طوفان الاقصیٰ کے بعد دنیا بدل گئی، واضح تفریق ہوگئی کہ کون ظالم کا ساتھ دے رہا ہے اور کس کی مظلوم کو حمایت حاصل ہے
لاہور کی فضائوں نے ایسا منظر کم ہی دیکھا ہوگا کہ تا حدِّ نگاہ سر ہی سر تھے، اور ہر طرف سے ایک ہی صدا سنائی دے رہی تھی ’’لبیک لبیک یا غزہ لبیک‘‘۔ یہ عظیم الشان، فقیدالمثال ’’غزہ مارچ‘‘ کے شرکاء تھے جو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی پکار پر لاہور ہی نہیں گرد و نواح کے اضلاع سے بھی کشاں کشاں کھنچے چلے آئے تھے تاکہ غزہ میں عالمی استعمار کے ظلم و ستم اور سفاکی کے شکار اپنے معصوم، مظلوم، مجبور اور محصور فلسطینی بھائیوں، بہنوں، بزرگوں اور بچوں سے یکجہتی کا اظہار کرسکیں، عالمی ضمیر کو جھنجوڑ سکیں، خوابِ خرگوش کے مزے لیتے مسلمان حکمرانوں کو اُن کی ذمہ داریوں کا احساس دلا سکیں، غفلت کی نیند سے جگا سکیں۔ جماعت اسلامی وسطی پنجاب اور لاہور کے ذمہ داران نے جس بڑے پیمانے پر اہلِ وطن میں اس مارچ میں شرکت کے لیے شعور اجاگر کیا تھا اور بیداری پیدا کرنے کی مہم چلائی تھی اسی وسیع سطح پر مارچ کے لیے انتظامات بھی کیے گئے تھے، اور شہر میں کوئی بڑا اور مناسب میدان دستیاب نہ ہونے پر جامعہ پنجاب کو برکت مارکیٹ سے ملانے والی دو رویہ سڑک کو مارچ کے میدان کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ سڑک کی خاصی وسعت کے باوجود شرکاء کی تعداد کے سامنے اس کا دامن تنگ پڑ گیا اور لوگوں کو بغلی سڑکوں پر جگہ تلاش کرنا پڑی… جن میں سے اکثر نے فلسطین کے پرچم اور فلسطینی مجاہدین کے مخصوص رومال زیبِ گلو کر رکھے تھے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اپنے مہمان فلسطین کے رہنما ڈاکٹر نواف تکروری کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچے تو پاکستان، فلسطین اور جماعت اسلامی کے پرچم، کتبے اور بینر لہرا کر شرکاء نے فلک شگاف نعروں سے ان کا استقبال کیا اور فضا ’’اللہ اکبر، سبیلنا سبیلنا۔ الجہاد الجہاد، طریقنا طریقنا… الجہاد الجہاد اور لبیک لبیک… یا اقصیٰ لبیک‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ امیر جماعت کو خطاب کی دعوت دینے سے قبل جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا جاوید قصوری نے انتظامیہ کی طرف سے فراہم کیے گئے پاکستان، فلسطین اور جماعت اسلامی کے پرچم شرکاء کو تحفے میں دینے کا اعلان کیا تاکہ یہ ان کے گھروں اور دفاتر پر لہراتے رہیں اور اس یادگار پروگرام کی یاد دلاتے رہیں۔ اسی طرح انہوں نے جلسہ گاہ کی وسیع و عریض شاہراہ کا نام ’’شاہراہِ غزہ‘‘ رکھنے کی منظوری بھی شرکاء سے ہاتھ کھڑے کرواکر، لی۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اسرائیلی سفاکی پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ’’ اگر یہ معصوم بچوں اور خواتین کے قتلِ عام پر اہلِ فلسطین کی مدد نہیں کرسکتے، تو کم از کم عوام کے لیے ہی راستہ کھول دیں، امت کا ہر فرد اور میں خود سب سے آگے بڑھ کر بہنوں، بیٹیوں کا محافظ بنوں گا۔ میں نے اہلِ فلسطین کی مدد کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے ایران، ترکی اور قطر کا دورہ کیا۔ دوحہ میں پتا چلا کہ کئی ممالک کے سفارت کار اظہارِ یکجہتی کے لیے حماس کی قیادت سے ملے، مگر پاکستانی سفیر کو جرأت نہیں ہوئی۔ او آئی سی سربراہی کانفرنس میں غزہ کی مدد کے لیے عملی اقدامات کے اعلان سے گریز کیا گیا، ایک مُردہ قسم کا اعلامیہ جاری ہوا جس کا اسرائیل اور امریکہ نے کوئی اثر نہیں لیا، ڈیڑھ ماہ سے غزہ پر بارود کی بارش ہورہی ہے، یہ ظلم اور سفاکی وہ ریاست کررہی ہے جس کو سامراجی قوتوں نے 1948ء میں قائم کیا، ناجائز ریاست کے قیام سے لے کر اب تک اہلِ فلسطین نے اسے تسلیم نہیں کیا، صہیونی ٹینکوںکا غلیلوں اور پتھروں سے مقابلہ کیا۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد دنیا بدل گئی، واضح تفریق ہوگئی کہ کون ظالم کا ساتھ دے رہا ہے اور کس کی مظلوم کو حمایت حاصل ہے۔ انسانیت سے ہمدردی رکھنے والوں نے پوری دنیا میں مظاہرے کیے، فرانسیسی عوام نے حکومت کا بیانیہ تبدیل کرا دیا، کینیڈا کے وزیراعظم کا محاصرہ کیا گیا، واشنگٹن اور لندن میں اہلِ فلسطین کے حق میں لاکھوں کے اجتماع ہوئے، سب کو سلام پیش کرتا ہوں‘‘۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ’’لاہور کے غزہ مارچ نے دشمنوں پر کپکپی طاری کردی، یہ صوبائی دارالحکومت کی تاریخ کا فلسطین کے مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مظاہرہ ہے، اس جذبے کو شکست نہیں دی جاسکتی، فلسطینی سرخرو ہوں گے۔ یہ اجتماع صہیونی ریاست اور اس کے سرپرستوں کے لیے پیغام ہے کہ غزہ میں اہلِ فلسطین کی نسل کُشی بند کریں، امت بے چین ہے اور اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ شرکا سے اپیل کرتا ہوں کہ فلسطینیوں کا پیغام گھر گھر پہنچائیں، آپ کا ہر قدم جہاد فی سبیل اللہ ہے، اہلِ فلسطین کو یقین دلائیں کہ وہ تنہا نہیں، پاکستان کا بچہ بچہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے خون کا آخری قطرہ بھی بہانے کو تیار ہے۔‘‘
ملک کی نام نہاد بڑی سیاسی جماعتوں کے کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ’’غزہ میں ظلم پر یہ تمام جماعتیں اور ان کی قیادتیں خاموش ہیں، امریکہ کے خوف سے فلسطین کا نام نہیں لیتے، بلوچستان اور سندھ کو فتح کرنے کے دعوے ہورہے ہیں، یہ حکمران اپنے عوام اور شہروں کو ہی زیر کرسکتے ہیں، مسلم حکمرانوں میں جارح اور ظالم کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں، قوم عہد کرے آئندہ انتخابات میں امریکی ایجنٹوں کو پاکستان فتح نہیں کرنے دیں گے، استعمار جماعت اسلامی سے خائف ہے اور ہر صورت اس کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ قوم حقیقی تبدیلی، فلسطین و کشمیر کی آزادی اور ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی قائم کرنے کے لیے الیکشن میں جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ دے۔ آئندہ برس 76 ممالک کے انتخابات ہوںگے، جن میں چار ارب ووٹرز حقِ رائے دہی استعمال کریں گے، کہیں بھی دھاندلی کے الزامات نہیں لگائے جاتے، شرم کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ہر دفعہ انتخابات چوری ہوتے ہیں۔‘‘
اسرائیلی سفاکی کے شکار فلسطینی مسلمانوں کے رہنما ڈاکٹر نواف تکروری نے اپنے خطاب میں غزہ مارچ کے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ’’ اہلِ غزہ کی قربانیوں سے پوری دنیا بیدار ہوگئی، اسرائیل کو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی۔ خوش خبری دیتا ہوں کہ فلسطینی مجاہدین کی عسکری قوت محفوظ ہے اور وہ شوقِ شہادت سے سرشار ہیں، اِن شاء اللہ القدس آزاد ہوگا اور اس کے نتیجے میں پوری امت سرفراز ہوگی۔ ہم بہت جلد مسجد اقصیٰ اور آزاد فلسطین میں اہلِ پاکستان کا استقبال کریں گے‘‘۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ ’’غزہ میں ظلم جاری رہا تو پوری دنیا اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے غزہ پر پچیس کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کی، فلسطین پر قومی کانفرنس بلائی جائے‘‘۔ جماعت کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم نے کہا کہ ’’مظلوم فلسطینیوں کا عزم اسرائیلی مظالم سے شکست نہیں کھا سکتا‘‘۔ جاوید قصوری نے کہا کہ ’’غزہ کے مظلومین 58 اسلامی ممالک کے منتظر ہیں جن کے پاس 80 لاکھ فوج ہے‘‘۔ جواد نقوی نے کہا کہ ’’غزہ کربلا کی مثال نہیں بلکہ حقیقتاً کربلا ہے۔ حماس نے ثابت کردیا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہے‘‘۔ دیگر مقررین اور شرکاء میں فرید پراچہ، مولانا عبدالمالک، شکیل احمد، آصف لقمان قاضی، محمد اصغر، اظہر اقبال حسن، ضیا الدین انصاری، نصر اللہ گورائیہ، حافظ ادریس، رسل خان بابر شامل تھے۔