مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام کے اعصاب توڑنے کا عمل پوری قوت سے جاری ہے۔ بھارتی منصوبہ ساز اس راہ میں ہر وہ انداز اپنا رہے ہیں جس سے کشمیری سماج اور بالخصوص نوجوانوں کا مقصد ان کی نظروں سے اوجھل یا کم از کم دھندلا جائے۔ چار عشروں کی سر توڑ کوشش کے باوجود بھارت کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں سے ان کے خواب نہ چھین سکا۔ کشمیری نوجوانوں کے رول ماڈل بدلنے کے لیے نئے چہرے پورے اہتمام کے ساتھ مارکیٹ میں لائے گئے، مگر وہ کشمیر کے عام نوجوان کو متاثر نہ کرسکے، کیونکہ زمینی حقائق کچھ اور تھے۔
کشمیر کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سیاسی پہلو کو نظرانداز کرکے کشمیر میں بھارت جو قدم اُٹھاتا ہے وہ اپنا اثر قائم نہیں کرسکتا۔ ایک کے بعد دوسری مہم اور ایک کے بعد دوسرا طریقہ.. سب کچھ تاریخی صداقتوں کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔ ان میں دو رول ماڈل بہت اہتمام کے ساتھ میدان میں اُتارے گئے تھے۔ بالخصوص برہان وانی کی بے پناہ عوامی مقبولیت کے بعد کشمیر کے نوجوانوں کے لیے شاہ فیصل کے کردار کو سیاست میں گوندھ کر پیش کرنے کی مہم چلائی گئی۔ شاہ فیصل انڈین سول سروس میں بھارت بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے جوان تھے جنہیں بعد میں ملازمت سے استعفیٰ دلوا کر سیاست میں اُتارا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ کشمیر کے نوجوانوں کے رول ماڈلز کو بدل دیا جائے۔ پانچ اگست 2019ء کے بعد جب حالات کی بساط ہی لپیٹ دی گئی تو شاہ فیصل کی کہانی بھی ادھوری رہ گئی۔ شاہ فیصل اُن درخواست گزاروں کی فہرست میں شامل ہوگئے جو مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی شناخت کو ختم کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے شاہ فیصل نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے مقدمے سے اپنا نام واپس لے لیا اورانہیں ملازمت پر بحال کردیا گیا۔ ان کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کے لیے ایک اور رول ماڈل دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ سیاست سے شہرت حاصل کرنے والی کشمیری لڑکی شہلا رشید بھی اس پارٹی کی جنرل سیکرٹری تھیں۔ شہلا رشید کشمیر کی پہلی طالبہ ہیں جنہیں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں نائب صدر منتخب کیا گیا تھا۔ شہلا رشید ایک شعلہ بیاں مقرر ہیں اور گزشتہ دہائی کے وسط میں جواہر لعل یونیورسٹی کے احتجاج کی قیادت کرتی رہیں۔ یہ وہی تحریک ہے جس میں ایک بھارتی نوجوان کنہیا لال نے بھی خاصی شہرت حاصل کی تھی اور بعد میں بھارتی حکومت نے انہیں گرفتار کیا تھا۔ شاہ فیصل نے پارٹی کے صدر کی حیثیت سے پہلی پریس کانفرنس کی تو شہلا رشید اس پارٹی کی جنرل سیکرٹری کے طور پر اسٹیج پر موجود تھیں۔ اب چند برس تک منظر سے گم رہنے کے بعد شہلا رشید نے بھی مقابلے کا امتحان پاس کرکے اسسٹنٹ پروفیسر سوشیالوجی کی ملازمت حاصل کرلی۔ یوں نوجوانوں کی ایک سیاسی جماعت کے بینر تلے ’’مثبت‘‘ اور قومی دھارے کی سیاست کا چلن عام کرکے نوجوانوں کے رول ماڈل بدلنے کی یہ مہم اپنے انجام کو پہنچی۔
یوں لگتا ہے کہ کشمیر کی زمینی صورتِ حال کے باعث ان دو باصلاحیت نوجوانوں نے سیاست کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا کیونکہ ان کے اوپر نوجوانوں کو قومی دھارے کی سیاست میں لانے کا جس قدر بھاری بھرکم بوجھ ڈالا جارہا تھا کشمیر کی زمینی صورتِ حال میں ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے اسے اُٹھانا ممکن نہیں تھا۔ سو وہ دونوں باری باری ’’ہم بازآئے ایسی محبت سے، تم اُٹھالو پاندان اپنا‘‘ کے انداز میں اس کھیل سے ہی الگ ہوگئے۔
اس دوران کشمیری نوجوانوں کے خواب چھیننے کے لیے کشمیر میں منشیات کی وبا کو سرکاری سطح پر عام کرنے کی ایک مہم زوروں پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں ہر قسم کی نشہ آور اشیا کو بھارتی فوجی ایجنسیوں، حتیٰ کہ بھارت کے سخت گیر عناصر کی نگرانی میں فروغ دیا جارہا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو دنیا کے ہنگاموں سے آزاد کرنے اور حالات سے بیگانہ کرنے کی یہ سوچی سمجھی مہم ہے۔ ان میں شراب، چرس، گانجہ، کوکین، ہیروئن، نشہ آور انجکشن جابجا دستیاب ہیں اور یہ مہم بڑی حدتک کامیاب بھی ہورہی ہے، کیونکہ کشمیر میں برسوں کے حالات کے باعث نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگاری، ڈپریشن اور دوسری نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے اور ان نوجوانوں کو منشیات کی طرف دھکیلنا آسان ہے، یوں کشمیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نشہ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ سری نگر میں ذہنی صحت کے معالج ڈاکٹر یاسر راتھر کے حوالے سے ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ایک دہائی قبل اُن کے پاس منشیات کے دس سے پندرہ کیس روزانہ آتے تھے، اب یہ تعداد ڈیڑھ سو سے دو سو روزانہ تک بڑھ چکی ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔ سری نگر کی ایک عدالت نے بھی ایسے ہی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ کشمیر میں منشیات کی وبا بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ بھارتی ایجنسیاں یہ تاثر دے رہی ہیں کہ اس منشیات کی آمد کا ذریعہ کنٹرول لائن ہے۔ مگر کنٹرول لائن پر لگی باڑ، اور حفاظت اور چوکسی کا ایسا نظام کہ جس میں کوئی پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا منشیات کا داخلہ روکنے میں ناکام کیسے ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کی مزاحمت کو توڑنے اور معاشرے کو افراتفری کا شکار کرنے کے لیے منشیات کے فروغ کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ یہی نہیں جب منشیات عام ہوگی تو اس کے عادی افراد اپنی زمینیں اور جائدادیں بھی اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے فروخت کرنے پر مجبور ہوں گے اور انہیں اس سے غرض نہیں ہوگی کہ ان کی زمینیں خریدنے والا ریاستی باشندہ ہے یا بھارت کا کوئی شہری اور ساہوکار۔ اس صورتِ حال کے خلاف مساجد میں بھی مہمات چل رہی ہیں اور سماج کے کچھ طبقات بھی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر جب اس عمل کو ریاستی سرپرستی حاصل ہو اور اس کے پیچھے گہرے مقاصد ہوں تو پھر سماج اس طوفان کے آگے بند باندھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔