فلسطین اور مسلم حکمرانوں کا کردار

مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے غزہ میں اسرائیلی سفاکانہ کارروائیوں کو بچوں کی نسل کشی قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم غزہ کے ان بچوں سے شرمندہ ہیں، پیشہ ورانہ فوج کا مقابلہ فوج سے ہی ہوتا ہے، وہ کبھی نہتے شہریوں، معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ نہیں بناتی۔ غزہ میں معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام اقوام متحدہ کے منشور برائے حقوق اطفال، حقوق نسواں اور انسانی حقوق سمیت تمام حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، یہ قتل عام بند ہونا چاہئے… ان خیالات کا اظہار انہوں نے بچوں کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا… وزیر اعظم کو واقعی شرمندہ ہونا چاہئے کہ وہ دنیا کی واحد مسلمان جوہری طاقت کے سربراہ ہیں اور ہمارے ادارے آئے روز اسلامی مشاہیر کے ناموں سے منسوب نت نئے دور مار میزائلوں کے کامیاب تجربات کی نوید قوم کو بڑے فخر سے سناتے پائے جاتے ہیں، ہم دنیا کی بہترین صلاحیتوں کی حامل پیشہ وارانہ فوج رکھنے کے دعوے دار بھی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہماری یہ تمام صلاحیتیں اگر مظلوم معصوم بچوں کی جانیں بچانے کے کام نہیں آسکتیں تو آخر ان پر اربوں روپے کے اخراجات کا مقصد کیا ہے جب کہ دوسری جانب امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کے سربراہ نہ صرف خود اپنی کابینہ کے ارکان کے ہمراہ اسرائیل کے دورے کر رہے ہیں بلکہ عملاً جدید ترین اسلحہ بھی عین حالت جنگ میں اسرائیل پہنچا رہے ہیں، وہ اقوام متحدہ اور دیگر تمام عالمی اداروں میں خم ٹھونک کر اسرائیل کی سیاسی سفارتی اور مادی امداد بھی کر رہے ہیں حالانکہ ان ممالک کے عوام کھل کر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے اسرائیلی جارحیت کے خلاف کر رہے ہیں، اس کے برعکس پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے عوام تو ڈٹ کر فلسطینی مظلومین کی تائید و حمایت میں آواز بلند کر رہے ہیں مگر ان کے حکمرانوں کا کردار شرمناک ہے، پاکستان کے نگران وزیر اعظم کو اپنے اس عملی کردار پر واقعی شرمندہ ہونا چاہئے مگر یہ شرمندگی محض زبانی نہیں ہونا چاہئے اس کا کوئی عملی مظہر بھی سامنے آنا چاہئے۔ زبانی اظہار شرمندگی سے خفت مٹائی جا سکتی ہے نہ ان کی طرف سے روا رکھی جانے والی نا اہلی کا ازالہ ممکن ہے کہ انہوں نے اب تک زبانی جمع خرچ سے زیادہ معمولی عملی اقدام تک نہیں کیا، بھوک پیاس سے بلکتے، ادویات و خوراک سے محروم نسل کشی سے دو چار فلسطینی بچوں کے لیے امدادی فنڈ تک قائم کرنے کی توفیق انہیں نصیب نہیں ہو سکی… اس کم نصیبی کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے…!

یہ کم نصیبی صرف موجودہ حکمرانوں تک ہی محدود نہیں، سابق حکمرانوں اور مستقبل میں بھی حکمرانی کے خواب دیکھنے والے نام نہاد عوامی نمائندگی کے دعویدار بڑے بڑے سیاست دانوں کا حال بھی ان سے مختلف نہیں… تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے اور اب دو تہائی اکثریت کے ساتھ چوتھی بار وزارت عظمیٰ کے لیے پر تولنے والے میاں نواز شریف اور شہباز شریف اپنے بین الاقوامی شخصیات سے روابط کا فخریہ اظہار کرتے اکثر پائے جاتے ہیں، عملاً بھی اپنے جرائم اور سزائوں کو کالعدم قرار دلوانے کے لیے ان تعلقات کا بھر پور استعمال انہوں نے ہمیشہ کیا ہے مگر مظلوم فلسطینی مسلمان بچوں، عورتوں اور بزرگوں کی جانیں بچانے کے لیے ایک ٹیلی فون تک کرنے کی توفیق ان کے حصے میں نہیں آئی۔ فلسطین کے مسلمانوں کی کٹتی لاشوں اور بہتے لہو کے دوران بھی انہیں اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کی جدوجہد سے فرصت نہیں۔ بڑے میاں صاحب نے اپنے خاندان سمیت کوئٹہ پہنچ کر ’’باپ‘‘ کے تمام رہنمائوں کو نواز لیگ میں شامل کر لیا… کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جو کل تک اپنے ’’باپ‘‘ کی ہدایت پر آپ کے سب سے بڑے سیاسی مخالف کی جھولی میں بیٹھے تھے۔ اسی طرح آئے روز مختلف علاقوں سے ’’الیکٹیبلز‘‘ کی شریف برادران سے ملاقاتوں اور ان کی سیاسی بیعت کی اطلاعات ذرائع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں… اپنے خلاف مقدمات سے ’’باعزت بریت‘‘ کے پروانے بھی ہر روز شریف خاندان کو عطا ہو رہے ہیں… کیا جمہوریت اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعروں کو تقویت بخشنے کا یہی طریقہ ہے ؟ میاں نواز شریف کی لندن سے ’’صحت مند‘‘ ہونے کے بعد واپسی پر استقبالیہ تقریبات پر اربوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے مگر فلسطینی مفلسین کے لیے ایک پیسے کا عطیہ ان کی جانب سے دیا نہیں گیا… حالانکہ چاہتے تو اپنی جیب اور پارٹی کے سرمایا داروں سے اربوں روپے جمع کر لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا مگر وما توفیقی الا با اللہ…!

اقتدار کے کھیل کے دوسرے بڑے کھلاڑی زرداری یا بھٹو خاندان کا حال بھی شریف برادران سے مختلف نہیں، انہیں بھی غزہ میں شہید ہوتے بچوں اور عورتوں سے کہیں زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ مقتدر حلقوں نے شریف خاندان کو اقتدار بخشنے کی بات پکی کیوں کی ہے ہم سے سودے بازی کیوں نہیں کی گئی۔ شریف خاندان تو باری لے چکا اب ہماری باری ہے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ان دونوں خاندانوں کے سربراہان فلسطینیوں اور غزہ کے محصورین کے قاتل امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں سے فخریہ ملاقاتیں کر رہے ہیں مگر مجال ہے غزہ میں بچوں اور عورتوں کی مظلومانہ شہادتوں پر ایک حرف احتجاج بھی ان کی زبان سے نکلا ہو…!

بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ کو بھی ناپسندیدہ سیاسی عناصر کو پسندیدہ بنا کر پریس کانفرنسیں یا ذرائع ابلاغ سے انٹرویو نشر کروانے سے فرصت نہیں کسی کو احساس نہیں کہ وہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں اور اس حوالے سے بھی نہایت اہم اور نازک ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں پورے ملک میں صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے جو اپنے فلسطینی بھائیوں کا درد قوم کے دلوں میں جگانے اور اسے زندہ رکھنے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ شہر، شہر جلسوں، کراچی، اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے سیاسی و سفارتی مراکز میں پے در پے بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے عوام کے جذبات کے اظہار کے علاوہ عطیات جمع کرنے کی منظم اور بھر پور مہم بھی جاری ہے۔ اربوں روپے کا امدادی سامان غزہ کے مظلومین و محصورین کے لیے روانہ کیا جا چکا ہے… اللہ تعالیٰ جماعت کے قائدین اور کارکنان کی ان کاوشوں کو قبول فرمائے… مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف جماعت اسلامی کی ذمہ داری ہے…؟؟؟

(حامد ریاض ڈوگر)