مغربی ممالک کے مظاہروں کا مقبول نعرہ
اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کو 40 دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران میں اب تک 13 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ غزہ کے سب سے بڑے اسپتال الشفا کو اسرائیل نے مکمل طور پر قبضے میں لے کر بند کردیا ہے اور رہ جانے والے چند نوزائیدہ بچے بھی اب ریڈکراس کے تعاون سے رفح کراسنگ سے مصر بھیج دیے گئے ہیں۔ یہ 40 دن فلسطینیوں کی زندگی میں ایک قیامت سے کم نہیں ہیں۔ ہنستا بستا غزہ اب ایک اجڑے دیار کا منظر پیش کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے United Nations office for coordination of Humanitarian Affairsکے ترجمان Jens Learke غزہ کو زمین پر جہنم قرار دے رہے ہیں۔ اس وقت غزہ کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے غزہ کے سب سے بڑے اسپتال کو اسرائیلی قبضے کے بعد Death Zone قرار دے دیا ہے۔ اسپتال پر اسرائیلی حملے اور قبضے کے وقت وہاں 2500 انتہائی بیمار مریض موجود تھے جن میں سے شدید زخمی اور جسمانی اعضاء سے محروم افراد بھی اپنے علاج کے منتظر تھے کہ اسرائیلی حملے کے بعد اسپتال کو مکمل طور پر اسرائیلی افواج نے خالی کروا لیا۔ اس اسپتال کے حوالے سے اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ یہاں حماس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم موجود ہے جہاں سے حماس کو منظم کیا جاتا ہے۔ تاہم حملے و مکمل قبضے کے تین دن بعد بھی اسرائیلی افواج کوئی بھی چیز ثابت کرنے میں ناکام رہی ہیں، تاہم اسپتال کی چند ویڈیوز جاری کی گئیں جن کا پوسٹ مارٹم خود بین الاقوامی نشریاتی اداروں بشمول بی بی سی نے کردیا کہ کس طرح ویڈیوز کو ایڈٹ کرکے حقائق کو مسخ کیا گیا ہے۔ جبکہ ان بلند بانگ دعووں کے باوجود بھی بین الاقوامی میڈیا کو اسپتال میں مبینہ طور پر واقع حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تک رسائی نہیں دی گئی کہ جہاں سے دنیا کی اعلیٰ ترین فوجی و انٹیلی جنس صلاحیت کے حامل ملک پر حملہ کرکے اس کی ساری ٹیکنالوجی کو فیل کردیا گیا تھا۔ اِس وقت تک اسرائیلی فوج نے صرف ایک ٹنل کا دعویٰ کیا ہے جو کہ اسپتال میں برآمد ہوئی، لیکن نہ کوئی ہتھیار نہ اسلحہ و گولہ بارود مل سکا جس کی وجہ سے اسرائیل کے دعوے کی قلعی کھل گئی ہے۔ اب اسرائیل حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر قبضہ کرنے کے باوجود بھی اپنے مغویوں کی رہائی ممکن نہ بنا سکا اور اس کے لیے خود امریکہ کے ذریعے قطر میں مذاکرات کروا رہا ہے۔ یہ اسرائیل کی اس جنگ میں مکمل ناکامی کا اعتراف ہے۔ اگر جنگ اس مقصد کے لیے تھی کہ مغویوں کو بازیاب کروایا جائے گا تو اب پورے غزہ پر قبضہ کرنے کے باوجود مغویوں کو کیوں بازیاب نہ کروایا جاسکا؟ اگر جنگ حماس کو تباہ کرنے کے لیے تھی تو دوسری جانب حماس سے مغویوں کی رہائی کے لیے ڈیل کیوں کی جارہی ہے؟ واضح رہے کہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی قطر کی جانب سے ثالثی کی پیش کش کو اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے مکمل مسترد کردیا تھا اور حماس کو طاقت سے سبق سکھانے کا عندیہ دیا تھا۔
اس وقت اسرائیل اور حماس کے درمیان مغویوں کی رہائی کی ڈیل فائنل ہوچکی ہے۔ اس ڈیل میں قطر اور امریکہ بطور ثالث موجود ہیں۔ ڈیل کے مطابق حماس کی قید میں موجود 240 میں سے صرف 12 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جس کے بدلے میں اسرائیل کی جیل میں قید حماس کے رہنماؤں و دیگر قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ گو کہ قیدیوں کی رہائی اور تبادلے کے حوالے سے تعداد میں ابہام موجود ہے لیکن وائٹ ہاوس کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان فنر نے حماس کی جانب سے 12 قیدیوں کی رہائی کی ڈیل کی تصدیق کی ہے۔ واضح رہے حماس نے ان مذاکرات میں یہ بھی بتایا کہ 240 میں سے تقریباً 30 قیدی اسرائیل کی بمباری کا نشانہ بن کر ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 4 قیدیوں کو حماس خود انسانی ہمدردی کی بنا پر رہا کرچکی ہے۔ اب ان باقی قیدیوں میں سے اکثریت کا تعلق 26 ممالک سے ہے جن کے پاس اسرائیل کی دہری شہریت ہے۔ دیگر مغربی نشریاتی ادارے بھی اس خبر کی تصدیق کررہے ہیں کہ 12 قیدی جن کو حماس نے ڈیل میں رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے وہ سب کے سب خواتین اور بچے ہیں جن کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیل سے رہا کروایا جائے گا اور جنگ میں پانچ دن کا وقفہ بھی ہوگا۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایک بار پھر اس ڈیل کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ حماس بین الاقوامی دباؤ پر بچوں و خواتین کو رہا کررہی ہے۔
اس وقت اسرائیل کی حکومت بھی شدید دباؤ کا شکار ہے اور مغویوں کی رہائی کے لیے شدید دباؤ حکومت کو بہت متاثر کررہا ہے۔ اب اسرائیلی شہری خود اس پر تنقید کررہے ہیں کہ حکومت کے بلند بانگ دعووں اور اتنے بڑے فوجی آپریشن کے باوجود کوئی ایک مغوی بھی بازیاب کیوں نہ ہوسکا! خود اسرائیلی میڈیا کہہ رہا ہے کہ حکومت میں مذاکرات اور ڈیل کے حوالے سے شدید تقسیم ہے، اور دوسری جانب اسرائیل کے اوپر جنگی جرائم اور بے گناہوں کے قتل کے حوالے سے بین الاقوامی عدالت ِانصاف میں مقدمے کی تیاری بھی اسرائیلی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
اس وقت مغرب کی سڑکوں پر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اور ان کے سہولت کار امریکی صدر جوبائیڈن کو قاتل قرار دیا جارہا ہے۔ یہاں برطانیہ کی ریلیوں اور جنگ بندی مارچ میں یہ نعرے بہت مقبول ہورہے ہیں جن میں سوال کیا جارہا ہے کہ
”جوبائیڈن تم اور کتنے بچوں کو مارو گے؟“
“Israel is the Terrorist State”
”اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے“
یہ پورا ایک منظرنامہ یہاں مغرب میں تشکیل پارہا ہے جس میں عوامی دباؤ سب سے زیادہ کام کررہا ہے۔ اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ خود برطانوی سیاست میں اسرائیل فلسطین جنگ کی وجہ سے پیدا شدہ بحران مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔ گوکہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں دونوں ہی جنگ بندی کی اپیل کرنے سے گریزاں ہیں تاہم سڑکوں پر عوام اور ایوانوں کے اندر اراکینِ پارلیمنٹ کھل کر فلسطین کا مقدمہ پیش کررہے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ کام حکومتی سطح پر اگر کسی فرد نے کیا ہے تو وہ اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر (وزیراعظم) حمزہ یوسف ہیں جنہوں نے روزِ اوّل سے نہ صرف جنگ بندی کی اپیل کی بلکہ متاثرہ فلسطینی باشندوں کی اسکاٹ لینڈ میں آمد اور ان کو علاج کی مکمل سہولیات فراہم کرنے کی بھی پیش کش کی جوکہ برطانوی حکومت نے سرد خانے کی نذر کردی۔ اب اسکاٹ لینڈ کی حکمراں جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی نے جنگ بندی کی قرارداد برطانوی ایوانِ نمائندگان (House of Commons) میں پیش کرکے سیاست میں ایک دھماکہ کردیا۔ حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کی اسرائیل کی حمایت کی یکساں پالیسی کے بعد اس کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا کہ ایسی کوئی قرارداد پیش کی جاسکے۔ تاہم اسکاٹش نیشنل پارٹی نے یہ کام کردکھایا جس کے نتیجے میں نہ صرف حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی بلکہ اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی میں شدید تقسیم پیدا ہوگئی۔ اب تک وہ اراکین جوکہ کھل کر جنگ بندی کے حق میں پارلیمنٹ میں بول رہے تھے ان کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع بھی مل گیا جس کا سب سے زیادہ نقصان اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کو ہوا جس کے 198 میں سے 56 اراکین نے پارٹی پالیسی کے خلاف قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ ان 56 اراکین میں لیبر پارٹی کے 8 شیڈو منسٹرز بھی تھے جنہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی اور اپنی شیڈو منسٹری چھوڑ دی۔ اس طرح الیکشن سے قبل یہ لیبر پارٹی کو شدید ترین دھچکہ ہے۔ قرارداد پر ووٹنگ میں قرارداد کے حق میں 125 اور اس کے خلاف 293 ووٹ آئے، اور اس طرح قرارداد گوکہ مسترد ہوگئی لیکن برطانوی سیاست میں شدید ترین تقسیم پیدا کرگئی۔ اس وقت برطانیہ کی سیاسی صورتِ حال انتہائی غیر متوقع ہے اور وزیراعظم رشی سونک کے وزیر داخلہ سوئیلا براومین کو برطرف کرنے کے بعد سوئیلا براومین کی جانب سے وزیراعظم رشی سونک پر براہِ راست سنگین نوعیت کے الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی میں سے بھی جنگ بندی کے لیے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ تیسری جانب سابق وزیر داخلہ سوئیلا براومین کی غیر قانونی تارکین وطن کو افریقی ملک روانڈا ملک بدری کو برطانوی سپریم کورٹ نے بھی خلافِ قانون قرار دے کر روک دیا۔ اس سے قبل یورپی عدالت نے بھی اس کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دے کر اس کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ اب یہ دوسری بار ہے کہ اس کو کسی اور عدالت نے خلافِ قانون قرار دیا ہے۔ اس سے قبل چرچ آف انگلینڈ بھی اسے انسانیت سوز قرار دے چکا ہے، اور چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ نے خود واضح الفاظ میں اس پر تنقید کی تھی اور اس کو انسانی وسائل پر قبضہ قرار دیا تھا۔
برطانیہ میں 7 اکتوبر سے قبل تک اس بات کی پیش گوئی کی جارہی تھی کہ لیبر پارٹی اگلا الیکشن جیت جائے گی، لیکن اب اس کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر کو 2019ء میں جرمی کوربن کی جگہ سربراہ بنایا گیا تھا۔ لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جرمی کوربن جوکہ خود بھی منتخب رکن پارلیمان ہیں، ریاست فلسطین کے پُرزور حامی ہیں اور ان خیالات کا اظہار وہ پارلیمان میں برملا کرتے ہیں، اور لندن میں ہونے والے جنگ بندی و فلسطین کی حمایت میں مظاہروں سے خطاب بھی کرتے ہیں۔ جرمی کوربن 2015ء سے 2020ء تک اپوزیشن لیڈر بھی رہے، تاہم ان کے فلسطین حامی خیالات کی وجہ سے انہیں سازش کا نشانہ بنایا گیا اور ان کو نہ صرف پارٹی کی سربراہی بلکہ اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا تھا۔ جرمی کوربن نے اس سب کے باوجود بھی فلسطین کے حوالے سے اپنے خیالات کو تبدیل نہیں کیا۔ اب جبکہ خود لیبر پارٹی میں بغاوت کی صورتِ حال ہے جس کی بنیادی وجہ پارٹی سربراہ کی اسرائیل حامی پالیسی ہے، اس کے باعث لیبر پارٹی ایک جیتا ہوا الیکشن ہارنے جارہی ہے۔ اس صورتِ حال میں امکان یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ شاید پارٹی سربراہ کو تبدیل کرکے اپنے لیے ماحول کو کچھ سازگار بنایا جاسکے۔ اس ضمن میں نہ صرف لیبر پارٹی بلکہ کنزرویٹو پارٹی کی بھی قیادت تبدیل ہوگی کہ جہاں ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں شمولیت کے بعد اُن کی جانب نگاہِ انتخاب اٹھ رہی ہے، کیونکہ برطانوی سیاست میں گزشتہ تین سال میں تین وزرائے اعظم کی تبدیلی نے ایک بحران کو جنم دیا ہے جہاں اب الیکشن کے بعد اگر کوئی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوتی ہے تو پھر سوال یہی ہے کہ وزیراعظم کے لیے مناسب ترین فرد کون ہوگا؟اس حوالے سے اب دونوں جماعتوں میں شدید بحران ہے۔ برطانوی سیاست میں اِس بار مسلمانوں کا ووٹ ایک قوت کے طور پر استعمال ہونے کا امکان ہے، اس کی بنیادی وجہ مسئلہ فلسطین ہے کہ جس نے یہاں مسلمانوں کو اپنے ووٹ کی قوت کا احساس شدت سے دلایا ہے۔ اب خود مسلمان ووٹر جنگ بندی کی قرارداد کی حمایت نہ کرنے والے عوامی نمائندوں سے سوال کررہے ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ نہ دینے والے مسلمان اراکینِ پارلیمنٹ کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ اگر دوبارہ الیکشن لڑیں تو شاید منتخب نہیں ہوسکیں گے۔ اس پوری صورتِ حال میں لیبر پارٹی کو شدید مشکلات درپیش ہیں کیونکہ برطانیہ کے 70 فیصد مسلمان جوکہ لیبر پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، کھل کر مظاہروں میں اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ اب ان کا ووٹ لیبر پارٹی کو نہیں جائے گا۔ اس کا فائدہ لامحالہ حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کو ہوسکتا ہے، لیکن کنزرویٹو پارٹی بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ اب لیبر پارٹی میں ایک اندرونی تبدیلی کی کوشش کی جارہی ہے کہ جہاں جنگ بندی کے حق میں برطانیہ کے دو بڑے شہروں لندن اور مانچسٹر کے میئرز صادق خان اور اینڈی برنہم جن کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے، کھل کر بیانات دے رہے ہیں۔ دوسری جانب جرمی کوربن بھی فلسطین کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ اگر لیبر پارٹی کو مسلمان ووٹرز کو دوبارہ اپنی جانب راغب کرنا ہے تو شاید ان تینوں میں سے کوئی ایک لیبر پارٹی کے قائد کے طور پر سامنے آئے جس کا قوی امکان بہرحال موجود ہے، اور اس کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر نے کہا کہ جنگ بندی کے حوالے سے ان پر شدید دباؤ ہے جس سے ان کو اور ان کے اہلِ خانہ کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیبر پارٹی کی آئندہ انتخابات میں جیت سے زیادہ ان کے لیے ان کے خاندان کا تحفظ اہمیت رکھتا ہے۔
برطانوی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس پر ابھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی، تاہم اسرائیل فلسطین جنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ برطانوی سیاست پر شدت سے اثرانداز ہورہی ہے۔ ایک جانب عوامی دباؤ حکومت و اپوزیشن میں مزید تقسیم پیدا کررہا ہے تو دوسری جانب اب کھل کر میڈیا بھی اسرائیل کو جارح ریاست کے طور پر پیش کررہا ہے۔ برطانوی سیاست میں جو چیز کسی خاص اہمیت کی حامل نہ تھی وہ اب برطانوی سیاست کی نقشہ گر بن رہی ہے۔ فلسطینیوں کی 75 سالہ جدوجہد کا سفر غلیل و پتھر سے ہوتا ہوا جہاں میزائل تک پہنچا ہے، وہیں اقوام عالم کی میز پر پڑے اس مُردہ مسئلے کو بھی نہ صرف عالمی مسئلے کے طور پر دیکھا جارہا ہے بلکہ مشرق اور خاص طور پر مغربی عوام کا اجتماعی شعور ریاست کو اپنی پالیسی بدلنے پر بھی مجبور کررہا ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اب نہ صرف جارح کو، بلکہ ان کے حمایت یافتہ اور ان کی مالی مدد کرنے والوں کو بھی بائیکاٹ کے مؤثر ہتھیار سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مغرب میں اسرائیل کی جارحیت کی روایتی علامت کے طور پر میکڈونلڈ اور اسٹار بکس کا مؤثر بائیکاٹ کیا جارہا ہے، اور اب مغرب میں موجود اسرائیل کے لیے ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کی بھی نشاندہی کرکے اُن کے سہولت کاروں کے گھیراؤ کا اہتمام جاری ہے۔ مغرب میں فلسطین کے لیے ایسی مؤثر آوازیں سنائی دے رہی ہیں جوکہ کبھی مشرق میں سنائی دیتی تھیں۔ تاریخ کا دھارا اب مشرق سے مغرب کی جانب تبدیل ہوگیا ہے، شاید کہ اس سے ہی مسئلہ فلسطین کی راہ ہموار ہو۔