ارضِ فلسطین کے مظلوم مسلمان گزشتہ ایک صدی سے جبر و تسلط کی چکیوں میں پس رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے نہایت چالاکی اور سفاکی سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کا بندوبست کرکے ارضِ مقدس کے باسیوں سے ان کی اپنی ہی زمین چھین لی ہے۔
مسئلہ فلسطین کا واحد حل مسلم دنیا کی قیادت کے پاس ہے جن کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ جب تک مسلم قیادت اپنے دل و جذبات کے ساتھ عملی طور پر فلسطین کی مدد نہیں کرتی، مسئلہ فلسطین کے یقینی حل کی طرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
مصنف نے اپنی اس کتاب میں صہیونیت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ مصنف نے یہ کتاب کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے کچھ ہی عرصے بعد تحریر کی تھی، ان کی اس کتاب میں فلسطین کی بقا مضمر ہے۔ اسرائیل اور امریکہ چاہتے ہیں کہ اس قضیے کو ختم کردیا جائے، اس لیے یہ کتاب مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کے لیے اہم قدم بھی ہے تاکہ اسرائیل کی جارحیت کو بے نقاب کیا جاتا رہے۔
صہیونیت کیا ہے؟ کہاں سے آئی؟ یہودیوں نے اس کے استحکام کے لیے کیا کیا اقدامات کیے؟ مغرب کے زیر اثر قوتوں نے کس طرح اپنے مکرو فریب کا جال بچھایا؟ مصنف نے اپنی اس کتاب میں صہیونیت کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا ہے، اور اس طرح یہ مسئلہ سب پر عیاں ہوجاتا ہے۔ فلسطین اور اس کے مقامی باشندوں کو جس چیز سے واسطہ پڑا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے وجود سے نہایت شدومد کے ساتھ انکار کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک ایسی سرزمین جس پر صہیونیوں کو قبضہ کرنے کی شدید خواہش تھی، وہ مقامی باشندوں کی کثیر تعداد کو قلیل بناکر پیش کرنے لگے کہ یہاں مقامی باشندوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ پالیسی ہے جو انہوں نے فلسطینیوں کے متعلق اختیار کر رکھی تھی۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قابض فوج جس کردار کا مظاہرہ کررہی ہے وہ بھی اسی پالیسی کا جزو ہے۔
یہ کتاب فلسطین کی بقا کے لیے لکھی گئی کتابوں میں سے ایک ہے۔ مصنف نے کتاب میں مزاحمت کو بنیادی عنصر قرار دیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کی افادیت کو برقرار رکھا جاسکے، اور یہ کتاب اس کا عملی مظہر بھی ہے۔
آخر میں ایک لفظی غلطی کی نشاندہی ضروری ہے۔ کتاب میں لفظ صیہون اور صیہونیت لکھا گیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ صہیونی اور صہیونیت لکھنا چاہیے۔ اس کی تصحیح بہت ضروری ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کتاب بہت ہی لائقِ مطالعہ ہے۔ مسئلہ فلسطین کو سمجھنے کے لیے اس سے اچھی کتاب اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ کتاب بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی گئی۔