اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بیت المقدس اسرائیل کے قبضے میں

تاریخ میں پہلی بار بیت المقدس حضرت عمرؓ کے دور میں فتح ہوا، اس کے بعد دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا، پھر سلطان صلاح الدین ایوبی کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے قبضے میں آگیا… اور تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بیت المقدس میں انگریزی فوجیں داخل ہورہی تھیں اور اس فاتح لشکر میں عرب اور ہندوستان کے فوجی جو برطانوی فوج میں ملازم تھے بیت المقدس میں انگریز جنرل کی سربراہی میں بحیثیت فاتح داخل ہورہے تھے۔ ترکی کے ہاتھوں سے بیت المقدس کی چابیاں حاصل کرلی گئیں، یوں بیت المقدس تاجِ برطانیہ کے پاس چلا گیا۔ فلسطین پر قابض فوج نے ایک اور سازش کی، اور یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنایا۔ 1917ء کا بالفور معاہدہ برطانیہ کی سازش کا شاہکار تھا جس کے فلسطین کو تقسیم کردیا گیا اور اسرائیلی ریاست کی راہ ہموار کردی گئی۔

لارڈ بالفور نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’’ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے، صہیونیت ہمارے لیے ان 7 لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جواس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں۔‘‘

لارڈ بالفور کے یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویزات (Document of British Policy) میں موجود ہیں۔

1922ء میں فلسطین کو مجلسِ اقوام کے فیصلے کے تحت برطانیہ کے حوالے کردیا گیا۔ اُس وقت مسلمانوں کی تعداد 660641 اور یہودیوںکی تعداد 82790 تھی، جبکہ عیسائی 71464 تھے۔ برطانیہ نے فلسطین میں یہودی بسیتیاں بسانا شروع کردیں، جن عرب کاشت کاروں کو علاقے سے بے دخل کیا گیا ان کی تعداد 8 ہزار تھی، اُن سے پچاس ہزار ایکڑ اراضی جبراً حاصل کرلی گئی اور انہیں فی کس 3 پائونڈ 10 شلنگ دیے گئے۔ یوں 17 سال کے اندر اندر یہودیوں کی تعداد 1939ء میں 7 لاکھ 50 ہزار ہوگئی۔

1947ء میں فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا گیا۔ جنرل اسمبلی میں اس حوالے سے رائے شماری کرائی گئی۔ 33 ووٹ حق میں اور 13 ووٹ مخالفت میںآئے، جبکہ 10 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یوں فلسطین کا 55 فیصد حصہ یہودیوں اور 45 فیصد عربوں کو دیا گیا۔ اس طرح 33 فیصد یہودیوں کو 55 فیصد، اور عرب مسلمانوں کی 67 فیصد آبادی کو 45 فیصد حصہ دیا گیا حالانکہ اُس وقت فلسطین کی زمین کا صرف 6 فیصد یہودیوں کے قبضے میں تھا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ 9 اپریل 1948ء کو دیریاسین میں قتلِ عام کیا گیا، عرب لڑکیوںکے برہنہ جلوس نکالے گئے۔ ان حالات میں 14 مئی 1948ء کو اُس وقت جب کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین پر بحث ہورہی تھی، یہودی ایجنسی نے رات 10 بجے اسرائیلی ریاست کا اعلان کردیا۔ سب سے پہلے امریکہ اور روس نے اس کو تسلیم کیا۔ اُس وقت تک 6 لاکھ فلسطینی ملک بدر کردیے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کی تجویز کے برعکس یہودی یروشلم کے آدھے حصے پر قبضہ کرچکے تھے۔ 1948ء تک 77 فیصد حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔

جون 1967ء میں یہودیوں نے بیت المقدس اور باقی ماندہ فلسطین پر قبضہ کرلیا۔گولان اور صحرائے سینا بھی قبضے میں چلے گئے تھے۔

مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ امریکہ نے 19 سالوں میں اسرائیل کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کی امداد دی، جرمنی نے بطور جرمانہ 82 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کیے، جبکہ دنیا بھر سے یہودیوں نے اسرائیل کو 2 ارب ڈالر سے زیادہ چندہ جمع کرکے دیا۔ یوں اسرائیل کی مالی پوزیشن مستحکم کی۔

دنیا بھر سے یہودیوں کو اسرائیل میں آباد کیا گیا۔ مراکش سے ایک لاکھ یہودی اسرائیل چلے گئے۔

1949ء سے1960ء تک امریکہ اور جرمنی نے جو امداد اور قرضے دیے ان کی کُل مالیت 3 ارب 56 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھی۔ 1964ء میں اسرائیل کی آبادی 25 لاکھ کے قریب تھی۔ اس دوران اسرائیل کو 680.5 ملین ڈالر رقم فراہم کی گئی، جبکہ اس کے مقابل 7 عرب ممالک کی 60 ملین آبادی کو جو امداد دی گئی وہ 621.7 ملین ڈالر تھی۔ 93 ملین ڈالر شاہ حسین کو دیے گئے تاکہ وہ اپنی بادشاہت قائم رکھ سکے۔

1964ء میں امریکہ کے ہوٹل مے فیئر کی افتتاحی تقریب میں 105 ملین ڈالر اسرائیل کے لیے جمع کرنے تھے، اور 17.8 ملین ڈالر گفٹ کے طور پر دیے گئے۔

(The other side of Coin, by Alfred M. Lilenthal. Print 1965.)

دریائے اردن کے پانی کو اسرائیل کے صحرا میں پہنچانے کے لیے 20 ملین ڈالر کی رقم استعمال کی گئی۔ 1962ء میں دریائے اردن کے ساڑھے 63کیوبک فٹ پانی کے لیے اسرائیل نے 142 ملین ڈالر کی بیرونی امداد حاصل کی۔ اسرائیل کی 60 فیصد برآمدات یورپی مارکیٹ، جبکہ 32 فیصد برطانیہ اور کامن مارکیٹ کو جاتی ہیں۔

امریکہ کی 210 کمپنیاں اسرائیل میں بزنس کررہی ہیں۔ 1960ء میں اس کی تجارت 409 ارب ڈالر تک تھی۔ 1963ء میں اسرائیل نے 250 ملین ڈالر کی برآمدات سے رقم حاصل کی۔ یاد رہے کہ اسرائیل کا کُل رقبہ 7.995 مربع میل ہے، باقی صحرا ہے۔ 1963ء تک 19 فیصد رقبہ زیر کاشت تھا۔

ورلڈ جیوری نے اسرائیل کو 1949ء سے1962ء تک ایک ارب 49 کروڑ ڈالر کی امداد دی۔ اس عرصے میں امریکہ نے اسرائیل کو فی کس 39.70 ڈالر سالانہ رقم فراہم کی۔ 1930-38ء کے دوران دنیا بھر سے صاحبِ حیثیت یہودی اسرائیل آئے، ان میں سے ہر ایک کی حیثیت مالی طور پر 1,000 پائونڈ کی تھی۔

Immigrants Year
178 1930ء
233 1931ء
727 1932ء
3250 1933ء
5124 1934ء
6309 1935ء
2970 1936ء
1225 1937ء
1753 1938ء

(محکمہ فلسطین کی رپورٹ 1938ء)

1938ء میں مندرجہ Continent یہودیوں کی کل تعداد

-1یورپ : 9,924,000
-2 امریکہ : 5,286,000
-3 ایشیا : 868,000
-4 افریقہ : 609,000
-5 آسٹریلیا: 30,000
کل تعداد : 16,717,000

دنیا کے مختلف ممالک سے یہودیوں نے اسرائیل کی طرف آنا شروع کیا، یوں اسرائیل کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔

5,514 1920ء
9,149 1921ء
7,844 1922ء
12,856 1923ء
33,801 1924ء
13,081 1925ء
2,713 1926ء
2,178 1927ء

اور پھر مختلف ممالک سے ایک منصوبے کے تحت یہودی آنا شروع ہوئے، اس طرح اسرائیل کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔

30,321 – 1933ء
42,359 – 1934ء
61,844 – 1935ء
29,727 – 1936ء
10,536 – 1937ء
60,000 1939ء

فلسطین ایک زرخیز اور مقدس سرزمین ہے، اس کے پہاڑوں میں زیتون اور دیگر پھل بڑی وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں جس سے اسے خاطر خواہ آمدنی ہوتی ہے۔ 1938ء میں اس کی برآمدات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی فائدہ مند تھی اور اس کی آبادی کی کفالت کے لیے کافی تھی۔ یہ ایک خوش حال ریاست تھی جس کو بین الاقوامی سازش اور مسلم ممالک کی احمقانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ہاتھ سے نکال دیا گیا اور اب تک یہ دشمن کے قبضے میںہے۔ 1938ء میں پھلوں کی برآمدات سے اسے 3.75 ملین کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔ اس کی کُل آمدنی برآمدات سے 50 ملین پائونڈ تھی۔ اس 50لاکھ پائونڈ کی آمدن میں صرف کینو سے 32 لاکھ 38 ہزار پائونڈ کی آمدن ہوئی۔ اس کے علاوہ جو، گندم، زیتون کا تیل بھی برآمدکیا جاتاتھا۔فلسطین کی برآمدات میں اضافہ ہوتا رہا۔ 1939-40ء تک اس کی برآمدات سے فلسطین کو 14.6 ملین پائونڈ آمدن ہوئی۔ اُس وقت تک یہ تاجِ برطانیہ کی عمل داری میں تھا۔ 1935ء میں اس کے محاصل کی آمدن 5.7 ملین پائونڈتھی جبکہ اخراجات 2.4 ملین سے لے کر 4.2 ملین پائونڈ تھے اور بچت 12 ملین ڈالر سے زیادہ تھی۔ (Great Britan and Palestine 1915-1945 information Papers Royal Institute of International Affaris)

فلسطین کی تجارت کا حجم 1939ء میں ترکی، عراق، شام، مصر سے 50 لاکھ پائونڈ کا تھاجو 1944ء میں بڑھ کر 60لاکھ پائونڈ ہوگیا تھا۔ فلسطین کو گلاب سے 3 کروڑ ڈالر کی آمدن ہوئی۔ 1943ء میں یہ آمدن بڑھ کر 9 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی اور فلسطین کی فی کس آمدن 21.5 پائونڈ سے بڑھ کر 56.9 پائونڈ ہو گئی، اور فلسطین کے محفوظ زر مبادلہ کے ذخائر 46.2 ملین پائونڈ کے قریب تھے۔ ایک چھوٹی سی ریاست کتنی خوش حال تھی اور اس کے ذرائع آمدن کتنے زیادہ تھے۔ آج ہم نے ایک مقدس سرزمین اور زرخیز زمین کو اپنی نادانیوں سے کھو دیا اور فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کوبدقسمتی سے سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک نے دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ جتنی جلد اس الزام کو یہ ممالک واپس لے لیں ان کا احترام رہے گا، ورنہ عالمِ اسلام کی تحاریک اپنا نیا لائحہ عمل ضرور طے کریں گی۔

ہم اپنے اس مضمون کو اخوان کے نظریاتی قائد اور ممتاز عالم دین یوسف القرضاوی کے بیان پر ختم کریں گے۔ علا مہ یوسف القرضاوی کو بھی سزائے موت کاحکم سنایا گیا جبکہ وہ طویل عرصے سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، انہوں نے اپنے پیغام میں کہا:

’’مصر کے پہلے شفاف طریقے پر منتخب ہونے والے صدرکو موت کی سزا دی گئی ہے۔ یہ لوگ مرسی اور ان کے ساتھیوں کا عدالتی محاکمہ کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جنوری کے سیاسی انقلاب میں شرکت کرنے والے ہر شخص کو پھانسی دے دی جائے، لیکن انہیں اس پر قدرت نہیں۔ چونکہ وہ انقلاب تھا اس لیے ان کی نیندیں چھین لیں۔ انہوں نے فلسطین کے لیے شہید ہونے والوں کی بابت بھی پھانسی کا حکم دے رکھا تھا، اور ان کے لیے بھی پھانسی کا حکم دے دیا ہے جو بیس، پیچس سال سے جیلوں میں قید ہیں۔ اور لائقِ استہزا بات یہ ہے کہ میں بھی ملزم قرار پایا ہوں، میرے لیے بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔

میں نے آغازِ جوانی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نعرہ لگایا تھا ’’اللہ کی راہ میں مرنا ہماری سب سے بڑی تمنا ہے اور ہمارا عشق شہادت ہے‘‘۔ ہم ایک روز بھی اس سے نہیں گھبرائے بلکہ ہماری زبانوں سے پیشتر دل یہ کہتے تھے کہ ہمیں وہی ملے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ رکھا ہے، وہی ہمارا ساتھی ہے اور اللہ ہی پر مومن کو بھروسا رکھنا چاہیے۔

میں تمام عمر حق کہتا رہا ہوں، کہتا رہوں گا۔ اللہ کے معاملے میں ملامت گر کی ملامت سے میں نہیں گھبراتا، نہ ہی کسی جابر کے غصے سے اور نہ ہی ظالم کی دھمکی سے۔ میں کمزور عوام کا ساتھ دیتا رہوں گا حتیٰ کہ اسے اپنا حق واپس مل جائے اور خودمختار ہوجائے۔

اوراے فوجی باغیو!
ہم کل تمہارے بڑوں سے بھی نہیں ڈرے تھے اور اُن کے سامنے بھی ہم نے حق بات کہی اور حق کی راہ میں مطمئن رہتے ہوئے ڈٹ کر سب کچھ برداشت کیا۔ آج ہم تم سے بھی نہ ڈریں گے اور نہ تم ہم کو خوف زدہ کرپائو گے۔ اس بھول میں مت رہنا کہ ان احکامات سے یہ ملک تمہارے تابع ہوجائیں گے، یا یہ کہ بندے تمہارے سامنے سر جھکائیں گے۔ تم جلد ہی اپنے کاموں کی سزا پائو گے۔ دنیا میں تم تختۂ دار پائو گے، تاریخ کے کوڑے دان میں سڑو گے، پھر تم اس کے سامنے پیش ہوگے جو زبردست منتقم ہے۔ میں نے اعلانِ جنگ کررکھا ہے اپنے اولیاکے دشمنوں کو، اور جس نے اپنی کتاب میں ہر متکبر و سرکش کو دھمکایا ہے۔ میں ہمیشہ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اپنی راہ میں شہادت سے سرفراز کرے۔‘‘