غزہ کا مستقبل؟اورمغرب

قوتِ قاہرہ کے وحشیانہ استعمال اور معصوم فلسطینیوں کی نسل کُشی کے باوجود عسکری محاذ پر ہزیمتوں کے ساتھ عوامی بے چینی سے وزیراعظم نیتن یاہو، المعروف بی بی جھلّائے نظر آرہے ہیں۔

غزہ پر اسرائیلی حملے بلکہ وحشت کے 37 دن مکمل ہوگئے اور CNN کے مطابق اب تک اسرائیلی فوج صرف چند کلومیٹر تک ہی پیش قدمی کرسکی ہے۔ ہم نے سی این این کا حوالہ اس لیے دیا کہ صحافیوں کو غزہ جانے کی اجازت نہیں اور سی این این سمیت چند ہی امریکی ٹیلی ویژن اور خبر رساں ایجنسیوں کو ”میدانِ جنگ“ تک رسائی دی گئی ہے اور وہ بھی اس شان سے کہ ٹینک اور بکتربند گاڑی میں اسرائیلی فوجیوں کے پہلو میں فولادی ٹوپی و صدری (واسکٹ) زیب تن کیے یہ حضرات جنگ کی روداد سناتے ہیں۔ امریکی ٹیلی ویژن ABC کے سینئر صحافی این پینل نے خود کہا کہ اجرا سے پہلے رپورٹ کے مسودے اور بصری تراشے کی اسرائیلی فوج سے توثیق ضروری ہے۔ غزہ میں جو صحافی موجود تھے ان میں سے34اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوگئے۔ باقی اب بھی سرگرم ہیں۔ القدس ٹیلی ویژن کے نمائندے نے بتایا کہ حماس کے ایک کمانڈر نے ہنستے ہوئے ہم سے کہا کہ ”جو چاہے لکھو، سنائو اور دکھائو، ہاں اسرائیلی بمباری سے بچنا تمہارا اپنا کام ہے۔“ 90 کرورڑ ڈالر فی ہفتہ خرچ اور ہر دس منٹ پر ایک معصوم بچے کا خون بہادینے کے باوجود اسرائیلی فوج اپنے عسکری ہدف سے بہت پیچھے ہے۔ خرچ اور بے گناہ شہریوں کے قتل پر وزیراعظم نیتن یاہو کو کوئی پریشانی نہیں کہ امریکہ بہادر نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں، جبکہ مغربی میڈیا اپنے ناظرین و قارئین کو یہی باور کرا رہا ہے کہ حماس دہشت گرد معصوم شہریوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ یہ بات تسلسل سے کہی جارہی ہے کہ ان دہشت گردوں نے اسپتالوں، مساجد اور اسکولوں میں مورچے لگا رکھے ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں اندھیرے، اور انٹرنیٹ معطل ہوجانے کی بنا پر اسرائیلی دعووں کی تردید ناممکن حد تک مشکل ہوگئی ہے۔

تاہم اسپتالوں کو مورچے، اور اسلحے کے گودام بنانے کی بہت واضح تردید 10 نومبر کی صبح سامنے آئی جب الشفا اسپتال سے ناروے کے مشہور ڈاکٹر میڈس گلبرٹ (Dr Mads Gilbert) نے سیٹلائٹ فون پر امریکہ اور مغربی دنیا کے رہنمائوں سے اُس وقت براہِ راست خطاب کیا جب توپوں کے گولے اسپتال کے دروازے کو نشانہ بنارہے تھے۔ زخمی بچوں کی چیخوں سے قیامت بپا تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جذباتی انداز میں کہا ”صدر بائیڈن، وزیرخارجہ انٹونی بلینکن، یورپی ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور! کیا آپ مجھے سن رہے ہیں؟، کیا آپ کو شفا اسپتال سے یہ چیخیں سنائی دے رہی ہیں؟ کیا آپ کو اسرائیلی فوج کی گولیوں اور گولوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی؟ اسپتال و شفاخانے عبادت گاہوں کی طرح محترم ہیں۔ اسے آپ کب روکیں گے؟ آپ سب اس (جرم) میں شریک ہیں۔“

گولیوں کی تڑتڑاہٹ، بموں کے دھماکوں اور بچوں کی دہشت زدہ چیخ پکار کے ساتھ ڈاکٹر گلبرٹ کی دوٹوک و بے لاگ گفتگو ساری دنیا نے سنی۔ اسرائیلی ترغیب کار اداروں (lobby) سے مرعوب امریکی و یورپی قائدین کے لیے غزہ قتلِ عام کی مذمت تو ممکن نہ تھی لیکن ضمیر کی خلش دور کرنے کے لیے انتہائی محتاط بیانات جاری کردیے گئے۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکراں نے فرمایا ”حقیقت یہ ہے کہ آج عام شہریوں پر بمباری ہورہی ہے۔ بچے، عورتیں اور بوڑھے بمباری میں مارے جارہے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ ہے اور نہ کوئی جواز۔ لہٰذا ہم اسرائیل پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسے روک دے۔“

پانچ ہفتے کی مسلسل بمباری اور 5000 بچوں کے قتل کے بعد امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلینکن بولے ”غزہ کی پٹی میں حماس گروپ کے خلاف اسرائیل کی مسلسل جنگ میں ”بہت سے“ فلسطینی ہلاک اور متاثر ہوئے ہیں“۔ ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔

ہسپانیہ کی وزیر سماجی حقوق محترمہ این بیلارہ(Ione Bellara) کا لہجہ بہت سخت تھا۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ”غزہ میں فلسطینیوں کی منصوبے کے تحت نسل کُشی کی جارہی ہے، اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت لیکن اسرائیلی بمباری پر ”گہری خاموشی“ کو دہرے معیار کے سوا اور کیا کہا جائے؟ ہم دوسرے تنازعات پر انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں اور یہاں لب سلے ہوئے ہیں۔“ ڈاکٹر گلبرٹ کا نام لیے بغیر انھوں نے کہا ”مرنے والے بچوں کی مائیں چیخ رہی ہیں لیکن ہمیں کچھ سنائی نہیں دے رہا، یورپی کمیشن منافقت کا جو مظاہرہ کررہا ہے وہ ناقابلِ قبول ہے۔“ محترمہ بیلارہ کے بیان پر اسرائیلی حکومت کا ردعمل انتہائی شدید تھا۔ ان کی وزارتِ خارجہ نے الزام لگایا کہ کچھ ہسپانوی حکام حماس سے ملے ہوئے ہوئے ہیں، اس قسم کی باتوں سے ہسپانیہ میں مقیم یہودیوں کی سلامتی متاثر ہوسکتی ہے، وزیراعظم پیدرو سانچیز کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اسرائیلی ردعمل پر بیلارہ صاحبہ نے کہا کہ نسل کُشی کی مذمت کرنا حماس کی حمایت نہیں۔ یہ ایک جمہوری ذمہ داری ہے۔ جبکہ ظلمِ عظیم پر خاموشی ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ملی بھگت شمار ہوگی۔

اسی کے ساتھ عوامی سطح پر کچھ ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست واشنگٹن کی ٹکوما (Tacoma)بندرگاہ کے سامنے غزہ قتلِ عام کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین نے ”اسرائیل کی مدد بندکرو“، ”اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی نامنظور“ کے نعرے لگاتے ہوئے بندرگاہ کی عسکری گودی کا علامتی گھیرائو کیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کے لیے ٹکوما بندرگاہ استعمال ہوتی ہے۔

گزشتہ جمعہ سان ڈیاگو (San Diego)کیلی فورنیا میں B21بمبار بنانے والے ادارے Northrop Grummanکے صدر دروازے پر خون کے علامتی نشان بناکر اس کے بورڈ پر ”بچوں کا قاتل“ لکھ دیا گیا۔ اسی طرح برطانیہ میں اسلحہ ساز ادارے BAE Systems کے باہر مظاہرین نے دھرنا دیا۔

قوتِ قاہرہ کے وحشیانہ استعمال اور معصوم فلسطینیوں کی نسل کُشی کے باوجود عسکری محاذ پر ہزیمتوں کے ساتھ عوامی بے چینی سے وزیراعظم نیتن یاہو، المعروف بی بی جھلّائے نظر آرہے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ (Ehud Olmert) کا خیال ہے کہ بی بی کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے POLITICOسے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے nervous breakdown کا لفظ استعمال کیا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ بات چیت اور دو ریاستی حل کے بجائے غزہ پر حملہ بی بی کی بدحواسی کا شاخسانہ ہے۔ دوسری طرف یرغمالیوں کے لواحقین کا پیمانہِ صبر لبریز ہورہاہے۔ تل ابیب میں فوجی ہیڈ کوارٹر پر خیمہ زن یہ لوگ اپنے پیاروں کی جلد از جلد واپسی چاہتے ہیں، ہر وقت انھیں یہ دھڑکا بھی لگا ہے کہ فلسطینی شہریوں کی طرح کہیں یرغمالی بھی اسرئیلی بمباری کا نشانہ نہ بن جائیں۔

اخراجات کے ساتھ صحافتی محاذ پر بھی اسرائیل کو کوئی پریشانی نہیں کہ مغرب کا میڈیا ان کا نظریاتی حلیف بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے۔ غزہ سے خبر کی اشاعت مشکل ہے چنانچہ دنیا وہی دیکھ رہی ہے جو بی بی دکھانا چاہتے ہیں، لیکن سخت رضاکارانہ سینسر کے باوجود وقتاً فوقتاً کچھ حساس بصری تراشے ”لیک“ ہوہی جاتے ہیں اور غزہ میں موجود کچھ صحافی اپنے سیٹلائٹ فون سے اسرائیل کے لیے ”ناخوشگوار“ خبریں جاری کردیتے ہیں۔

بدھ 8 نومبر کو اسرائیل کی صحافتی تنظیم Honest Reportersنے ایک رپورٹ شایع کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے انتہائی خفیہ اور اچانک حملے کی تصاویر ذرائع ابلاغ کے امریکی اداروں، ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز، نیویارک ٹائمز اور سی این این نے بھی جاری کیں۔ رپورٹ میں سوال کیا گیا کہ اتنے خفیہ حملے کی، جس سے امریکی سی آئی اے اور موساد بھی بے خبر تھی ان اداروں کو کیسے بھنک مل گئی کہ ان کے رپورٹر وہاں پہنچ گئے؟

”آنیسٹ رپورٹرز“ کا کہنا ہے کہ حماس جنگجوئوں کے ساتھ رپورٹنگ کے لیے حسن اصلیح، یوسف مسعود، علی محمود اور حاتم علی بھی گئے تھے۔ حسن اصلیح نے سی این این اور یوسف مسعود نے نیویارک ٹائمز کو تصاویر فراہم کیں، جبکہ محمد فائق ابومصطفےٰ اور یاسر قودیع کی تصاویر رائٹرز نے شایع کیں۔ آنیسٹ رپورٹر کا کہنا ہے کہ طوفان اقصیٰ کے ساتھ جانے والے یہ کیمرا بردار صحافی نہیں بلکہ دہشت گرد جنگجو تھے۔

رپورٹ کی اشاعت کے دوسرے روز اسرائیلی حکومت نے ابلاغِ عامہ کے ان چاروں اداروں سے وضاحت طلب کرتے ہوئے شک ظاہر کیا کہ انھیں اس حملے کی پیشگی خبر تھی اور اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اسرائیل انھیں اس دہشت گردی کا سہولت کار قرار دینے میں حق بجانب ہوگا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے لیے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کا وحشیانہ قتل عام کی کوریج کے لیے [حملہ آوروں کے ساتھ] شامل ہونے کا رجحان انتہائی سنگین معاملہ ہے جس کی ان اداروں کو وضاحت کرنی ہوگی۔ اپنے ایک ٹویٹ میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ یہ صحافی انسانیت کے خلاف جرائم میں شریک اور اداروں کے یہ اقدامات پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی تھے۔

اسرائیلی قائدِ حزبِ اختلاف یار لیپڈ (Yair Lapid)بھی اس انکشاف پر سخت مشتعل ہیں۔ ٹویٹر پر انھوں نے پیغام نصب کیا کہ ”جیسے بین الاقوامی میڈیا ہم سے جواب طلب کرتا ہے، اسی طرح اب ہم ان سے جواب کا مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ صحافی کون ہیں؟ کیا وہ اس حملے میں ملوث تھے؟ کیا انہیں حملے کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا؟ اور کیا (ان دہشت گردوں کو) آپ برطرف کررہے ہیں؟“

ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس نے کہا کہ ان حملوں کی ہمیں پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ ہمارے نمائندوں کا جائے وقوعہ پر سرعت سے پہنچنا اور خبروں کا بروقت اجرا پیشہ واستعداد کا اظہار ہے۔ نیویارک ٹائمز نے یوسف مسعود کا دفاع کرتے ہوئے اپنے فری لانس فوٹوگرافر کے خلاف الزامات کو ”غلط اور توہین آمیز“ قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دیانت دارانہ رپورٹنگ پر غلط الزام لگاکر بی بی سرکار، اسرائیل اور غزہ میں ہمارے صحافیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ رائٹرز نے بھی اپنے صحافیوں کے حماس سے تعلق اور حملے کی پیشگی معلومات کی سختی سے تردید کی۔ سی این این انتظامیہ نے دبائو میں آکر حملے کی فلم بندی کرنے والے فری لانس فوٹوگرافر کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیے لیکن بہت صراحت سے کہا کہ مذکورہ فوٹو گرافر کے کام کی صحافتی درستی اور دیانت پر شک کرنے کی کوئی وجہ ہمارے سامنے نہیں آئی۔

ان وضاحتوں سے بی بی انتظامیہ مطمئن نظر نہیں آتی۔ حکمراں لیکڈ پارٹی کے سینئر رہنما اور ابلاغ عامہ کے لیے وزیراعظم کے غیر سرکاری مشیر Danny Danon نے ان صحافیوں کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے ٹویٹر پر پیغام داغا ”اسرائیل کی داخلی سلامتی ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 7 اکتوبر کے قتلِ عام کے تمام شرکاء کو ختم کردیں گے۔ حملے کی ریکارڈنگ میں حصہ لینے والے ”صحافیوں“ کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جائے گا۔

حضرت ِاعجاز رحمانی نے کیا خوب فرمایا تھا:

دوستو! میرے ہاتھوں میں ہے آئینہ
سنگ باری کے اسباب معقول ہیں