں ان میں بھی سیاست کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے جو کرکٹ کے مفاد میں نہیں ہوگا۔دیکھنا ہے کہ آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ کی سیریز میں ہم کیا کارکردگی دکھاتے ہیں۔