بلوچستان:بے وقعت ہوتی سیاسی جماعتیں؟

بلوچستان اگر وفاق کی بالادستی اور زیادتی کا شکار رہا ہے، تو اب سیکورٹی کے نام پر زیرتسلط بن چکا ہے۔ اس غرض کے لیے سیاسی میدان میں لوگ تخلیق کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ ان کی حاکمیت کے لیے کام کرتے ہیں، زمین ہموار کرتے ہیں۔ حقیقی سیاسی جماعتیں ایک طرح سے دیوار سے لگائی جاچکی ہیں یا لگائی جارہی ہیں۔ سرکاری جماعتیں عوام پر مسلط کی گئی ہیں۔ ایک مخصوص طبقے کو کبھی نواز لیگ تو کبھی بلوچستان عوامی پارٹی میں اکٹھا کرلیا جاتا ہے۔ اب کی بار یہ طبقہ غالب تعداد میں پھر سے مسلم لیگ نواز میں جمع ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ نواز پر یہ عقدہ واضح ہے مگر اس کے باوجود وہ انہیں جگہ دیتی ہے تو مطلب یہ ہوا کہ نواز لیگ خود گندی سیاست کی راہ چاہتی ہے۔ باپ پارٹی کا وجود بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندر بھی دخول و خروج ہوتا رہا ہے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اب مقتدرہ کو نظام و اقتدار پر غالب و حاکم حقیقت تصور کرچکی ہیں، اس بنا پر ان کا مؤقف نرم ہوچکا ہے۔ کبھی اگر تندی آبھی جاتی ہے تو مقصد سودے بازی کا ہوتا ہے۔

بلوچستان کے اندر اظہارِ رائے پر قدغن ہے۔ اس ضمن میں آئے روز سختیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن سے وابستہ لوگ بتاتے ہیں کہ انہیں طرح طرح کی پابندیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔

دیکھا جائے تو اب نگراں حکومتوں کی تشکیل میں بھی حزبِ اختلاف و اقتدار کو ہدایت دی جاتی ہے۔ موجودہ وفاقی، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتیں اس کی روشن مثالیں ہیں۔ الیکشن کمیشن جیسا اہم ادارہ داخلی طور پر خودمختار نہیں رہا ہے۔ نگراں حکومتیں قطعی غیر جانب دار نہیں ہیں۔ یہ آئین کے نام پر عوام پر مسلط حکومتیں ہیں۔ جمال رئیسانی کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، اس کے باوجود انہیں نگراں صوبائی وزیر کھیل و ثقافت بنایا گیا۔ نگراں وزیر ہوتے ہوئے وہ کراچی میں بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ کوئی بعید نہیں کہ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی بھی انتخابات ہوتے ہی نوازلیگ کا حصہ بن جائیں۔ یہاں اظہارِ رائے پر قدغن کی بات کی ہے، جس کی حالیہ دنوں چند نئی مثالیں بنی ہیں۔ یعنی جہاں کوئی عوام کے حقوق اور صوبے کے مفاد کی بات کرے اُس کے خلاف طرح طرح کے ہتھکنڈوں کا استعمال شروع ہوجاتا ہے۔

پاک افغان سرحد پر آمد و رفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے خلاف سرحدی شہر چمن میں سرحد کے قریب دھرنا دیا گیا ہے جس میں ہزاروں لوگ شریک ہیں۔ اس احتجاج کو تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ محمود خان اچکزئی، اصغر خان اچکزئی، علی وزیر اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مظاہرین سے خطاب کیا۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر محسن داوڑ بذریعہ جہاز کوئٹہ پہنچے، اُن کا یہاں سے چمن جاکر دھرنے سے خطاب کا ارادہ تھا، لیکن پولیس نے ائرپورٹ پہنچ کر جانے ہی نہیں دیا۔ وہ وہیں سے نجی پرواز کے ذریعے اسلام آباد روانہ کردیے گئے۔ افغان باشندوں کی جبری اور توہین آمیز بے دخلی کے خلاف کوئٹہ اور صوبے کے مختلف شہروں میں احتجاج ہوتے ہیں۔ اس پاداش میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے پر مقدمات قائم کردیے گئے۔ جماعت اسلامی نے اس موضوع پر جمعرات 9نومبر کو کوئٹہ پریس کلب میں کانفرنس منعقد کی۔ لیاقت بلوچ نے کوئٹہ آمد پر افغان باشندوں کو دھکے دے کر نکالنے کی کارروائیوں اور پالیسیوں کی سخت مخالفت کی۔ المیہ یہ ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ان غلط اقدامات اور عوامی استحصال پر مبنی پالیسیوں پر گرفت کے بیانات و تقاریر پر سنسر شپ عائد ہے۔ لیاقت بلوچ نے بجا کہا کہ افغان مہاجرین کے لیے وفاقی حکومت کی پالیسی دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن گئی ہے اور یہ فیصلہ مشکلات پیدا کررہا ہے۔

ادھر ”حق دو گوادر کو“ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے 9نومبر کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس میں سرحدی تجارت پر پابندیاں ختم کرنے اور سرحدی کراسنگ پوائنٹس کھولنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ٹرالر مافیا کو پھر سے بلوچستان کے سمندر میں غیر قانونی شکار کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے لاپتا افراد کے مسئلے پر بھی بات کی۔ وہ چمن دھرنے میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن اسی شام کوئٹہ پولیس جماعت اسلامی کے دفتر الفلاح ہاؤس پہنچ گئی اور مولانا ہدایت الرحمان کو نظربند کردیا۔ اس اقدام کی مخالفت ہوئی تو پولیس اپنے کیے سے مکر گئی۔ عذر یہ دیا کہ پولیس مولانا کی حفاظت کے لیے صوبائی دفتر گئی تھی۔ اس کے بعد مولانا جہاں جاتے پولیس اُن کے پیچھے پیچھے ہوتی، مجبوراً وہ واپس گوادر چلے گئے۔

اسی دھرنے سے جڑے ایک معروف تاجر نصیب اللہ اچکزئی لاپتا ہوگئے۔ پہلے نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا ہے، پھر بعد میں اپنی اس بات سے پیچھے ہٹ گئے۔ اگلے روز خبر دی گئی کہ تاجر کو پولیس نے بازیاب کرالیا۔ کہاں سے اور کس طرح بازیاب کرایا گیا اس کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئیں۔ اصل قصہ وہی بتا سکتے ہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا۔

دراصل پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو احکامات کہیں اور سے مل رہے ہیں۔ یعنی سول ادارے اور محکمے پابند ہوکر رہ گئے ہیں۔ سول سرونٹس پر پوری طرح گرفت ہے۔ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر اور کوئٹہ ڈویژن کے کمشنر تو کسی لحاظ سے خود کو سول سروس کے ملازم ہی نہیں سمجھتے۔ فوج سے کوٹہ سسٹم کے تحت سول سروس میں آنے والے تو جیسے حکومت اور چیف سیکرٹری کے احکامات کے پابند ہی نہیں۔ کوٹہ سسٹم ختم ہونا چاہیے کیوں کہ یہ مقابلے کا امتحان دینے والے نوجوانوں کی صریح حق تلفی ہے۔

غرض ان جملہ خرابیوں اور غیر آئینی بالادستیوں کے خلاف سیاسی جماعتیں اپنی اغراض کو پسِ پشت رکھ کر میدان میں نہیں آتیں تو آئندہ وقتوں میں مزید بے وقعت ہوکر رہ جائیں گی۔ افغانوں کے پاکستان سے انخلاء میں انسانی حقوق کی بری طرح پامالی ہورہی ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی سردار اختر مینگل کی جماعت کے منشور کا حصہ ہے، مگر اس جماعت نے نگرانوں کے ذریعے جبری اور ظالمانہ بے دخلی کے طریق کار کی حمایت نہیں کی ہے