معاشیات نے انسانی زندگی کے منظرنامے سے انسان کو منہا کردیا ہے اور اس کی جگہ خود لے لی ہے۔
مغربی دنیا کے پیدا کردہ موجودہ زمانے کے بارے میں مشرقی دانش وروں کا ایک عام سا خیال یہ ہے کہ یہ زمانہ انسان اور خدا، انسان اور کائنات، اور انسان اور انسان کے قدیم ترین رشتوں کو توڑنے کا زمانہ ہے۔ مغرب کے بہت سے اہلِ فکر و نظر نے بھی اس بات کی گواہی بڑی شد ومد کے ساتھ دی ہے۔ اس طرح کے تمام لوگ اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مغربی فلسفہ اور سائنس نے انسان کے اُن تمام رشتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے جو قدیم ترین زمانے سے لے کر جدید زمانے تک انسانی زندگی کی معنویت کا تعین کرتے رہے ہیں اور جن کے بغیر انسانی زندگی کا تصور کرنا امرِ محال رہا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جدید عہد نے ان رشتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے، تاہم ہمارے خیال میں معاملہ توڑ پھوڑ سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جدید عہد کے فکری نظاموں نے ان رشتوں کو توڑنے سے زیادہ بدلنے کی کوشش کی ہے جو کہ توڑنے سے زیادہ خطرناک بات ہے۔ کیوں کہ ٹوٹے رشتوں کو جوڑنا آسان ہے لیکن بدلے ہوئے رشتوں کو اُن کی اصل شکل میں بحال کرنا مشکل ہے، خاص طور پر اگر یہ تبدیلی بنیادی اور جوہری نوعیت کی ہو۔ اور ہمارے نزدیک اس عہد نے ان رشتوں میں بنیادی اور جوہری نوعیت کی تبدیلی پیدا کردی ہے۔ یہ تبدیلی کیا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
انسان کی پوری زندگی کی معنویت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کی تمام تر جدوجہد اور سرگرمیوں کا بنیادی حوالہ کیا ہے؟ یعنی وہ کون سا مرکز ہے جس کے اردگرد اس کی تمام سرگرمیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں؟
ایک زمانہ تھا کہ انسان کی تمام تر جدوجہد اور سرگرمیوں کا مرکزی حوالہ وہی رشتے تھے جن کا حوالہ ہم نے کالم کے آغاز میں دیا ہے۔ اس میں اُس کی سیاسی، سماجی، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں ہی نہیں بلکہ اُس کی معاشی سرگرمیاں بھی شامل تھیں۔ تاہم جدید دور میں انسان کی جدوجہد اور سرگرمیوں کا مرکزی حوالہ یہ رشتے نہیں بلکہ یہ سرگرمیاں بن کر رہ گئی ہیں اور خاص طور پر معاشی سرگرمی۔ آج کے کالم میں ہم اسی سرگرمی اور انسانی رشتوں کے باہمی تعلق پر گفتگو کریں گے اور مختلف زاویوں سے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
پچھلی پانچ چھ دہائیوں میں مغربی فکر کے زیر اثر زندگی کی جو صورت پیدا ہوئی ہے اس نے انسان کی جدوجہد کے بنیادی مرکز کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ پہلے یہ مرکز مختلف تعلقات تھے، اور اب معاشی زندگی یا معاشیات ہے۔ صنعتی زندگی جیسے جیسے پھیلائو اختیار کرتی جارہی ہے ویسے ویسے یہ مرکز زیادہ پیچیدہ اور اہم ترین بنتا جارہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی نفسیاتی، جذباتی اور محسوساتی ضروریات تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہی ہیں۔ مثال کے طور پر کسی زمانے میں جو خوشی محبوب کے دیدار سے وابستہ تھی اب وہ خوشی جدید ترین ماڈل کی کار سے وابستہ ہوگئی ہے۔ ایک زمانے میں جو مسرت قریبی انسانی تعلقات سے ہوتی تھی اب وہ مسرت تعلقاتِ عامہ یعنی Public Relationing سے ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یادوں کا بھرا پُرا اکائونٹ انسان کی بڑی متاع ہوتا تھا، اور ایک زمانہ یہ ہے کہ صحت مند بینک اکائونٹ انسان کے بلند مرتبے کی علامت ہے۔ یعنی ہر کھوٹے نے ہر کھرے کی جگہ لے لی ہے۔ جدید زندگی زندہ باد۔ بقول شاعر؎
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہو گا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہو جائیں گے
اگر آپ محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہم نے اوپر جدید دور کی جن نمایاں علامتوں کا ذکر کیا وہ سب کی سب معاشی زندگی کی ضروریات یا اس کا نتیجہ ہیں اور ہماری زندگی کا مرکزی حوالہ ہیں، اور ہولناک بات یہ ہے کہ ہماری اپنی زندگی بھی ان کا حوالہ ہے۔ یعنی ہم معاشیات میں ہیں اور معاشیات ہم میں ہے۔ یہ ہماری لیلیٰ ہے اور ہم سب اس کے مجنوں۔
جدید عہد کی معاشیات یعنی لیلیٰ نے خدا اور کائنات کے ساتھ انسانی رشتے کو کس طرح بگاڑا ہے اس پر تو ہمارے عسکری صاحب، سلیم احمد صاحب یا بھائی سراج منیر صاحب ہی بہتر طور پر روشنی ڈال سکتے تھے کہ ان حضرات کی نگاہیں زمین کے ساتھ ساتھ آسمان پر بھی تھیں، تاہم اس پری وش ہزار شیوہ نے انسانی رشتوں کے ساتھ کیا گل کھلائے ہیں اس پر تھوڑی بہت روشنی ہم بھی ڈال سکتے ہیں، اور روشنی نہ سہی تاریکی سہی، کہ اب روشنی اور تاریکی میں کوئی خاص فرق تو نہیں رہ گیا ہے… خاص طور پر ہماری دانش ورانہ زندگی میں۔
اب آپ ذرا زمین پر قائم ہونے والے انسانی رشتوں کی مختلف شکلوں پر ایک نظر ڈالیے۔ والدین اور اولاد کا رشتہ، بہنوں اور بھائیوں کا رشتہ، شوہر اور بیوی کا رشتہ، دوستوں اور دوستوں کا رشتہ، اور ان رشتوں کے درمیان آنے والے دیگر رشتوں کا رشتہ۔
ذرا غور کیجیے کہ ان رشتوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے والا عنصر کیا ہے؟ محبت، انسیت، یا کوئی اور نفسیاتی، جذباتی یا جمالیاتی ضرورت؟ اگر محبت اور انسیت ہے تو اس محبت یا انسیت کی تشکیل کن عوامل نے کی ہے؟ کیا ایسا ہے کہ کوئی فرد دوسرے فرد کے لیے صرف ایک فرد کی حیثیت سے اہم ہے؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک فرد اپنی معاشی اہمیت یا سماجی مرتبے کے باعث اہم ہے؟ ذرا سوچیے کہ جو فرد آج اپنے معاشی پس منظر کے باعث اہم ہے اگر کل اپنے معاشی پس منظر سے محروم ہوجائے تو کیا وہ پھر بھی آپ کے لیے اتنا ہی اہم ہوگا جتنا کہ آج ہے؟ میرے خیال میں اگر اکثر لوگ ایمان داری سے کام لیں تو ان سوالات کا ایک ہی جواب ہوگا کہ ”نہیں“۔
شہری معاشرے میں تو اب یہ عام تجربہ ہے کہ ایک گھر میں رہنے والے چار بیٹوں میں سے اگر تین کمانے والے ہیں تو ان کی اہمیت زیادہ ہے اور ایک جو کماتا نہیں ہے اُس کی اہمیت کچھ بھی نہیں، یا اتنی نہیں جتنی کہ تین کی ہے، خواہ وہ ذاتی خصوصیات کی بنا پر انسانی اعتبار سے ان تینوں سے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔
ایک زمانہ تھا کہ شادی بیاہ کے سلسلے میں شرافت اور خاندان وغیرہ کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی، مگر اب معاشی مرتبے کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر معاشی مرتبہ کافی و شافی ہے تو پھر شرافت اور خاندان وغیرہ کی اہمیت بہت سرسری سی ہوکر رہ جاتی ہے۔
خیر یہ تو معاشرتی زندگی میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کی کچھ جھلکیاں تھیں جو ہر روز آپ کے مشاہدے اور تجربے میں بھی آرہی ہوں گی، چناں چہ ان کو بیان کرنے سے مقصود ان کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان کی معنویت کا تعین ہے، اور ان کی معنویت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ معاشیات نے انسانی زندگی کے منظرنامے سے انسان کو منہا کردیا ہے اور اس کی جگہ خود لے لی ہے۔ چناں چہ ہمارے تعلقات دراصل انسانی تعلقات نہیں بلکہ معاشی تعلقات ہیں، اور انسان کے اندر پائی جانے والی انسانی خصوصیات کی اہمیت ایک اضافی Qualification سے زیادہ نہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی جاب کو حاصل کرنے کے لیے اشتہار دیا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے ایم اے کی ڈگری کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں فلاں ڈپلوما کو اضافی اہلیت تصور کیا جائے گا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اضافی اہلیت صرف نام کے لیے ہے۔ یعنی زندگی کے فارم میں اضافی اہلیت کا بھی ایک خانہ ہے جسے مجبوراً مگر خواہ مخواہ پُر کرنا ہے۔
انسانی زندگی بہت سے تحفظات کے ساتھ بسر ہوتی ہے۔ ان میں نفسیاتی، جذباتی، محسوساتی، جنسی اور رسمی نوع کے دوسرے تحفظات شامل ہیں۔ ان تمام تحفظات کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت رہی ہے، اور ان میں سے کسی ایک تحفظ کی عدم موجودگی سے انسانی زندگی میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ معاشیات نے انسانی زندگی کے اس تحفظاتی نظام کو بھی توڑ پھوڑ کر پھینک دیا ہے اور ان سب کی قائم مقام بن بیٹھی ہے۔ جو تحفظ یہ تمام عناصر مل کر انسان کو فراہم کرتے تھے اب معاشیات انسان کو فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے، اور دنیا کے بے شمار لوگ اس کے عادی بھی ہوچکے ہیں۔ یعنی اگر آپ کی معاشیات مضبوط ہے تو بہت سے لوگ آپ سے دوسرے سہاروں کو طلب نہیں کریں گے، اور اگر طلب کریں گے بھی تو اس میں وہ شدت نہیں ہوگی جو کہ دوسری صورت میں ہوسکتی تھی یا ہونی چاہیے تھی۔ لیکن چوں کہ معاشیات ان تمام تحفظات کی کمی کو پورا نہیں کرسکتی اس لیے انسانی نفسیات میں بے شمار نوعیت کی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔
موجودہ عہد نے انسان کی معاشی جدوجہد کو اتنا پھیلادیا ہے کہ وہ انسان کے وقت کی سب سے بڑی قاتل بن گئی ہے۔ چناں چہ وہ وقت جو کبھی دوسری انسانی سرگرمیوں میں صرف ہوتا تھا اب صرف معاشی جدوجہد کی نذر ہوجاتا ہے۔ یوں ہمارے وجود میں موجود کتنے ہی جذبات، احساسات اور خیالات کو اپنی نشوونما کے لیے وہ وقت نہیں مل پاتا جو کہ ان کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید عہد میں ادھ کچرے جذبات، احساسات اور خیالات کی بھرمار ہوگئی ہے اور پختگی ہر چیز سے غائب ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پکے ہوئے جذبات، احساسات اور خیالات کا وہ لطف جو کبھی انسان کو حاصل تھا ہم اس سے محروم ہوچکے ہیں۔ افسوس ناک ترین بات یہ ہے کہ ہمیں اس محرومی کا احساس بھی نہیں ہے۔
اس موضوع پر کہنے کے لیے اور بھی کئی باتیں ہیں مگر پھر ہمارا یہ کالم طویل ہوجائے گا اور معاشی جدوجہد میں مصروف ہمارے قارئین کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ طویل کالم پڑھنے کے لیے وقت نکالیں۔ ویسے خود ہمیں بھی کالم مکمل کرتے ہی دفتر جانا ہے، اس لیے باقی باتیں پھر کبھی۔