پاکستان کی سیاست المیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اگر سیاست اور جمہوریت کا کھیل حقیقی معنوں میں آگے بڑھنے کے بجائے مصنوعی انداز میں یا طاقت کے مراکز کی ذاتی خواہشات اور احساسات کے ساتھ آگے بڑھے گا تو بحران حل نہیں ہوگا بلکہ مزید بگاڑ پیدا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بحرانوں کا مقابلہ مزید بحرانوں سے کرتے ہیں، اور جو حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں وہ ہمارے لیے مزید مشکل پیدا کرتی ہے۔ اِس وقت بھی جب دنیا بہت حد تک تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور دورِ جدید کی بنیاد پر سیاسی و جمہوری نظام کی تشکیل پر زور دیا جارہا ہے ہم بضد ہیں کہ ہمیں دنیا سے سبق سیکھنے کے بجائے ہائبرڈ طرز، یا ریموٹ کنٹرول کی بنیاد پر چلایا جانے والا سیاسی نظام درکار ہے۔ ایسے نظاموں کے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ ان میں طاقت کا اصل مرکز پیچھے بیٹھی ہوئی قوتیں ہوتی ہیں اور عملاً سب کے سامنے مصنوعی چہروں کے ساتھ سیاسی یا جمہوری نظام کی بساط بچھائی جاتی ہے۔
پاکستان کے حالیہ بحران کو دیکھیں تو اس میں بھی کئی نئے سیاسی لطیفے نئے سیاسی رنگ یا نئے سیاسی چہروں کی صورت میں دکھانے کی عملی کوششیں ہورہی ہیں، یا پرانے چہروں کو نئے رنگ کے ساتھ دوبارہ اقتدار کے کھیل میں شریک کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ہمارے بہت سے صحافی، دانش ور، تجزیہ نگار اور سیاسی پنڈت جو عملی طور پر سیاسی بنیادوں پر پسند و ناپسند کی بنیاد پر تقسیم ہیں یا ان کے سیاسی مفادات انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ یہ کردار اختیار کریں… انہوں نے عمران خان کے دور میں جہاں عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا آلۂ کار کہا، ان کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دیا، یا ان کو آمر کے طور پر پیش کیا تھا جبکہ ان کے مقابلے میں وہ نوازشریف یا زرداری خاندان کو نیلسن منڈیلا کے طور پر پیش کررہے تھے، اب چپ کا روزہ رکھ کر بیٹھ گئے ہیں۔ وہ نوازشریف جو اُن کے بقول جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی یا عملاً اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی بنیاد پر جمہوریت کو مضبوط کرنے کی جنگ لڑرہا ہے اُس کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حالیہ ڈیل نے ان کی سیاست کو عملاً ایک بار پھر ننگا کردیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہورہا، نوازشریف چوتھی بار اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس ڈیل میں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ان کے بھائی شہبازشریف کو کامیابی ملتی ہے یہ الگ بات ہے، مگر کہا یہی جارہا ہے کہ اگلے اقتدار کے لیے شریف خاندان پر ’’بڑوں‘‘ کا اتفاق ہوگیا ہے۔ نوازشریف نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ماشااللہ بلوچستان اور ’باپ‘ پارٹی سے کیا ہے۔ یہ ’باپ‘ پارٹی وہی ہے جو ان کی صوبائی حکومت کے خاتمے اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے میں پیش پیش رہی، اور نوازشریف، مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کا ’باپ‘ پارٹی کے خلاف بیانیہ موجود تھا کہ ’باپ‘ اپنے باپ کے حکم پر کام کرتی ہے، اُس سے سیاسی سمجھوتے کو اقتدار کی سیاست کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے! یہ وہی سیاسی ڈھٹائی ہے جو پاکستان کی سیاست میں کئی دہائیوں سے جاری ہے اور سیاست دانوں سمیت سیاسی جماعتوں اور سیاست سے ہی جڑے بڑے ناموں کو اس پر کوئی شرم بھی نہیں۔ یقینی طور پر نوازشریف کا بلوچستان سے انتخابی مہم کا آغاز ظاہر کرتا ہے کہ وہ سیاسی سطح پر کہاں کھڑے ہیں اورکس کے ایجنڈے پر وہ بلوچستان گئے ہیں، یا کس کے کہنے پر بلوچستان سے ’باپ‘ سمیت دیگر خاندانوں کے افراد کو مسلم لیگ (ن) میں شامل کیا گیا ہے۔ پنجاب میں بھی ایسے کئی نام مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا حصہ بنے ہیں یا بننے جارہے ہیں جو کل تک اسی شریف خاندان کے بارے میں سیاسی اور مذہبی فتوے دے کر کہا کرتے تھے کہ ان کی حمایت مذہب دشمنی ہوگی۔ مریم نواز جو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بنانے کی ماہر سمجھی جاتی تھیں وہ بھی اسی روایتی اور اسٹیبلشمنٹ کی سجائی ہوئی سیاست کے سامنے عملی طور پر سجدہ ریز ہوگئی ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ نوازشریف کی سیاسی واپسی کیسے ہوئی ہے اورکن شرائط پر اسے ممکن بنایا گیا ہے۔ ان میں ایک شرط کمزور وزیراعظم کا منصوبہ بھی ہے جس میں وزیراعظم اور اس کی حکومت کے ہاتھ پیر باندھ کر اقتدار میں حصے دار بنایا جائے گا اور ایسا وزیراعظم چاہے کوئی بھی ہو، کچھ نہیں کرسکے گا۔ بڑے بڑے سیاسی برجوں، یا برادری کی سیاست کے سکہ بند کھلاڑیوں کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت یا ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی، پختون خوا ملّی عوامی پارٹی، مسلم لیگ (ق)، استحکام پاکستان پارٹی یا پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی نوازشریف سے محبت بھی ظاہر کرتی ہے کہ ان تمام کو کہا گیا ہے کہ اقتدارکی بندر بانٹ میں انہیں بھی نوازشریف یا شریف خاندان کے ساتھ حصے دار بنایا جائے گا۔
ایک بار پھر نوازشریف کو قومی سیاست میں مسیحا کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، اور اِس بار اُن کا سیاسی چورن معیشت کی بحالی، اور سیاسی دشمنی کے برعکس ایجنڈا ہے۔ لیکن یہ معیشت کیسے بحال اور مضبوط ہوگی اورکیسے سیاسی دشمنی کا کھیل ختم ہوگا اس پر کوئی بات بھی واضح نہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ نیا چورن بھی نئے سیاسی نعروں اور جذباتیت کے ساتھ قومی سیاست پر غالب رہے گا۔کیونکہ نوازشریف کے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کو تو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور ان کی جماعت پر عملی طور پر پابندی ہے۔ وہ کوئی جلسہ، جلوس یا کسی بھی قسم کی کارنر میٹنگ یا پارٹی کی داخلی میٹنگ بھی کرنے کی مجاز نہیں۔ عملاً اس پر انتخابی دروازے بند کردیے گئے ہیں اورکہا جارہا ہے کہ یہ جماعت جب تک عمران خان سے دست برداری کا اعلان نہیں کرتی اسے آزادانہ بنیادوں پر سیاست کرنے اور انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پر نوازشریف کو کوئی رنج نہیں، بلکہ اندرونِ خانہ ان کی جماعت اور وہ بہت خوش ہیں کہ عمران خان کے ہاتھ پیر باندھنے کا جو کام اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے اس سے ان کی جیت یقینی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سارے کھیل کے باوجود عمران خان کی مقبولیت کا بخار ابھی بھی قوم پر چڑھا ہوا ہے۔ اگرچہ مختلف سروے کے نتائج کو محض سوشل میڈیا تک ہی محدود کرکے تجزیہ کیا جارہا ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ انتخابی سیاست میں عمران خان اہم نہیں رہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر انتخابات کرانے سے کیوں گریز کیا جارہا ہے؟ یا ایسا کون سا خوف ہے جو انتخابات میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتا ہے؟ اگر واقعی عمران خان مقبول نہیں اور یہ تمام سروے جعلی ہیں تو بہتر ہوگا کہ منصفانہ اور شفاف سطح کا انتخاب کرواکر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ چھوٹی سیاسی جماعتیں ہوں یا الیکٹ ایبل… یہ ہمارے سیاسی نظام پر پہلے بھی بوجھ تھے، لیکن اب یہ بوجھ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور ان کے چہرے بھی مختلف تضادات کے ساتھ نمایا ں ہوگئے ہیں۔ اس طور طریقے کی سیاست سے جان چھڑائے بغیر ہم کسی بھی صورت میں سیاسی اور جمہوری استحکام کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔ یہ مسئلہ محض نوازشریف تک ہی محدود نہیں بلکہ مجموعی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کا ہے جو اقتدار کی سیاست میں سبھی اصولوں اور نظریات کو پس پشت ڈال کر اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں حصے دار بن گئی ہیں یا اُس کے لیے سہولت کاری کو ہی انہوں نے اپنی سیاسی بقا کا معاملہ سمجھ لیا ہے۔ اگر 2018ء میں سب کچھ عمران خان کی حمایت میں ہورہا تھا تو آج 2023-24ء میں سارا کھیل نوازشریف کے لیے سجایا جارہا ہے ۔ اس لیے جو کھیل 2018ء میں غلط تھا وہ 2023-24ء میںکیسے درست کہا جاسکتا ہے؟ کل نوازشریف کو اعتراض تھا اور آج عمران خان اسی جگہ پر کھڑے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا غم بھی جمہوریت سے زیادہ اس بات پر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں کیوںنظرانداز کیا ہے۔اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں محاذ آرائی یا سخت بیان بازی کا جو کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے وہ بھی مصنوعی ہے او راس کا کسی بھی سطح پر جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل جنگ اقتدار کی ہے اور سبھی اسٹیبلشمنٹ سے امید لگائے بیٹھے ہیں، لیکن زیادہ پُرامید نوازشریف ہی ہیں۔ یہ لطیفہ بھی عام ہوگیا ہے کہ جب نوازشریف کی جماعت سے پوچھا گیا کہ ان کا انتخابی سیاست میں کیا بیانیہ ہوگا تو ان کا مؤقف تھا کہ ’’ساڈی اتے گل ہوگئی ہے‘‘۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے ہماری سیاست برباد ہورہی ہے اور اس سے باہر نکلنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اس لیے انتخابات کا ہونا یا نہ ہونا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ جب پہلے ہی طے کرلیا ہے کہ انتخابات سے پہلے کس کا انتخاب ہوگا اور اسی نکتے کی بنیاد پر انتخابی دربار یا اقتدار کے کھیل کا دربار سجایا جائے گا تو بھاڑ میں ہی ڈالا ہوگا پوری سیاست، جمہوریت اور انتخابات کی سیاست کو۔ کیونکہ جب تک عوامی رائے عامہ یا عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل نہیں ہوتی، انتخابات کا عمل بے سود ہی رہے گا۔
اس لیے بنیادی سوال یہ ہونا چاہیے کہ اپنے سیاسی اور جمہوری نظام کو جو مختلف نوعیت کی یرغمالی کا منظر پیش کررہا ہے، کیسے آزاد کرایا جائے گا؟ کیونکہ اس وقت اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو اس مصنوعی نظام سے جان چھڑانی ہوگی۔ یہ عمل نہ تو ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرسکے گا اورنہ ہی ہماری ریاستی ساکھ کو قائم کرسکے گا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جو کام ہماری سیاسی جماعتوں او ران کی قیاد توں کو کرنا ہے وہ اس کے لیے تیار نہیں۔ہم نے مسائل کا حل شارٹ کٹ میں دیکھ لیا ہے اور ردعمل کی سیاست کو بنیاد بنا کر مسائل حل کرنے کی کوشش تسلسل کے ساتھ ناکامی سے دوچار ہے۔یہ ناکامی کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ریاستی نظام اور اس سے جڑے تمام فریقوں کی ہے ۔ کیونکہ جب تک تمام فریقین اپنی اپنی ذمہ داریاں اپنے اپنے آئینی اور قانونی دائرۂ کار میں رہ کرپوری کرنے کے لیے تیارنہیں ہوں گے، بگاڑ کا موجود رہنا فطری امر ہے ۔ انتخابات 2024ء سے قبل ہی ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بھرپور طریقے سے سیاسی مہم جوئی کا فیصلہ کرلیا ہے اور چاہتے ہیں کہ پرانے کھیل کو مزید شدت کے ساتھ کھیلا جائے۔ اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ انتخابات 2024ء کے بعد کا منظرنامہ بھی قومی سیاست کے لیے ہنگامہ خیز ہوگا۔
کیونکہ جس مصنوعی نظام کا خاکہ تیار کیا گیا ہے یا جو قوم پر مسلط کیا جارہا ہے اس سے ہمارے مسائل حل ہونے والے نہیں۔ انتخابی نتائج جو بھی ہوں یا جس کی بھی حکومت بنائی جائے امکان یہی ہے کہ محاذ آرائی اور ٹکرائو کا کھیل جاری رہے گا۔ اسی طرح اگر انتخابات سے پہلے انتخابات کے بارے میں کچھ بھی طے نہیںہوتا تو انتخابات کے امکانات پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اصل لڑائی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، اور دونوں میں کچھ طے ہوئے بغیر مستقبل کا سیاسی منظرنامہ یا استحکام کی سیاست آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ لیکن کیا یہ دونوں فریق کچھ طے کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اور کیا ان کے سامنے بڑے سیاسی اہداف ہیں؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری قومی سیاست کا کھیل بند گلی میں داخل ہوگیا ہے اور ہم باہر نکلنے کی کوشش تو کررہے ہیں مگر حکمت عملی وہی پرانی ہے۔ اور اس سیاسی چورن کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی خواہش کی اپنی اہمیت ہے، لیکن یہ کھیل ظاہر کرتا ہے کہ ہم کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں، اور یہ مہم جوئی ہمیں مزید پیچھے کی طرف دھکیلنے کا سبب بنے گی۔