انتخابات کرائے جانے کے اعلان کے باوجود ملک کے سیاسی حلقوں میں اضطراب ختم نہیں ہورہا۔ غیر یقینی اور بیزاری کی سی کیفیت ہے۔ تشویش یہ ہے کہ ملک میں ایسی ایک بھی سیاسی جماعت نہیں جو پورے ملک میں یکساں مقبول ہو۔ یہ ایک کمزور، نحیف اور سمجھوتا کرنے والے سیاسی منظرنامے کی نشانی ہے۔ ملک کے اقتصادی بحران کا حل کسی جماعت کے بھی بس میں نہیں ہے۔ اس وقت سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ ہنرمند اور غیر ہنرمند نوجوان بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ معیشت کی بحالی کا دعویٰ تو بہت ہورہا ہے لیکن عملاً ایک بات بھی ایسی سامنے نہیں آسکی جس سے اندازہ ہوسکے کہ جو کہا جارہا ہے وہ سب کچھ اسی طرح ہوجائے گا۔
ملک میں دوسرا بڑا اور بدترین بحران غربت ہے۔ اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے جانے کی رفتار مسلسل تیز ہورہی ہے۔ اندرونی سلامتی اور خارجہ امور اس سے چھوٹے درجے کے بحران ہیں۔ ہائبرڈ سیاسی ڈھانچے کا تجربہ بھی ناکام ہوچکا ہے لیکن مقتدر قوت ابھی تک سیاست سے لاتعلق نہیں ہوئی، انتخابی عمل میں مداخلت کی ممانعت اور پرہیز سامنے نہیں آیا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوری سیاسی نظام لانے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آئینی حدود میں رہ کر آزادیِ اظہار اور عوام کے حقِ رائے دہی کا احترام یقینی بنانا ہے تو انتخابی عمل کو مشکوک بنانے سے اجتناب برتا جائے۔ سیاست میں رواداری اور معیاری مکالمے کو فروغ دیا جائے، اور منتخب حکومتوں کے خلاف سازش نہ کرنے کا عہد کیا جائے، تب کہیں جاکر جمہوریت پھل دے گی، ورنہ ووٹ کو عزت دینے کے نعرے یونہی دھکے کھاتے رہیں گے۔
ملک میں حکومت کیسے چلے گی اور حکمرانوں کے لیے مہلتِ عمل کس قدر ہوگی اس بارے میں مستقبل کے فیصلہ سازوں نے کیا سوچ رکھا ہے اس سلسلے میں جتنے بھی سوال ہیں کم ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انہیں ایک مخصوص جمہوریت چاہیے یا حقیقی جمہوریت؟ اس ملک میں حقیقی جمہوریت ایک شفاف نظام کے ساتھ ہی آئے گی، لیکن اگر انگلی پکڑ کر وزرائے اعظم لائے جائیں گے تو پھر یہ شفافیت کہاں سے آئے گی! عقلِ سلیم رکھنے والے سیاست دانوں کے لیے اس میں بہت سبق ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ صرف اقتدار کے لیے پراڈکٹ بن جاتے ہیں۔ یہ سیاست دان لڑائی کرتے ہیں اور بعد میں مذاکرات اور پھر معاہدوں کی پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے صلح و صفائی کی طشتری پر بیٹھ کر اقتدار میں آجاتے ہیں، ایسے میں ملک میں جمہوریت اور سیاسی استحکام کیسے آسکتا ہے! جب تک ملک میں حکومتوں کے بنائو بگاڑ کی مہم جاری رہے گی دھماچوکڑی بھی ختم نہیں ہوگی۔ یہ بات جمہوریت کے کلید برداروں کو ضرور سوچنی چاہیے۔
نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد اگرچہ مسلم لیگ(ن) میں نئی جان پڑگئی ہے، مگر 8 فروری کو الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے پنجاب میں سب اچھا نہیں ہے۔ سانپ سیڑھی کا کھیل اسے اقتدار سے کوسوں دور لے جاسکتا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج اچھے امیدواروں کا چنائو ہے۔ اب ان سے کہا جارہا ہے کہ الیکٹ ایبلز سے بات کرکے انہیں پارٹی میں شامل کیا جائے۔ بلوچستان اور اس کے بعد سندھ کے دورے کے بعد نوازشریف کے ہاتھ جو لگے گا اسی کی بنیاد پر مسلم لیگ(ن) کے سیاسی مستقبل سے متعلق تجزیہ ہوسکے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) نے ٹکٹوں کی تقسیم میں کوئی غلطی کی تو اُسے ناقابلِ تلافی سیاسی نقصان ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کے دو پیمانے اور شرائط رکھی ہیں کہ امیدوار قابلِ بھروسہ ہو، اور یہی شرطِ اول ہے، اور دوسری بات یہ کہ پارٹی ٹکٹ سے ہٹ کر بھی امیدوار کا ذاتی ووٹ بینک ہو۔ اس وقت موسمی سیاست دان نوازشریف کے گرد منڈلارہے ہیں، ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو ہر بار نئی سیاسی جماعت کا ٹکٹ لیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دینا مشکل ہوگا، لیکن ان امیدواروں کی سفارشیں بہت تگڑی ہیں۔ نوازشریف کو پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ایک پیمانہ خود مقرر کرنا ہوگا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر نوازشریف کو خود آخری وقت تک پہرا دینا ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئے تو 8فروری کو کامیابی یقینی ہے۔
بلاشبہ ملک میں اس وقت انتخابات کے لیے شطرنج کی بساط بچھائی جا چکی ہے، الیکشن کمیشن بھی جھجکتے ہوئے ہی سہی لیکن اعلان کرچکا ہے، اور اب آٹھ فروری کو پاکستان کے عوام اپنے آنے والے حکمران کا فیصلہ کریں گے۔ آئین تو یہی کہتا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستانی عوام کی اکثریت کو کرنا ہے، لیکن کچھ فیصلے عوام اور سیاسی جماعتوں سے بالا بالا بھی ہوتے رہے ہیں، اسی لیے یہ بات کہی جارہی ہے کہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ نوازشریف کو ہی وزیراعظم بنوایا جائے گا۔
کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ ملک میں انتخابات کی تاریخ پر اتفاقِ رائے کے بعد بھی وطنِ عزیز بدترین سیاسی خلفشار کی گرفت میں ہے؟ ملک میں جاری سیاسی بے چینی ختم کیے بغیر انتخابات کرائے گئے تو نتائج کیا ہوں گے اور اگلی حکومت کیسی ہوگی؟ کس طرح کام کرے گی؟ ان سب سوالوں کے جواب کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔ ملک میں 1950ء کی دہائی کے غیر جمہوری حملوں کے آفٹر شاکس ابھی تک موجود ہیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوئے ہیں، آج بھی پوری قوم ان کی گرفت میں ہے۔ ہر دور میں مفاد پرست سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا نظام ہی رائج رہا، اور یہ سیاسی نظام میں اصلاح کرنے کے بجائے قوم کو ایک نئی خرابی دے کر گیا ہے۔ اب تک کا آخری نظام عمران خان کے سیاسی سکّے کی صورت میں لایا گیا اور جاتے جاتے یہ نظام شہبازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کا نظام دے کر گیا جس میں شہبازشریف کے پاس صرف ہاں میں ہاں ملانے کا اختیار تھا، سیاہ و سفید کا کلی مالک کوئی اور تھا۔ خواجہ آصف کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر عمران خان دھمکی نہ دیتے تو نوازشریف ملک میں عام انتخابات کرانے کا سگنل دے چکے تھے۔ آج کے دور میں بھی اختیارات نگران حکومت کے ہاتھ میں نہیں بلکہ زمینی حقائق جمہوریت کی کوئی خبر نہیں دے رہے ہیں۔ 1950ء کی دہائی کے اثرات پوری طرح موجود ہیں، اُس وقت بھی کچھ سیاست دان کھلونا بنے اور کچھ ایبڈو کی نذر ہوئے او رراندۂ درگاہ بنا دیے گئے۔ جمہوریت کی تضحیک، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور خلفشار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ’’سیاست دان نااہل اور کرپٹ ہیں‘‘ کا نعرہ کسی بھی وقت لگایا جاسکتا ہے۔ سیاست دانوں میں حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اگر بٹ رہے ہیں تو لینے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ جس نظام کی بنیاد2018ء کے انتخابات کے ذریعے رکھی گئی، سیاست میں عدم برداشت اور ہر قیمت پر بدلہ اب قومی سیاسی مزاج کا اوڑھنا بچھونا بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سیاسی افراط و تفریط اور انتشارکے ساتھ ساتھ عدم برداشت اور ایذا رسانی میں ہم ہر حد پار کرچکے ہیں۔ ایک لڑائی تھمتی نہیں کہ ددوسری بھیانک لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے، باہمی بداعتمادی اپنے عروج پر ہے، بات اب ’’مٹی پائو‘‘ سے بہت آگے بڑھ چکی ہے، اسی لیے شاید پیپلز پارٹی کا دعویٰ یہ ہے کہ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے نئے ’لاڈلے‘ ہیں۔ پنجاب اور وفاق میں قائم نگران حکومتیں مسلم لیگ (ن) کی اگلے انتخابات میں جیت کے لیے راہ ہموار کررہی ہیں۔ 8 فروری 2024ء کوہونے والے انتخابات کے بارے میں سیاسی حلقے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف اور اُن کی پارٹی ہی اگلی حکومت بنائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے انتخابات بھی 2018ء کی طرح انجینئرڈ ہوں گے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر تجزیہ یہی ہے کہ اگلی حکومت بھی اگر جوڑ توڑ یا سیاسی انجینئرنگ سے بنائی گئی تو یہ متنازع ہوگی۔ انتخابی نتائج بھی چیلنج ہوسکتے ہیں۔
اس بات کا سب کو ادراک کرنا ہوگا کہ اب ماضی جیسے حالات نہیں رہے، پاکستان میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ رائے دہندگان میں بڑی تعداد میں نوجوان شامل ہوچکے ہیں۔ یہ نوجوان سوشل میڈیل کے رسیا ہیں، اسی کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس سوشل میڈیا کی غیر معمولی طور پر متحرک ٹیم ہے۔ یہ نوجوان اب 2024ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالیں گے۔ ان کی سوچ اور رویہ پرانے ووٹروں سے بہت مختلف ہے۔
ملک میں دوسرا بڑا بدلائو یہ ہے کہ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس کی ذمہ داری یہ نوجوان نسل اُن لوگوں پر ڈال رہی ہے جنہوں نے تجربات کرنا بند نہیں کیے ہیں۔ انہی تجربات اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے قومی معیشت گہرے بھنور میں پھنس گئی ہے اور کھربوں روپے کا گردشی قرضہ چڑھ گیا ہے، جسے اُتارنے کے لیے قومی سطح کی کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی قابلِ عمل حکمتِ عملی نظر نہیں آرہی۔ مہنگائی اور غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی سیاسی بحران سے بڑا جن بن چکی ہے، افراطِ زر کے ساتھ ساتھ مہنگائی عام لوگوں کے لیے ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ہے۔ غیر ملکی قرضے لے کر معیشت کو چلانے کی جو پالیسی برسوں سے جاری ہے اُس نے پاکستان کو ایک خوفناک صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف… یہ جماعتیں تواتر سے یہی بات کررہی ہیں کہ مسلم لیگ(ن) باقاعدہ ڈیل کے تحت اپنے قائد کو واپس لائی ہے اور اسی ڈیل کے تحت نوازشریف کو چوتھی دفعہ وزیراعظم بنوانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور سپورٹ اور حمایت حاصل ہے۔ لیکن اس بار حالات ماضی سے مختلف ہیں، اسٹیبلشمنٹ اس وقت کسی ایک سیاسی جماعت سے ڈیل یا سمجھوتہ کر بھی لے تو اسے اقتدار دلانا مشکل ہے۔ اب 2013ء اور 2018ء نہیں ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مسلم لیگ(ن) واقعی ڈیل کرچکی ہے تو اُس کے لیے چیلنج اتنے زیادہ ہیں کہ صرف مقتدرہ کی مدد کافی نہیں ہوگی۔ اس بار شاید حالات کٹھن اور سخت ہیں، مسلم لیگ(ن) یا جس سیاسی جماعت کو بھی مینڈیٹ ملا اُسے سب سے پہلے آئی ایم ایف معاہدے کی طرف جانا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے بات چیت پھولوں کی سیج نہیں ہے۔