جنوبی ایشیا کے کسی پہلے ملک نے ضمانت پر رہا ایک کشمیری شہری کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کے لیے اس کے ٹخنے کے ساتھ گلوبل پوزیشننگ سسٹم یعنی جی پی ایس ٹریکر باندھ دیا ہے۔ اس طرح جنوبی ایشیا میں کشمیری وہ پہلے مظلوم ہیں جو اس سلوک کے حق دار ٹھیرے۔ یوں بھارت نے اس خطے میں انسانوں کی تذلیل اور ان کے بنیادی حقوق کو پیروں تلے روندنے کا یہ جدید طریقہ اپنایا۔ اس عمل پر کوئی شرمندگی اور ندامت بھی ظاہر نہیں کی جارہی بلکہ اب اس عمل کو ایک باقاعدہ مشق بنانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ یہ سیاہ رنگ کا ایک آلہ ہے جس میں ایک سم نصب ہوتی ہے اور اسے ایک پٹی کے ساتھ ٹخنوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ اس کا سسٹم مرکزی کنٹرول روم کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، جونہی کوئی شخص اس ٹریکر کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے توکنٹرول روم کو اطلاع ہوجاتی ہے اور اس ٹریکر کے ذریعے اس فرد کی نقل و حرکت لمحہ بہ لمحہ کنٹرول روم کو معلوم ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جی پی ایس سسٹم ایک پرائیویٹ کمپنی کا تیار کردہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی منظورِ نظر کمپنی کو فائدہ دینے کے لیے اس تجربے کا آغاز کیا گیا ہے، اور پرائیویٹ کمپنی کے تیار کردہ سسٹم کا مطلب یہ ہے کہ یہ کمپنی لوگوں کی پرائیویسی اور ان کا ڈیٹا کسی بھی منفی مقصد کے لیے استعمال کرسکتی ہے ۔ ابھی تو یہ تجربہ کشمیر میں کیا گیا ہے مگر آگے چل کر پورے بھارت میں اس عمل کو دہرائے جانے کا امکان موجود ہے۔ اس لیے بھارت میں دبے دبے انداز میں اس عمل کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور اسے فرد کی پرائیویسی اور انسانی حقوق کے زاویے سے بھی دیکھا جارہا ہے۔
الجزیرہ نے اس پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پینسٹھ سالہ غلام محمد بھٹ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں جو کشمیرکے ہردلعزیز راہنما سید علی گیلانی کے دستِ راست کہلائے جاتے تھے۔2011ء میں انہیں بھارتی فورسز نے گرفتار کرکے دہلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کیا۔ غلام محمد بھٹ پر یہ مضحکہ خیز الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایک گیس سیلنڈر میں پانچ ملین انڈین روپے جو مالیت میں ساٹھ ہزار امریکی ڈالر بنتے ہیں، منتقل کررہے تھے۔ انہیں حریت کانفرنس کا مالی معاون بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی ان الزامات کو برسہا برس تک عدالت میں ثابت نہ کرسکی، گویا کہ ابھی تک اس شہری پر جرم ثابت بھی نہیں ہوا اور عدالت نے ضمانت دینے کے ساتھ ہی اس کی نقل وحرکت پر پابندی کا یہ انداز اختیار کرنے کی منظوری دے دی۔ اسی لیے قانونی ماہرین نے یہ نکتہ اُٹھایا ہے کہ جب تک کسی فرد پر جرم ثابت نہ ہو اُس پر اِس نوعیت کی غیر انسانی قدغن لگانا غیر قانونی ہے۔ جی پی ایس ٹریکر سسٹم بھی ایک طرح کی قید ہی ہے۔ یہ فرد کی پرائیویسی پر حملہ ہے، اور جب تک کسی شخص پر جرم ثابت نہ ہو اُسے مجرموں کے انداز میں رکھنا ناانصافی ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں بھارت کے ایک پارلیمانی وفد نے جیلوں میں قیدیوں کی بھیڑ اور بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث ٹریکر سسٹم کی تنصیب کی تجویز پیش کی تھی۔ بھارت کے نیشنل کرائم بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق بھارت کی جیلوں میں 554,034قیدی ہیں جن میں427,165 یعنی 76فیصدٹرائل کے انتظار میں ہیں۔ کشمیر میں جہاں آزادی پسند سیاسی کارکنوں پر بدترین کریک ڈائون چل رہا ہے، ٹرائل کے بغیر قیدیوں کوجیلوں میں رکھنے کا تناسب 91فیصد ہے، گویا کہ کشمیر میں اکیانوے فیصد سیاسی قیدی جرمِ بے گناہی کا شکار ہیں کیونکہ ان کا مقدمہ عدالتوں میں پیش ہی نہیں کیا جا رہا ۔ڈی جی کشمیر پولیس آر آر سوئین کے مطابق ’’سنگین جرائم میں ملوث اور ضمانت پر رہا قیدیوں کی ہمہ وقت مانیٹرنگ ضروری ہے۔ اس کے سوا ضمانت کی شرائط پر عمل درآمد کرانا ممکن نہیں، ہم خوش ہیں کہ پہلا ٹریکر نصب کردیا گیا ہے۔‘‘ اس طرح بھارتی حکام کو اس بات پر خوشی ہے کہ سیکورٹی کے نام پر ایک نیا دھندا شروع ہوگیا ہے، مگر بھارت بھر میں حکومت کے مخالفین بالخصوص کمزور طبقات یعنی مسلمانوں اور سکھوں وغیرہ کے لیے یہ خطرے کی ایک گھنٹی ہے کیونکہ کشمیر کی ’’تجربہ گاہ‘‘کے بعد یہ عمل پورے بھارت تک دراز کیا جاسکتا ہے۔
بھارت کشمیرمیں عوام کے اعصاب توڑنے کی جس حکمت عملی پر چل رہا ہے اس میں اپنے غصے اور فرسٹریشن کو عوامی تذلیل کی شکل میں ظاہر کرنا ضروری ہے۔ اس لیے آئے روز کشمیر میں انسانوں کی تذلیل کے نئے نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ ایک معروف سیاسی کارکن جو پیشے کے اعتبار سے وکیل اور پیرانہ سالی کا شکار ہے، جب ٹخنے کے ساتھ بازو کی گھڑی کی طرح کا آلہ باندھ کر پھریں گے تو یہ نہ صرف انہیں خود بلکہ ان کے ملنے جلنے والوں کو ایک احساسِ شکست دلانے کا باعث بنتا رہے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ایک قیدی کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر اسے آزاد کردیا جائے۔ جی پی ایس ٹریکر بھی جدید طرز کی بیڑی ہی ہے جو آواز نکال کر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے کنٹرول روم میں گھنٹیاں بجاکر متعلقہ لوگوں کو قیدی کی نقل وحرکت کا پتا دیتی ہے۔ چند سال قبل تذلیل کا یہی انداز اختیار کرتے ہوئے ایک کشمیری باشندے کو فوجی گاڑی کے آگے باندھ دیا گیا تھا۔ یہ تصویر پوری دنیا میں وائرل ہوئی تھی۔ بھارتی فوجیوں نے محض پتھر بازوں سے بچنے کے لیے ایک انسان کو جس غیر انسانی انداز میں ہیومن شیلڈ بنایا تھا اس نے بھارت کے آزاد ضمیر لوگوں کو بھی شرمسار کیا تھا۔ یہ تصویر آج بھی بھارت کا منہ چڑا رہی ہے۔ اب غلام محمد بھٹ جب جی پی آر ٹریکر سسٹم کے ساتھ باہر نکلیں گے تو بھارت کی انسان دوستی اور قانون پسندی کا تماشا بنتا رہے گا۔