1947ء برصغیر کی تاریخ میں سب سے تہلکہ خیز اور اہم واقعات سے لبریز نمایاں دور تھا۔ اس ایک دور نے پورے ملک کی تہذیبی اور ثقافتی روایتوں کو ملیامیٹ کردیا۔ اس کے بعد ملک میں پہلے جیسا کچھ نہیں رہا۔ دوستیاں دشمنیوں میں بدل گئیں۔ دیکھنے میں اپنے، ہر لحاظ سے پرائے محسوس ہونے لگے۔ سانسوں میں محبت لیے جینے والوں نے دفعتاً نفرتیں کرنا سیکھ لیں۔ یاد ہیں یہ باتیں آپ کو؟ میں کرشن چندر کے افسانوں کے حوالے نہیں دے رہا، مگر دل کی بستیاں اجاڑنے والا دور آپ کو کیسے یاد ہو گا؟ تب شاید آپ نے جنم نہیں لیا تھا۔ اگر آپ اس قیامت خیز دور میں پیدا ہوچکے تھے، تب بھی آپ بہت چھوٹی سی عمر کے ہوں گے، ہوسکتا ہے آپ نے آگ کے دریا کا ذکر سنا ہو، مگر عمر کے لحاظ سے آپ آگ کے دریا سے گزرے نہیں ہوں گے۔ گردن گھما کر دیکھتا ہوں تو مجھے ہم عمر اور ہم عصر دکھائی نہیں دیتے۔ ہم جا چکے ہیں۔ ہم جا رہے ہیں۔ ایک زندہ تاریخ کے ابواب اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔ اس قدر بھیانک دور تھا وہ کہ ایک جنم میں آسمان کو ٹوٹ کر زمیں پر گرنےکا محشر دیکھنے کے بعد جنم در جنم، کئی جنموں تک آپ قیامتِ صغریٰ کو کبھی نہیں بھولتے۔ میں نہیں جانتا کہ اس ایک جنم سے پہلے ہم کتنی مرتبہ اس دنیا میں آچکے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ اس ایک جنم کے بعد کتنی مرتبہ ہم جنم لیتے رہیں گے اور مرتے رہیں گے۔ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ منطق اور دلیلوں پر پوری نہیں اترتیں۔ میں نے بھی زبانی یہ قصے اور کہانیاں بار بار سنی ہیں۔ سنی ہوئی حکایتیں آج میں آپ کو سنا رہا ہوں۔ ورنہ آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ مر جانے کے کچھ عرصے بعد کوئی شخص زندہ ہوکر لوٹ آیا ہو، اور اُس نے گزرے ہوئے اور آنے والے جنموں کے بارے میں تفصیل سے ہمیں آگاہی دی ہو۔ میں نے سنی سنائی باتیں آپ کو سنا دی ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ سنی سنائی باتوں کا یقین کرلیں یا خارج از امکان کردیں۔ ویسے بھی کروڑوں لوگوں نے سنی سنائی باتیں سنتے اور سناتے ہوئے زندگی گزار دی ہے۔ آپ اگر چاہیں تو بغیر کسی جھجک کے ان کروڑوں لوگوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انیس سو سینتالیس کا سب سے بڑا واقعہ ہندوستان کا بٹوارا تھا۔ اس بات میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے سوائے ایک مبالغے کے۔ انیس سو سینتالیس کا ایک بہت بڑا واقعہ تقسیم ہند تھا۔ مگر تقسیم ہند 1947ء کا سب سے بڑا واقعہ نہیں تھا۔ بڑا واقعہ تھا صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کا ہمیشہ کے لیے کریا کرم ہوجانا۔ محبتوں اور چاہتوں کی تدفین ہوجانا۔ اس کے بعد آج تک ہم نے وہ برصغیر نہیں دیکھا جو برصغیر ہم نے انیس سو سینتالیس سے پہلے دیکھا تھا۔ انیس سو سینتالیس کے بعد برصغیر نے کیا کھویا، کیا پایا، اس کی فہرست کبھی ختم نہ ہونے والی ہے۔ برصغیر نے اپنی شائستگی کھو دی۔ اب برصغیر کے لوگ کرخت لہجے میں بات کرتے ہیں۔ تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ رویوں میں تلخی آگئی ہے۔ دھیمے پن کی جگہ جارحیت نے لے لی ہے۔ اب برصغیر کے پاس کھونے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا ہے۔ انیس سو سینتالیس نے لکھنے والوں کے لیے کہانیوں کے انبار چھوڑے ہیں۔ ہمیشہ کے لیے یاد رہ جانے والی کہانیوں میں ایک کہانی میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اس کہانی کا چشم دید گواہ ہوں۔ ہم سب کہانی کے کردار کو بابا سائیں کے نام سے جانتے تھے، پہچانتے تھے۔ برصغیر کے فوراً بعد وہ منظر عام پر دکھائی دیے۔ وہ اکثر ٹرام میں سفر کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ ٹرام میں سفر کرنے والے ہر شخص سے پوچھتے تھے ’’وہ آئی؟‘‘ ان کا مبہم سوال سن کر لوگ اچنبھے میں پڑ جاتے تھے، ایک دوسرے سے پوچھنے لگتے کہ بابا سائیں کس کے آنے کی بات کررہے ہیں؟ تب ایک روز بابا سائیں نے اونچی آواز میں کہا تھا ’’میں جمہوریت کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ جمہوریت آئی؟‘‘ اس کے بعد بابا سائیں نے اونچی آواز میں پوچھنا شروع کردیا ’’جمہوریت آئی؟‘‘ایک روز اُن کے سر پر زور سے ڈنڈا پڑا۔ بابا سائیں چکرا کر گر پڑے اور غیر طبعی گہری بے ہوشی کے عالم میں چلے گئے۔ بابا سائیں کو ڈنڈا مارنے والے سے کسی نے پوچھا ’’آپ نے بابا سائیں کے سر پر ڈنڈا کیوں مارا؟‘‘
ڈنڈا مارنے والے نے پُرعزم لہجے میں کہا ’’بڈھے کے سر میں جمہوریت کا کیڑا بیٹھ گیا تھا۔ ہم نے ایک ڈنڈے سے بڈھے کے سر میں بیٹھے ہوئے کیڑے کو ختم کردیا ہے۔‘‘ڈنڈا مارنے والے نے اپنا کام دکھا دیا، مگر کوئی نہیں جانتا کہ بابا سائیں کے سر میں بیٹھا ہوا جمہوریت کا کیڑا بابا سائیں کے سر میں بیٹھا ہوا ہے یا کہ ڈنڈا کھانے کے بعد بھاگ نکلا ہے؟ 75 برس سے بے ہوش پڑے ہوئے بابا سائیں کبھی کبھار برسوں بعد آنکھیں کھول کر اطراف میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں اور پوچھتےہیں ’’جمہوریت آئی؟‘‘ کوئی آہستہ سے ان کے کان میں کہتا ہے ’’جمہوریت ابھی نہیں آئی‘‘۔
بابا سائیں، پھر سے کوما میں چلے جاتے ہیں۔
(امر جلیل۔ رونامہ جنگ کراچی،14 نومبر 2023ء)