ترقیاتی منصوبے آئی ایم ایف منظوری سے مشروط
ملک میں عام انتخابات اب سر پر آگئے ہیں۔ فروری میں یہ کسی بھی تاریخ کو ہوسکتے ہیں۔ انتخابات قریب آنے پر عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں روایتی بیان بازی میں مصروف ہیں۔ انتخابی شیڈول آجانے پر اس بیان بازی میں مزید شدت، تلخی اور تیزی آئے گی۔ بلاول نے کہا ہے کہ پرانے سیاست دانوں کو چھوڑیں، اُنھیں آزمایا جائے جو پہلے آزمائے نہیں گئے۔ اگر پہلے آزمائے جانے والوں کی بات کی جائے تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) متعدد بار، اور تحریک انصاف ایک بار ماضی میں مرکز میں آزمائی جاچکی ہے۔ ان حکومتوں نے معیشت کا جو حال کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، ملک میں سیاسی تلخی بھی بڑھ رہی ہے جو اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مابین میثاقِ معیشت ابھی ایک خواب ہی ہے۔ روایتی طور پر پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ انتخابات سے کچھ پہلے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھل کر سامنے آجاتی ہیں لیکن جیسا پاکستان میں ہوتا ہے ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں حقیقی ایشوز کی سیاست نہیں کرتیں، یہ صرف پاور پالیٹکس کرتی ہیں اور اقتدار کے لیے سہارے کی تلاش میں رہتی ہیں، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے ہی ’’پروجیکٹ‘‘ بنایا جائے۔ ملکی سیاست کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوں، عوامی سیاست میں بگاڑ اسی سے ختم ہوگا۔ سیاسی تلخیوں کے حالیہ واقعات عام انتخابات کے نتائج پر زیادہ گہرے اثرات مرتب کریں گے۔
گیس کی قیمتوں میں 480 فیصد اضافے کے انتظامی فیصلے کی وجہ سے حساس قیمت 0.73 فیصد اضافے کے مقابلے میں 9.95 فیصد بڑھ گئی ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کی طرف سے یہ کہنا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈکے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت طے شدہ شرائط کا ایک لازمی جزو تھا، دو اہم معاملات پر حکومت کو ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کرتا۔ آئی ایم ایف اقتصادی طور پر قابلِ عمل مقصد کے طور پر مکمل لاگت کی وصولی چاہتا ہے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس شعبے میں موجود مجموعی ناکامیوں سے نمٹنے کے لیے بڑھتی ہوئی ہنگامی ضرورت کا ادراک کرے اور اوسط صارف کی برداشت کا امتحان نہ لے، اور ٹیرف میں اضافے کے ذریعے2.6 ٹریلین روپے کا گردشی قرضہ نمٹانے کی کوئی متبادل کوشش کرے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت نجی پاور پروڈیوسرز کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے کی ذمہ داریوں کو ازسرنو دیکھا جائے جو پاکستانی صارفین کے مفاد کے خلاف ہے۔
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں غربت 40فیصد بڑھ جانے کا انکشاف کیا گیا ہے، اور اوسط آمدنی والے لاکھوں مزید گھرانے خطِ غربت سے نیچے جاچکے ہیں۔ ادارۂ شماریات پاکستان کے مطابق اس صورتِ حال میں تیس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے 45.84 فیصد لوگ متاثر ہوئے ہیں، ماہانہ 17,732 روپے تک کمانے والے 35.72 فیصد اور 44175 روپے ماہانہ کمانے والے 39.67 فیصد مشکل میں پڑگئے ہیں، اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی آجر اور ملک کی کوئی سیاسی جماعت اور حکومت عوام کے اس طبقے کے حقیقی مسائل کا ادراک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کے نزدیک عوام کے مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے، انہیں فکر صرف اس بات کی ہے کہ عوام آنکھیں بند کرکے صرف انہیں ہی ووٹ دیں۔ اس وقت ہماری قومی معیشت 7 ہزار ارب ڈالر کی مقروض ہے۔ اس قرض پر ادا کیے جانے والے سود کا بوجھ الگ سے ہے، اس قرض اور معیشت کے باعث قومی معیشت کا پہیہ اُس وقت چلتا ہے جب آئی ایم ایف کی قسط مل جاتی ہے، بلکہ اِن دنوں تو حالات یہ بن گئے ہیں کہ اس کے باوجود ملکی معیشت کا پہیہ نہیں چل رہا۔7 ہزار ارب ڈالر کا تمام قرض یا کم از کم نصف قرض اتر جائے تو قومی معیشت سنبھل سکتی ہے، اس کے بغیر حالات تیزی سے خرابی کی جانب بڑھتے رہیں گے۔ حکومت یہ قرض اتارنے کے لیے ٹیکس بڑھانا چاہتی ہے اور خسارے میں چلنے والے قومی صنعتی اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کرنے جارہی ہے، لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر اس کے باوجود معیشت نہ چلی تو پھر کیا ہوگا؟ ہماری کسی حکومت نے آنے والے اس کل کے بارے میں نہیں سوچا ہے۔ نگراں حکومت سمیت ہر حکومت ڈنگ ٹپائو پالیسی پر چلتی آئی ہے اور اب بھی چل رہی ہے۔ ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور ساٹھ فی صد ڈگری ہولڈر نوجوانوں کے لیے اپنے ہی ملک میں باعزت روزگار کی فراہمی کے لیے اس ملک کی کسی سیاسی جماعت کے پاس قابل عمل منصوبہ نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف نے دوسری قسط دی ہے، اور شرط عائد کردی ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ پاکستان کا اہم مسئلہ ٹیکس کا ہے، ملک میں جی ڈی پی کا صرف 12 فیصد ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے جسے اب 15 فیصد تک بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے، اور آئی ایم ایف پاکستان کے لیے 9 ہزار 415 ارب کا سالانہ ٹیکس ہدف برقرار رکھنے پر رضامند ہوا ہے۔ یہ ٹیکس کیسے اکٹھا ہوگا؟ وزارتِ عظمیٰ کے لیے بہت سے امیدوار اس وقت میدان میں ہیں، مگر ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو بتارہا ہو کہ قومی معیشت کی درستی کے لیے اس کے پاس کیا ہے؟ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین حالیہ بات چیت میں شرح سود مزید نہ بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس بات چیت کا دوسرا بڑا نکتہ بینکوں کے منافع پر ٹیکس ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بینکوں کے منافع پر 55 ارب روپے تک کا ونڈ فال ٹیکس لگانے اور بینکوں کے منافع پر 40 فیصد تک ونڈ فال ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ بینکوں کے منافع پر ونڈ فال ٹیکس مالی سال 2021ء اور 2022ء کے لیے لگایا جائے گا، اور آئندہ ماہ وصولی کی جائے گی۔ یوں یہ ایک منی بجٹ ہے، تاہم نگراں حکومت ونڈ فال ٹیکس کے لیے فنانس بل میں ترمیم نہیں کرے گی، صرف وفاقی کابینہ کی جانب سے منظوری کافی ہے۔ جن امور پر اتفاق ہوا ہے یہ سفارشات آئی ایم ایف مشن ایگزیکٹو بورڈ کو بھجوائے گا، اور ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کے بعد پاکستان کو 71کروڑ ڈالر کی قسط دسمبر میں ملنے کا امکان ہے۔ نئے ٹیکس کے بعد ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی جو اس وقت 41.90 فیصد ہے۔ جنوری 2024ء سے گیس کی قیمتیں بڑھ جائیں گی تاکہ گردشی قرض حد میں رکھا جاسکے۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں ہمیشہ ترقیاتی منصوبوں سے ہی بڑھتی ہیں، لیکن اب یہ فیصلہ بھی آئی ایم ایف کی منظوری سے ہوگا۔ اگلی قسط بھی مشروط ہے، اس سے قبل حکومت توانائی شعبے کے ٹیرف پر نظرثانی کرے گی اور رئیل اسٹیٹ اور ریٹیلرز سمیت مختلف شعبوں پر اضافی ٹیکس بھی لگایا جائے گا۔ یہ ہے اب تک 75 سالوں کی کہانی… جسے بھی حکومت ملی اُس نے پاکستان کے ساتھ مذاق ہی کیا۔ اب ہمیں پاکستان کے مستقبل کا سوچنا ہوگا، یہ ہم پر قربانیاں دینے والوں کا قرض ہے۔ انقلابِ وطن کے لیے نئی راہیں تلاش کرنی ہوں گی، پرانی لکیریں مٹانا ہوں گی، نئے زاویوں کے ساتھ مستقبل کو تراشنا ہوگا۔
ترسیلاتِ زر کے لیے غیر قانونی حوالہ اور ہنڈی کے خلاف کریک ڈائون کی وجہ سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اب بینکنگ چینل کے ذریعے ترسیلاتِ زر بھیجنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کی بھیجی جانے والی 30 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر ہماری بیرونی ادائیگیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں گزشتہ 3 سال میں 6.75 ارب ڈالر جمع کرائے گئے ہیں۔ پاکستان دنیا میں ترسیلاتِ زر وصول کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ موجودہ حالات میں اِس سال پاکستان سے بیرونِ ملک جانے والوں کی تعداد میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے جن میں بڑی تعداد ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی ماہرین اور تعلیم یافتہ ہنر مند افراد کی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز کے بڑھتے ہوئے انخلا کو روکنے کے لیے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنا ہوگا۔
پاکستان کو آئندہ مالی سال 2024ء کے لیے بیرونی قرضوں کی مد میں 23ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں، اور یہ موجودہ مالی ذخائر سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔آئندہ ماہ ہونے والی ادائیگیوں کے تناظر میں بجلی کے نرخ اگست اور ستمبر کے مہینوں میں 27 روپے سے بڑھاکر اوسطاً 55روپے فی یونٹ کرنے کی تیاری مکمل ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کا ترقیاتی بجٹ ناقابلِ برداشت ہے۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ نظرثانی کی جائے۔ تمام ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے 10.7 ٹریلین روپے درکار ہیں، تمام ترقیاتی منصوبوں کی درکار فنڈنگ رواں سال کے ترقیاتی بجٹ727 ارب روپے سے 14 گنا زیادہ ہے، رواں مالی سال کے آخر تک پاکستان کا قرض 81.8 ٹریلین ہوجائے گا۔ رواں سال کے آخر تک پاکستان کا قرض جی ڈی پی کا 73 فیصد ہوجائے گا، کم و بیش چھ ماہ کے بعد آنے والے اگلے بجٹ کا حجم 15.4 ٹریلین تک ہوگا۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی رسک والے ملکوں میں شامل ہے۔ سال 2022ء کے سیلاب سے پاکستان میں 3 کروڑ لوگ متاثر ہوئے، 1700 لوگ سیلاب سے جاں بحق ہوئے۔ سال2000ء سے پاکستان میں ہر سال موسمیاتی تبدیلی 2 ارب ڈالر کا نقصان کر رہی ہے، ہر سال 500 افراد قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہلاک ہو رہے ہیں اور ہر سال40 لاکھ افراد موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں زراعت اور انفرا اسٹرکچر کو تباہ کررہی ہیں، سال 2050ء تک پاکستان کی معیشت قدرتی آفات سے 9 فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بجٹ انتہائی ناکافی ہے، پاکستان کا ترقیاتی بجٹ موسمیاتی تبدیلیوں کے پراجیکٹس کو ترجیح دے۔
ایف بی آر نے جون 2024ء تک 15 سے 20 لاکھ نئے لوگوں کو ٹیکس وصولی کے دائرۂ کار میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے 145ضلعی افسران کے نوٹیفکیشن جاری کردیے گئے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ نان فائلرز اور اسٹاپ فائلرز سے انکم ٹیکس ریٹرن وصول کرنے کے لیے کارروائی کریں اور گوشوارے جمع نہ کرانے والے افراد کے بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹی کنکشن منقطع اور موبائل سم بلاک کی جائیں۔ حکومت ایک نیا دستاویزی ضابطہ متعارف کرا رہی ہے جس کے تحت مختلف محکمے اور ادارے ایف بی آر کو خودکار ٹرانسمیشن سسٹم کے ذریعے ڈیٹا فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔
ایک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہی اگر قانون کی پابند بنادی جائے توپاکستان کو ہر سال اربوں ڈالر مل سکتے ہیں۔ افغانستان پاکستان کے راستے دنیا بھر سے ڈھائی ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات درآمد کررہا ہے، یعنی افغانستان غریب اور آبادی میں 6 گنا کم ہونے کے باوجود پاکستان سے 5 گنا زیادہ ٹیکسٹائل درآمد کررہا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا غلط استعمال ہورہا ہے اور کرپٹ کسٹم افسران کے باعث افغانستان کے نام پر ہزاروں کنٹینر افغانستان تک صرف کاغذوں میں ہی پہنچ پاتے ہیں، ورنہ 80 فیصد کنٹینر پاکستان میں کھول کر سارا مال پاکستان میں ہی فروخت کردیا جاتا ہے۔ قومی معیشت کی بحالی کے لیے اسمگلنگ پر سخت ترین پابندیاں عائد ہونی چاہئیں تاکہ پاکستان کی تباہ حال معیشت سنبھل سکے۔