نواز شریف کی کوئٹہ آمد

دستور اور آئینی حق کے نام پر جمہوری تماشا سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت

اتوار 25 اکتوبر2020ء کا دن تھا۔ کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم کے فٹ بال گراؤنڈ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے زیر اہتمام جلسہ عام منعقد تھا۔ گراؤنڈ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جلسے کی صدارت مولانا فضل الرحمان کررہے تھے۔ میاں نوازشریف اور بلاول بھٹو نے ورچوئل خطاب کیا۔ مریم نواز، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک، امیر حیدر خان ہوتی، آفتاب شیرپاؤ اور دوسرے رہنما شریک تھے۔ جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے محسن داوڑ کوئٹہ ائرپورٹ سے پکڑ کر واپس بھیج دیے گئے۔ فضا میں بہت بلندی پر ڈرون کے ذریعے جلسے کی برابر نگرانی کی جارہی تھی۔ تب کی وفاقی اور بلوچستان حکومت نے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ کہا کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ ”نیکٹا“ نے تھریٹ الرٹ جاری کیا۔25 اکتوبر 2020ء کو نہ صرف موبائل فون سروس بلکہ شہر کی تاریخ میں پہلی بار لینڈ لائن سروس بھی منقطع کی گئی تھی۔ مقصد نوازشریف کا انٹرنیٹ کے ذریعے ویڈیو خطاب روکنا تھا۔ لیکن روک ٹوک کی تمام کوششوں کے باوجود جلسہ بھرپور رہا۔ جلسے سے خطاب میں نوازشریف اور مریم نواز کا لہجہ بہت تلخ رہا۔ نوازشریف نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا:

”سرکاری اداروں کے افسران اپنے حلف اور آئین سے وفاداری کریں، عوام کا جذبہ دیکھ کر میرا یقین پختہ ہوگیا ہے، اب ووٹ کی عزت کوئی پامال نہیں کرسکے گا۔ نوازشریف ان لوگوں کو اچھا نہیں لگتا کیونکہ وہ آپ کا منتخب نمائندہ ہے اور آپ کے ووٹ پر کسی اور کا اختیار تسلیم نہیں کرتا، وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا، وہ آئین شکنی برداشت نہیں کرتا، اس لیے فیصلہ ہوا کہ نوازشریف کو نشانِ عبرت بنادو، لیکن نوازشریف کو نشانِ عبرت بناتے بناتے انہوں نے پاکستان اور آپ سب کو نشانِ عبرت بنادیا۔ پی ڈی ایم اسی غیر آئینی حکمرانی کے خلاف اٹھی ہے، ریاست کے اوپر ریاست کی اس بیماری کے خلاف اٹھی ہے جس نے پاکستان کو اندر اور باہر سے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ تحریک کسی ادارے کے خلاف نہیں بلکہ اداروں کی طاقت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والے کرداروں کے خلاف ہے“۔

فوج پر تنقید کی تو ٹیلی ویژن چینلز پر نوازشریف کی خبروں حتیٰ کہ ٹکرز تک پر پابندی عائد کردی گئی۔ سردار اختر مینگل نے اُن خواتین اور بچوں کو اسٹیج پر لا بٹھایا تھا جن کے گھروں کے افراد لاپتا تھے۔ اس پر مریم نواز نے کہا کہ ”لوگوں کو لاپتا کرنے والے شرم کریں۔ بلوچستان سے لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے، ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ اسٹیج پر ایک بچی ملی جس کے تین بھائیوں کو گھر سے اٹھایا گیا اور ان کا کچھ پتا نہیں۔ والدہ کے انتقال پر میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے مگر اس بچی کو دیکھ کر آنسو آئے“۔ مریم نواز بلوچی لباس پہن کر جلسے میں شریک تھیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بریگیڈیئر خالد فرید کی تخلیق کردہ بلوچستان عوامی پارٹی کو مدنظر رکھ کر کہا ”بلوچستان کے عوام کو اپنے نمائندے چننے کا حق نہیں۔ حکومت، وزیراعلیٰ اور وزراء کا فیصلہ کوئٹہ کے عوام نہیں کوئی اور کرتے ہیں۔ راتوں رات باپ یا ماں کے نام سے پارٹی بنتی ہے اور وہ ایک بچے کو جنم دیتی ہے اور اگلے دن اس بچے کو وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھادیا جاتا ہے۔“

یہ وقت افتاد اور آزمائشوں کا تھا۔ بیانیہ ”ووٹ کو عزت دو“ اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی عدم مداخلت کے مطالبے کا تھا۔ اس جلسے کے کچھ دنوں بعد مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے باضابطہ مسلم لیگ (ن) سے وابستگی ختم کرلی۔ جواز ثناءاللہ زہری کو 25 اکتوبر کو کوئٹہ کے پی ڈی ایم کے جلسے میں مدعو نہ کرنے اور میاں نوازشریف اور مریم نواز کی فوج اور اداروں کے خلاف تقریروں کا پیش کیا۔ باپ پارٹی سمیت حکومتی اتحادیوں نے بھی پی ڈی ایم کے جلسے اور اس میں کی گئی تقریروں پر سخت تنقید کی، نوازشریف اور مریم نواز کے بیانیے کو غداری کہا۔ بلوچستان اسمبلی سے اگلے روز پی ڈی ایم کے جلسے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرائی گئی۔ اور پھر یہ ہوا کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز خود مکافاتِ عمل کا شکار ہوئے۔ میاں شہبازشریف تو تھے ہی زیردست، باپ بیٹی بھی ہیئتِ حاکمہ کی آغوش میں چلے گئے۔ اسی باپ پارٹی کے لوگ جس کی زخم خوردہ نون لیگ تھی، جوق در جوق نون لیگ میں شامل ہوئے۔ یہ میلہ14نومبر2023ء کو کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں سجا تھا۔ اس میلے میں میاں نوازشریف اپنے چھوٹے بھائی شہبازشریف، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر سمیت شریک ہوئے تھے۔ فتح کے شادیانے بجائے گئے کہ بلوچستان میں اگلی حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہوگی۔ خالد مگسی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں باپ پارٹی کا وفد بھی میاں نوازشریف سے ملنے گیا تھا۔ نیشنل پارٹی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں، نواب ایاز جوگیزئی کی قیادت میں پشتون خوا میپ اور جمعیت علماء اسلام کے وفد نے مولوی سرور اور عثمان بادینی کی قیادت میں ملاقات کی۔ نون لیگ کا حصہ بننے والوں میں ایک سابق وزیراعلیٰ، 3 سابق ارکانِ قومی اسمبلی اور 12 سابق ارکانِ بلوچستان اسمبلی شامل ہیں۔ اکثریت بی اے پی سے تعلق رکھنے والوں کی تھی جن میں باپ کے سابق سربراہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال، ان کے داماد نواب زادہ زرین مگسی، نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کے بھائی سابق ایم این اے دوستین ڈومکی، سابق صوبائی وزراء سردار عبدالرحمان کھیتران، محمد خان لہڑی، عبدالغفور لہڑی، سردار مسعود لونی، نور محمد دمڑ، شعیب نوشیروانی، عاصم کرد گیلو، مجیب الرحمان محمد حسنی، سابق ایم پی اے ربابہ بلیدی شامل تھے۔ سابق ایم این اے سردار فتح محمد حسنی، سابق صوبائی وزیر فائق خان جمالی اور بی اے پی کے سابق صوبائی وزیر سلیم کھوسہ چند ماہ قبل پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے لیکن ہوا کا رخ بدلتا دیکھا تو فوراً پیپلز پارٹی کو خیر باد کہا اورنون لیگ کی کشتی میں سوار ہوگئے۔ سلیم کھوسہ نے بہانہ تراشا کہ صوبائی صدر جنگیز جمالی کے رویّے کی وجہ سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ جمالی خاندان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے خان محمد جمالی اور سردار عاطف سنجرانی بھی نون لیگ میں شامل ہوئے۔ سابق سینیٹر سعیدالحسن مندوخیل، نیشنل پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی سابق رکن صوبائی اسمبلی زینت شاہوانی بھی شمولیت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ اشوک کمار کو نیشنل پارٹی نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقع پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے، جبکہ زینت شاہوانی کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ فروخت کرنے کے الزام میں بی این پی نے پارٹی سے نکال دیا تھا۔

سرینا ہوٹل میلہ کے بارے میں موقر انگریزی روزنامہ ڈان نے کارٹون شائع کیا جس میں میاں نوازشریف بھیڑوں کے ریوڑ کے بیچ میں لاٹھی اٹھائے چل رہے ہیں۔ یعنی یہ سارے ڈرامے، تماشے جمہوریت، دستور اور آئینی حق کے نام سے ہورہے ہیں۔ مریم نواز نے یہ تک جواز دیا کہ ”جو حق نون لیگ سے چھینا گیا ہے وہ واپس لے لیا۔“

محمود خان اچکزئی بھی نوازشریف سے مایوس اور نالاں نظر آتے ہیں۔ باپ پارٹی کے لوگوں کی شمولیت پر انہوں نے ٹویٹر پر نوازشریف کو مخاطب کرکے کہا ”یہ وہ پرندے ہیں جو جس آشیانے میں جاتے ہیں اسے تباہ کرکے واپس آتے ہیں“۔ محمود خان اچکزئی نے 2دسمبر2017ء کو اپنے والد عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کے موقع پر کوئٹہ میں ہونے والے جلسے میں برطرف وزیراعظم نوازشریف کو شرکت کی دعوت دی تھی۔ نوازشریف اُس وقت کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے ہمراہ شریک ہوئے۔ یہ شرکت نواب زہری کو مہنگی پڑی، انہیں منصب سے ہٹانے کے منصوبے پر کام شروع ہوا۔ محمود خان اچکزئی نے میاں نوازشریف کی موجودگی میں کہا کہ ”ملک کے سب سے مقبول اور پنجاب کے سب سے ہردلعزیز لیڈر کی حیثیت سے نوازشریف یہ کہتے ہیں کہ میں یہ علَم اٹھاکر آیا ہوں کہ پارلیمان کی بادشاہی، آئین اور قانون کی بالادستی ہوگی، سو جو پشتون اس میدان میں میاں نوازشریف کا ساتھ نہیں دے گا وہ بے غیرت ہے“۔ اس جذباتی جملے کو مختلف سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ چوں کہ تب میاں نوازشریف ووٹ کو عزت دو اور سیاست میں عدم مداخلت کے داعی تھے، پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں کسی نہ کسی طور اسٹیبلشمنٹ سے آزردہ تھیں۔ عمران خان اگرچہ عوام میں معروف و محبوب تھے مگر بدیہی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے مسندِ اقتدار پر بیٹھے تھے۔ چناںچہ اسٹیبلشمنٹ جو معلومات دیتی اسے عمران خان صحیفہ آسمانی سمجھ کر حق گردانتے اور حکومتی مشینری مخالفین کے خلاف استعمال کرنے دیتے۔ ان کی حکومت کا یہ عرصہ کارکردگی کے بجائے انتقامی اقدامات اور حربوں کی نذر ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو صدارتی ریفرنس کے ذریعے ملازمت سے فارغ کیا۔ گویا عمران خان کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ خود زیر عتاب آئے، اور پی ڈی ایم مع پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے بغل گیر ہوئی۔ عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا گیا اور انہیں مقدمات میں الجھا کر زندان میں ڈال دیا گیا۔ 9مئی کے واقعات اُن کے اور تحریک انصاف کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے شکنجے مزید کسے گئے۔ تحریک انصاف کے سیکڑوں کارکن حتیٰ کہ متعدد خواتین جیلوں میں بند کردی گئیں۔ سختیوں اور زیادتیوں کا ناروا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سیاسی جماعت پر قدغن ہے، کوئی بولتا ہے تو اگلے دن سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ صحافی عمران ریاض طویل عرصہ غائب رہے۔ بازیاب ہوئے تو معذور نظر آئے۔ بے بسی ایسی کہ کسی مجاز ادارے نے نہ پوچھا کہ اس بندے کو کس نے اٹھایا، کہاں رکھا تھا؟ نہ میڈیکل رپورٹ طلب کی گئی کہ آخر اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہے؟ نگراں حکومت وہ کررہی ہے جو اس کا کام نہیں، اور پی ڈی ایم نگراں حکومت کے ہر غیر دستوری عمل پر خاموش ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلہ دیا۔ اس کے خلاف نگراں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی نگراں حکومتوں نے بھی اپیل دائر کردی۔ اپیل بلوچستان کے شہداء فورم نے بھی دائر کردی ہے۔ شہداء فورم کی اصل اور حقیقت کیا ہے یہ بلوچستان کے عوام پر اچھی طرح عیاں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایوانِ بالا میں قراردادیں پاس کرائی گئیں۔ سینیٹر رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے سوا باقی تمام سینیٹرز کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ دستور معطل ہے، جمہوریت ایڑیوں کے نیچے دبا رکھی گئی ہے۔ اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ دراصل گھناؤنا کھیل کیا ہے اور ڈوریاں کیسے ہلائی جارہی ہیں۔ پیپلز پارٹی مکافاتِ عمل سے دوچار ہے اور ایک طرف دھکیلی جاچکی ہے۔ نوازشریف اور جمعیت علماء اسلام اقتدار کی ہوس میں اس سیاہ کھیل کا حصہ ہیں۔ اختر مینگل برابر برائیوں میں ساتھ دیتے رہے۔ محمود خان اچکزئی سب تماشے خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اب جاکر وہ اقرارکرچکے ہیں کہ انہوں نے پی ڈی ایم کو کہا تھا کہ عمران کی دشمنی کہیں اور نہ لے جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس گناہِ بے لذت میں شامل نہ تھے، یہ بھی کہا کہ تین سال وزیراعظم اور اگلے سال جیل میں… یہ کہاں کی جمہوریت ہے، یہ کیا مذاق ہے!

بہرحال بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ بلاشبہ اقتدار کے مالک کوئی اور ہیں، جنہوں نے عبدالقدوس بزنجو کو دو بار بلوچستان کا وزیراعلیٰ بناکر اور اب انوارالحق کاکڑ کو ملک کا نگراں وزیراعظم بناکر دراصل سیاسی جماعتوں کو آئینہ دکھایا ہے کہ یہ تمہاری اوقات ہے کہ ہم جس کو جب چاہیں اعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر بٹھا سکتے ہیں۔