سرزمینِ مقدس سعودی عرب کے ایک عقل مند شہر جدہ میں سید شہاب الدین سرگرداں تھے کہ ’بے وقوف‘ کسے کہتے ہیں؟ اس سعی و سرگردانی میں اُنھوں نے ہر طرف سر مارا، مگر سراسر ناکامی ہوئی۔ بالآخر وہ اپنی تلاش میں کامیاب ہو ہی گئے، یعنی ہم تک پہنچ گئے۔
لکھتے ہیں:’’محترم حاطب صدیقی بھائی! یہ بتائیے کہ یہ جو لفظ ’بے وقوف‘ ہے الفاظ کی ترکیب سے اس کا وہ مفہوم تو نہیں نکلتا جن معنوں میں یہ بولا جاتا ہے۔ ’بے‘ فارسی کا لفظ ہے جو اُردو میں بھی مستعمل ہے اور جس کا مطلب نفی ہے، جیسے بے کار، بے مثال اور بے حد وغیرہ۔ ’وقوف‘ عربی کا لفظ ہے جو ’وقف‘ سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب رُکنا یا ٹھہرنا ہے۔ جیسے ’وقوفِ عرفہ‘ وغیرہ۔ اب ان دونوں الفاظ سے ’بے وقوف‘ کے وہ معنے کہاں سے نکل آئے، جن معنوں میں یہ بولا جاتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ تحقیق کریں کہ اس بے وقوف کی اصلیت کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے؟‘‘
شہاب بھائی! آپ کا تجزیہ پڑھ کر ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے کہ فارسی اور عربی دونوں بوڑھیوں نے مل کر کم سِن اُردو کو ’بے وقوف‘ بنایا ہے۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ ’ وقوف‘ کا مطلب محض کھڑا ہونا، رُکنا اور قیام کرنا نہیں ہے۔ ’وقوف‘ کے معنوں میں شعور، سلیقہ، ادراک، علم، سمجھ، فہم، لیاقت، قابلیت، مہارت، تجربہ، مشق، جاننا، آگہی اورواقفیت بھی شامل ہیں۔ مرزا شوقؔ لکھنوی کی مثنوی’ ’فریبِ عشق‘‘ میں آیا ہے:
نہیں اچھے بُرے کا ان کو وقوف
کالے گورے پہ کچھ نہیں موقوف
اسی طرح جنابِ اخترؔ (غالباً اخترؔ علی گڑھی) نے بھی کسی کا وعظ سن کر تبصرہ فرمایا ہے:
واعظ کو کیا ہے کشف و کرامات کا وقوف
ہے بے وقوف اس کو نہیں بات کا وقوف
ہنر سیکھنا اور کام جاننا اُس کام یا ہنر سے ’وقوف پیدا کرنا‘کہلاتا ہے۔ پس، جس شخص میں ’وقوف‘ نہ ہو، یعنی جو شخص لاعلم، جاہل، احمق، ناسمجھ اور بے شعور ہو اُس کو ’بے وقوف‘ کہا جاتا ہے۔ ’بے‘ یقینا حرفِ نافیہ ہے اور ’بغیر‘ یا ’بدون‘ کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اسی طرح ’نا‘ بھی حرفِ نفی ہے۔ مگر ہم کسی کو ’ناوقوف‘ نہیں کہتے۔ ’نا‘ لگانا بہت ضروری ہو تو’ناواقف‘ کہہ دیتے ہیں۔ بے وقوف نہ کہا، ناواقف کہہ دیا۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم ’بے‘ کی بابت بتاتے ہیں کہ ’’یہ لفظ فارسی ترکیبوں میں عموماً اسمائے غیر صفت وغیر مشتقات یعنے اسمِ مصدر،اسمِ جامد اور نیز ان الفاظ پر جن میں یائے مصدری ہو، لگایا جاتا ہے جیسے بے دانش، بے علم، بے شعور، بے زر، بے روزگار، بے ہنر، بے ادبی‘‘۔
اس تعریف کی روشنی میں ہم یائے مصدری والے الفاظ بے زری، بے روزگاری اور بے ہنری تو بولتے ہیں، مگر نازری، ناروزگاری اور ناہنری نہیں بولتے۔ حرفِ نفی ’نا‘ کے متعلق بھی مولوی صاحب لکھتے ہیں:
’’نا، اکثر مشتقات اور صفات پر آتا ہے یعنے اسمِ فاعل، اسمِ مفعول، صفت مشبہ پر جیسے نابالغ، نامسموع، ناشائستہ، ناپسند‘‘۔
یعنی بے بالغ، بے شائستہ اور بے پسند نہیں بولا جاتا مگر ہر قاعدے کی مستثنیات بھی ہوتی ہیں۔ لہٰذا بے اُمید اور بے امیدی کی جگہ نااُمید اور نااُمیدی استعمال کرنا صحیح سمجھا جاتا ہے۔ اسی زمرے میں ہم جیسے ناچیز، نامراد، ناہنجار اور نااہل بھی شامل کردیے جاتے ہیں۔
بے وقوف تو بے وقوف ہی رہے گا، جب تک اپنے اندر ’وقوف‘ پیدا نہ کرلے۔’واقف‘ عربی میں ’کھڑے ہونے والے‘ کے لیے بولا جاتا ہے، مگراُردو میں یہ لفظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا، ہمیشہ اسمِ صفت کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اُردو میں ’واقف‘کا مطلب جاننے والا، ماہر، آگاہ اور مُطّلع لیا جاتا ہے۔ صورتِ حال اور حال احوال سے باخبر شخص ’واقفِ حال‘ کہلاتا ہے۔ جو شخص اپنے کام سے اچھی طرح آگاہ ہو اور جو شخص ہم سے کسی طرح آگاہ ہوجائے دونوں کو ’واقف کار‘ کہتے ہیں۔ اسی سے اسمِ صفت ’واقف کاری‘ بنا لیا گیا ہے، مطلب جان پہچان اور شناسائی ہے۔ ’واقفیت‘ کا لفظ بھی جان پہچان کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلکہ برصغیر میں سرکاری دفاتر سے اپنا کام نکلوانے کے لیے ’واقفیت‘ لازمی ہے۔ سو، واقفیت نہ ہو تو’واقفیت پیدا‘ کرلی جاتی ہے۔ ’موقِف‘ بھی کھڑے ہونے کی جگہ یا قیام گاہ کو کہتے ہیں۔ مگر اردو میں یہ لفظ ’نقطۂ نظر‘ کے لیے وقف ہے۔ اوپر شوقؔ کے شعر میں لفظ ’موقوف‘ آیا ہے۔ اس کا مطلب بھی روکا ہوا یا ٹھہرایا ہوا ہے۔ تاہم اُردومیں ’موقوف‘ کا استعمال منحصر، برخاست یا ختم کردینے کے معنوں میں ہوتا ہے۔ ’موقوفی‘ برخاستگی یا بندش کو کہتے ہیں۔
شہاب بھائی نے درست کہا کہ ’وقوف‘ کا لفظ ’وقف‘ سے نکلا ہے۔ وقف کے معنی رُکنا، ٹھہرنا اور کھڑے ہوجانا ہے۔ اس سے صیغۂ امر ’قِف‘ہے، یعنی رُک جاؤ یا ٹھہر جاؤ۔ قرآنِ مجید کی آیات کے درمیان میں بعض مقامات پر چھوٹا سا ’قِف‘ لکھا ہوتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہاں رُک جاؤ، ملا کر نہ پڑھو۔ بھید یا اشارے کے لیے عربی لفظ ’رمز‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ رمز کی جمع ’رموز‘ ہے۔ رُکنے یا نہ رُکنے کے لیے جو مختصر اشارے یعنی رموز استعمال کیے جاتے ہیں اُن کو ’رموزِ اوقاف‘ کہا جاتا ہے۔ ’اوقاف‘ وقف کی جمع ہے۔’وقف‘ ہی سے ’وقفہ‘ بنا ہے، جس کا مطلب ہے تھوڑی دیر رُک جانا، فرصت فراہم کرنا، ڈھیل یا مہلت دینا، ملتوی کردینا اور تاخیر کرنا۔ وقفہ دینے ہی کو ’توقف‘ کرنا کہتے ہیں۔ دیکھیے شیخ ابراہیم ذوقؔ، بے چارے، وقفے اور توقف کے مابین کیسے پھڑپھڑا رہے ہیں:
کیا قہر ہے، وقفہ ہے ابھی آنے میں اُس کے
اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا
کوئی مخیر شخص اپنی کسی چیز کی ملکیت سے دست بردار ہوکر اُسے افادۂ عام کے لیے مخصوص کردے تو اس عمل کو ’وقف کرنا‘ کہتے ہیں۔ ایسی جائداد ’وقف‘ کہلاتی ہے۔ ’وقف‘ کا کوئی خاص مالک نہیں ہوتا، ہر شخص اسے استعمال کرسکتا ہے اور ہر شخص اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مسلمان اللہ سے اجر کی خاطر ’وقف للہ ‘ کرتے ہیں۔ کوئی شخص کسی کام میں ایسا مصروف اور منہمک ہوجائے کہ دوسرے کاموں سے اُس کا کوئی واسطہ نہ رہے تب بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنے دن رات یا اپنی زندگی اس کام کے لیے وقف کردی ہے۔ ’وقف‘ میں سپرد کردینے یا سپرد ہوجانے کا تصوربھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلسل ناکامیوں اور مسلسل غم و اندوہ سے گزرنے والا بھی ’وقفِ ناکامی‘ یا ’وقفِ غم‘ ہوجاتا ہے۔ مثلاً آزادؔ اپنے محبوب کو ملتفت کرنے کی ناکام کوششوں سے تنگ آکر کہتے ہیں :
کب تک آخر وقفِ ناکامی رہے
کام آجاؤ کسی ناکام کے
وقف کے واؤ کو شروع سے ہٹاکر آخر میں لگا دیں تو ’قفو‘ بن جاتا ہے اور مطلب اُلٹ جاتا ہے۔ ’قفو‘ کے معنی ہیں پیچھے پیچھے چل پڑنا، اتباع یا پیروی کرنا۔ اسی سے لفظ ’قافیہ‘ بنا ہے۔ قافیہ پیمائی کرنے والوںکا قافیہ اکثر تنگ ہوجاتا ہے۔ رحمٰن کیانی مرحوم نے تو ہم سب کا قافیہ تنگ کردیا تھا۔آج کے مردِ مسلمان کو ’اونچی اونچی چھوڑنے‘ کا مشغلہ چھوڑدینے کا مشورہ دیتے ہوئے کیانی صاحب کہتے ہیں:
لاف و گزاف چھوڑ کہ اے مردِ بے خبر
از قاف تا بہ قاف ترا قافیہ ہے تنگ
دوسرے مصرعے میں پہلے قاف سے مراد قطبِ شمالی ہے اور دوسرے قاف سے مراد قطبِ جنوبی۔