ما بعد تصور:ازمنہ وسطیٰ میں تصویرکشی اوربت شکنی

نشاۃ ثانیہ کی مصوری میں سب کچھ انسانی نقطہ نظر سے دیکھا جارہا تھا

جیسا کہ شاید کوئی توقع کرے، ’وجود‘ کا عیسائی فہم یا زیادہ بہترطورپرکہا جائے کہ ’وجود‘ کی بابت عیسائی ’تصور‘ کا واقعی کردارسمجھنا ازمنہ وسطیٰ کے مذہبی آرٹ کے رویوں کوسمجھے بغیرممکن نہیں ہوگا۔ ابتدا سے دیکھا جائے، باوجود اس کے کہ اناجیل میں خدا کے جمال کا بیان اوروجود کے خلقی نظام میں متوازیت قائم رہی، کلیسا کے بڑے یہ واضح کرچکے تھے کہ یہ متوازیت مماثلت سے زیادہ کبھی کچھ نہ تھی۔ اُس پرچوتھی لیٹرن کونسل نے یہ وضاحتی فرمان بھی جاری کیا کہ یہاں مماثلتوں کی نسبت اختلافات زیادہ ہیں۔ خدا کی حمد میں ساری ترجمان صورتیں بے سمت باور کی گئیں۔ اناجیل کی جانب سے خدا کی صورتیں بنانا منع تھا۔ یقیناً یہ ابتدا اور ازمنہ وسطیٰ کی عیسائیت میں بنیادی عقیدے کے طورپرواضح تھا۔ 730ء میں ’تصویرکشی‘ کے بارے میں پوپ لیوسوم کے فتوے میں اس کا اثرنمایاں تھا، بازنطینی چرچ میں اس پرطویل تنازعات رہے تھے؛ فیلوزینس کی منفی الٰہیات اُس پرمستزاد تھیں۔ معاملے کی تہہ میں ایک بنیادی ابہام تھا۔ ایک جانب یہ نظریہ تھا کہ خدا یسوع مسیح کے روپ میں ظاہرہوتا ہے، دوسری جانب شبیہوں کے گمراہ کن ہونے کا خدشہ تھا۔ یسوع مسیح کوخدائی کا واحد سچا پرتوباور کیا گیا۔ مختصریہ کہ عیسائیت میں خدا کی شبیہ بنانا منع ہے، اور ’’مظہرِ خدا‘‘ کے عنوان سے یہ رائج بھی ہے۔

اس مخمصہ کوذہن میں رکھتے ہوئے آرتھوڈکس چرچ نے’’مظہرِ خدا‘‘ کے اس اسرارکا ’تصویری‘ جواز یہ فراہم کیا کہ یہ اناجیل کے مقدس لفظوں کی مانند ہے۔ اس طرح گیارہویں صدی کے بعد یونان اور روس میں مجسمہ سازی اورتصویرکشی کوفروغ ملا، یہ روم اور قسطنطنیہ کے درمیان ’الٰہیاتی خلیج‘ کا فیصلہ کن مرحلہ ثابت ہوا۔ یہ خلیج صدیوں سے بڑھ رہی تھی۔ اس کا بہت بڑا سبب تثلیث کے بارے میں ’الٰہیات کی تشریحات‘ کا تفاوت تھا۔ روم کا سارا زور’باپ‘ اور ’بیٹے‘ کی نسبت پرتھا، وہ ’روحِ مقدس‘ کوروحانی اتصال کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتا تھا۔

یہاں سے قسطنطنیہ کے متنازع عقیدے Nicene Creed کی تشکیلFilioqueکی اصطلاح میں سامنے آئی: یہ یقین کہ روح مقدس ’باپ‘ اور’بیٹے‘ سے صادر ہوئی۔ روم نے یہ عقیدہ مسترد کردیا، اورروحِ مقدس کوباپ اور بیٹے کے برابرعلیحدہ وجود قراردیا، تثلیث میں مرکزی اوریکساں مقام دیا۔ یہ نظریہperichoresisکی اصطلاح میںواضح کیا گیا ہے، ایک ’رقصاں دائرہ‘ کہ جس میں تینوں خدا بیٹے اورروح مقدس سے ’گردشِ دوراں‘ کا تسلسل قائم ہے۔ مشرقی چرچ نے ’روحِ مقدس‘ کی کرشماتی قوت کا اظہار’مصوری‘ اور’مجسمہ سازی‘(iconography) میں بطورمقدس فن پیش کیا۔

اس کا ایک جواز یہ بھی پیش کیا گیا کہ ’الوہی مظاہر‘ مقدس کتابوں اور متن تک محدود نہیں، بلکہ تاریخ کے کسی بھی مرحلے پرمقدس علامتوں (تصویروں، مجسموں، فن پاروں وغیرہ) کی صورت نمائندہ شناخت بن سکتے ہیں۔ چرچ فادر، یوحنا الدمشقی نے یہ اعلان کیا کہ شاید ایک کامل بشپ بننے کے لیے ایک ہاتھ میں انجیلِ مقدس اوردوسرے ہاتھ میں اُس (کتابِ مقدس) کا منقش ورنگین اظہارہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں یکساں محترم ہیں، دونوں کویکساں تقدس ملنا چاہیے۔ (Epistles,II,171) اس طرح مقدس شبیہ منقش کرنا مشرقی عیسائیت میں عام ہوا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مغرب میں عیسائی متکلمین کی ’الٰہیات‘ نے فروغ پایا۔ یہ کلیسائی انحراف واضح حقیقت کے طورپر دیکھا گیا ہے۔ ازمنہ وسطیٰ نظامِ علم الکلام کا یہ دعویٰ تھا کہ تھامس اکوئینس کی Summa Theologiaeرومن چرچ کی مستند دستاویزہے۔ سولہویں صدی میں چرچ کونسل ہنڈرڈ چیپٹرزنے آندرے رُب لوکوتثلیث کی ایک علامت باورکیا، اسے آرتھوڈکس چرچ کے تمثیلی اظہارکےطورپرمنقش کیا گیا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ بازنطینی چرچ نے کھلی چھوٹ دے دی تھی کہ ’مظہر ِخدا‘ کے نام پرجو،جوچاہے کرے اورپیش کردے۔ ایسے خدائی مظہرکے جواز پرطویل اورتلخ بحثیں اورمکالمے ہوئے۔ ان مباحث کے بعد کئی سخت قوانین وضع کیے گئے جن میں مقدس علامتوں کی مصوری، مجسمہ سازی اورنقش نگاری کی حدود قیود نمایاں کی گئیں۔ سب سے پہلے یہ واضح کیا گیا کہ مقدسات کی مصوری یا مجسمہ سازی صرف خدا کی تعریف وتوصیف میں کی جائے گی۔ اسے سیکولرآرٹ سے گڈ مڈ نہیں کیا جاسکتا، کہ جوآدمی کی شخصیت کا اظہار کرتا ہے یا مصور کی خلاّقیت نمایاں کرتا ہے۔ کئی صدیوں تک فن پاروں پربنانے والوں کے نام نظر نہ آئے۔ ان فنی شاہکاروں کو کسی فن کار کے بجائے روحِ مقدس سے ہی منسوب کیا گیا۔ مصوری ایک غیر ذاتی فن تھاکہ جس میں کلاسیکی فن یا یونانی رومی تہذیب سا کچھ بھی نہیں تھا کہ جوماضیِ قریب ہی کی تاریخ تھی، یا نشاۃ ثانیہ کا انسان پرست آرٹ، کہ جس کے آثارنظر آنے لگے تھے۔ ان مذہبی علامتوں کے مواد کی باقاعدہ حد بندی کی گئی تھی۔ عیسائیت کے اسرارکے براہِ راست اظہارکی اجازت نہیں تھی۔ اسے اکثریسوع مسیح کی شبیہ میں پیش کیا جاتا تھا۔ اوراس طرح ’باپ‘ پردہ اخفا میں رہ سکتا تھا جیسا کہ اناجیلی حکام چاہتے تھے۔ اگرعیسائی تثلیث کو کہیں سامنے لانا بھی مقصود ہو توعلامت کے طورپرہی ایسا کیا جاسکتا تھا، جیسا کہ رُب لیو کے فن پارے میں نمایاں ہے، جس میں تینوں مقدسات کوتین فرشتوں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس بات کویقینی بنایا جاتا تھا کہ علامتی نقل کسی بھی طور’الوہیت کی اصل‘ سے مشابہ نہ ہو۔ خدا کا وجود صرف اشارتاً ہی ظاہر ہو۔ کیونکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں بُت پرستی میں پڑجانے کا خدشہ ہے۔ ایسے خطرے سے بچنے کے لیے مندجہ ذیل شرائط پر عمل لازمی قراردیا گیا: فن کار کے لیے عیسائی اور عبادت گزارہونا لازمی ہے، روزے دار ہونا اوراس مخصوص فن کے قواعد سے پوری طرح آگاہ ہونا ضروری ہے، اور کسی بھی فن پارے کی تیاری کے لیے پیشگی احتیاط کی پابندی لازم ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ تصویر ذاتی پہچان سے عاری ہو اور صرف الوہیت کی جانب ہی اشارہ کرتی ہو۔

آرتھوڈکس چرچ نے مجسمہ سازی پر پابندی لگادی تھی کہ مبادا لوگ بت پرستی شروع کردیں۔ یہ تصویری علامتیں موضوعیت سے خالی تھیں کہ کہیں دیکھنے والے کے ذہن میں کسی ’ذاتی کشش‘ کا باعث نہ بنیں۔ یہ صرف وہ کھڑکیاں تھیں کہ جن سے عالمِ غیب تک بالواسطہ رسائی مل سکے۔ یہ خود منظرنہ تھیں بلکہ منظرتک رسائی دینے والی تھیں۔ یہ آرٹ قطعی طورپربعد کے نشاۃ ثانیہ آرٹ سے مختلف تھا۔ عظیم انسان پرست فنکار البرتی، لیونارڈو، برونے لیشی، ویروشیو، اوردوناتیلو نے نئی سائنسز میں انقلابی پیش رفت کی، اور آرٹ کو خوبی سے پیش کیا۔ اسے ریاضیاتی شاہکاربنادیا، علم تشریح الابدان کی حقیقت میں ڈھال دیا، رنگ اور روشنی کا اظہار گہرائی میں جاکر کیا۔ یہ طبعی اور نفسیاتی دونوں نوعیتوں کا کام تھا۔

نشاۃ ثانیہ کی مصوری میں سب کچھ انسانی نقطہ نظر سے دیکھا جارہا تھا، محسوس کیا جارہا تھا، سمجھا جارہا تھا۔ ایسی ہر کوشش کینوس پر انسانی تاثرمرتسم کررہی تھی۔ کواٹراشینٹو کی پینٹنگ، لیونارڈو ڈا ونچی کے لفظوں میں، ’’ایک ایسا فن پارہ جوفطرت کی کامل نقل نگاہوں کے سامنے پیش کررہا تھا‘‘۔ آخری تجزیہ میں، یہ بات زیادہ اہم نہیں کہ ایسا آرٹ مذہبی ہے یا سیکولریا بہ یک وقت دونوں نوعیتوں کا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ فنکار کے ذاتی رنگ کی کی چھاپ اور پہچان فن پارے میں سند کے طورپر سامنے آتی ہے یا نہیں؛ اوریہ کہ اس فن کی جمالیات کا ناظرپراثر کیسا ہے۔ نشاۃ ثانیہ کی انسان پرستی خود کوازمنہ وسطیٰ کی مصوری ومجسمہ سازی سے ممیز کرتی ہے، اور یہ یقینی بناتی ہے کہ فن کا پہلا مقصد یہ ہو کہ آدمی کا آرٹ آدمی سے ہم کلام ہو۔ نشاۃ ثانیہ کے آرٹ کی اس میراث کا پہلا کام وہم کو حقیقت میں ڈھالنا تھا۔ مثال کے طورپر، Caravaggio نے سینٹ جوزف کے لیے فنی نمونہ کا انتخاب قصبہ کے بھکاریوں میں تلاش کیا۔ بالکل اسی طرح، اُس نے سینٹ میتھیوکی تصویربناتے ہوئے گنجے سر کی شکنیں اورگندے ننگے پاؤں تک بلا جھجک دکھائے، کہ جس پراُس وقت بڑا شور ہوا۔ نشاۃ ثانیہ کے آخری دور تک، آرٹ ماورا مثالیوں سے کسی قدر انسانی حقیقت پسندی میں منتقل ہوچکا تھا۔ یہی اس دور کی ’’انسان پرستی‘‘ کی بنیادی قدرکا ثبوت تھا۔ راجرہنکس نے کہا ’’ Caravaggio کی تصویروں میں اب کوئی بھی آسمان کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ سب ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے، تصویر سے باہر دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ Caravaggio کی دنیا میں کوئی آسمان نہ تھا‘‘۔ یہ انسان کی مشقتیں تھیں جسے اُس نے موضوع بنایا۔

پندرہویں اورسترہویں صدی کے درمیان انسان پرست تناظرکا آرٹ مغرب پرغالب آچکا تھا۔ لاطینی زبان کی جگہ مقامی زبانوں نے لے لی تھی، مقدس وژن سیکولرنقطہ نظر میں ڈھل چکا تھا، سائنس نے الٰہیات کی جگہ سنبھال لی تھی۔ تاہم رومن چرچ نے نشاۃ ثانیہ کے مذہبی آرٹ پرسایہ عاطفت قائم رکھا۔ پوپ جولیس دوم نے نمایاں طور پر Raphaelesqueفارمولا اپنا لیا تھا، کہ جو ’احکام‘ اور ’سائنس‘ کا ایک مناسب مرکب مقالہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم رومن چرچ کی ’سرکاری جمالیات‘ کی تشکیل میں اس فارمولے کا اثراب نمائشی وآرائشی آرٹ بن چکا تھا، یہ اب ازمنہ وسطیٰ کا پراسرار مقدس آرٹ نہیں رہا تھا کہ جوخدا کے خیال سے معمور تھا۔ مذہبی آرٹ کی اس جمالیاتی تبدیلی کا حتمی نتیجہ تقدیس میں کمی بلکہ اس کی تباہی کی صورت میں نکلا۔ یہ دو طریق پر ہوا: ایک جانب اس کا مطلب یہ تھا کہ تخلیقاتی کاوشیں اب کسی کلیسائی اتھارٹی کی پابند نہ رہی تھیں اور اس طرح اُن کی توانائیاں آزاد رو ہوچکی تھیں۔ اس کی کئی مثالیں خود عیسائیت میں سے سامنے آئیں۔ دوسری جانب مذہبی آرٹ چرچ کے لیے محض نقل کا ایک نمونہ بن کررہ گیا تھا، کہ جو وقت کے ساتھ کمزور اور غیر معیاری ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ چھپائی کی نذرہوگیا۔ ’مقدس تصویریں‘ بڑی تعداد میں چھاپی گئیں، کہ جسے ٹیکنالوجی کی ترقی نے ممکن بنادیا تھا۔ ایسی کثرت اور عمومیت نے انہیں بے وقعت بنادیا تھا۔