سازش اورپس پردہ کھیل،انتخابات 2024ہائی جیک کرنے کا منصوبہ

پاکستان کا سیاسی سرکس، یا دائروں کا سیاسی کھیل بدستور جاری ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا، اوریہ غلطیاں آج بھی بڑی ڈھٹائی سے جاری ہیں۔ کیونکہ ہم بنیادی طور پر سیاسی مہم جُو افراد ہیں اور تواتر کے ساتھ سیاسی منظرنامے میں اپنے سیاسی تاش کے پتّے سجاتے رہتے ہیں۔ ہم یہ طے کرچکے ہیں کہ طاقت کا مرکز عوامی رائے یا ووٹ کو بنیاد بناکر نہیں بلکہ اپنی سیاسی طاقت کی بنیاد پر رکھ کر اس کا ریموٹ کنٹرول بھی اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قومی سیاست، جمہوریت، انتخابات، حکومت سازی، آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور، اور غیر جمہوری قوتوں کا کھیل زیادہ بالادست نظر آتا ہے۔ اس وقت بھی بظاہر دیکھیں تو جمہوری عمل ملک میں موجود ہے لیکن یہ کس حد تک جمہوری ہے اس پر کئی طرح کے سوالیہ نشانات موجود ہیں۔ کیونکہ عملاً سیاست، جمہوریت یرغمال ہے اور ہم آج بھی حقیقی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی جھلک دینے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن جمہوری قوتوں کا مقدمہ مضبوط ہونے کے بجائے تسلسل کے ساتھ کمزور ہورہا ہے، یہی وجہ ہے کہ محض سیاست اور جمہوریت ہی کمزور نہیں ہورہی ہیں بلکہ ہمارے دیگر مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔

عمومی طور پر جمہوریت میں انتخابات کی حیثیت ایک کنجی کی مانند ہوتی ہے۔ انتخابات میں عوامی رائے عامہ یا ووٹ کو بنیاد بناکر نئی منتخب حکومتوں کا فیصلہ ہوتا ہے۔ سیاسی اورجمہوری معاشروں میں لوگوں کا جمہوری نظام پر اعتماد ہوتا ہے اور ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنی مرضی اور منشا کے ساتھ حکومت بناسکتے ہیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کرسکتے ہیں جو اُن کی خواہشات کی مکمل عکاسی کرتے ہوں۔ لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں ووٹ کی عزت یا ووٹ کی بنیاد پر سیاسی تبدیلی کا عمل پہلے بھی کمزور تھا اور آج بھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں انتخابات کی تاریخ کسی شاندار ماضی کی عکاسی نہیں کرتی۔ یہاں 1970ء سے 2018ء تک کے انتخابات کی کہانی میں بنیادی نوعیت کا سوال ان کی شفافیت کا ہے۔ انتخابات کا ہونا اوّل شرط، لیکن انتخابات کا منصفانہ اور شفاف ہونا دوسری اہم شرط ہوتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست میں انتخابات کے نام پر سیاسی ڈکیتی کا کھیل پہلے بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ طاقت ور طبقوں کی سیاسی خوشنودی یا سیاسی مفادات کی بنیاد پر اقتدار کے کھیل کا سیاسی دربار سجایا جاتا ہے۔

8فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں بھی پہلے ہی سے کئی طرح کے سنگین نوعیت پر مبنی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وہی پرانی کہانی کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ممکن ہوسکیں گے یا وہی پرانا کھیل نئے سیاسی رنگوں کے ساتھ کھیلا جائے گا؟ اہم بات یہ ہے کہ 8فروری 2024ء کو ہونے والے انتخابات سے پہلے انتخابات کے نتائج کا کھیل منظرعام لایا جارہا ہے۔ لوگوں کو یہی بتایا جارہا ہے کہ انتخابات کے نتائج کا فیصلہ ہوگیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کو اِس بار اقتدار دینے کے کھیل کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر قوم کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے اِس بار اقتدار کے کھیل میں کوئی گنجائش نہیں، اورنہ ہی عمران خان کو ان انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے گی بلکہ اصل مقصد ان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانا ہے۔ جو سازگار حالات اس وقت نوازشریف کو دیے جارہے ہیں اس پر صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ خود پیپلزپارٹی بھی حیران ہے۔ لیکن یہ کوئی نیا کھیل نہیں۔ کئی دہائیوں سے اسی کھیل کی بنیاد پر سیاسی منظرنامہ سجایا جاتا رہا ہے اور آج بھی اسی کھیل کو بنیاد بناکر سیاست کی جارہی ہے۔

عمران خان کو سیاسی منظر سے ہٹانا، انتخابات سے دور رکھنا، ان کی سیاسی نااہلی، انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت نہ دینا، اور اب ان کی پارٹی کے لوگوں پر بڑھتا ہوا دبائو کہ وہ پارٹی چھوڑ کر پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین میں شمولیت کو یقینی بنائیں۔ ابھی تک پی ٹی آئی کو انتخابی مہم سمیت کسی بھی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جارہی، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ بھی پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں اُن کے تمام مقدمات کی اہمیت ختم کردی جاتی ہے۔ ماضی میں کسی جماعت کو اگر دیوار سے لگایا گیا تو وہ غلط تھا اور آج اگر کسی کو دیوار سے لگایا جارہا ہے تو وہ بھی غلط ہے؟ سب سے اہم بات مسلم لیگ (ن) کے سیاسی رویّے کی ہے جو کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی کی سیاست کی آزادی کی حامی نہیں، اور چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے میدان میں اتارے تاکہ ہمیں اس کا سیاسی طور پر انتخابی سیاست میں بڑا فائدہ مل سکے۔ مسلم لیگ(ن) سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان ٹکرائو اس کے حق میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لڑائی میں شدت پیدا کرنا مسلم لیگ(ن) کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے، اور وہ چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کو اس بحران میں مزید دھکیلا جائے۔ اور 9مئی کے واقعات کو پی ٹی آئی کے خلاف ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اس کے سیاسی مفاد میں ہے۔ پیپلزپارٹی کو عملی طور پر ایک بار پھر سندھ تک محدود کردیا گیا ہے، اگرچہ اس نے خود کو سندھ سے باہر نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن شاید طاقت ور طبقہ کچھ اورہی چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کا عمل انتخابات سے پہلے ہی متنازع بنتا جارہا ہے۔ پہلے ہی ہمارے یہاں انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی روایت مضبوط ہے۔ جو بھی جماعت انتخاب ہارتی ہے وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے بجائے دھاندلی کو بنیاد بناکر نیا بحران پیدا کرتی ہے۔ اب بھی یہی نظر آرہا ہے کہ انتخابات2024ء کو بھی کوئی تسلیم نہیں کرے گا اور ملک ایک اور نئے بحران کی جانب بڑھے گا۔ یہ جو اقتدار کی تقسیم کا فارمولا ہم شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر بناتے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کو پیچھے چھوڑ کر اپنا کھیل کھیلتے ہیں اس کے سنگین سیاسی نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

عمومی طور پر ہماری اسٹیبلشمنٹ ہر بحران میں یہی کہتی ہے کہ ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے اور ہم مستقبل میں سیاسی عمل میں کسی بھی سطح پر مداخلت نہیں کریں گے۔ سابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے پوری قوم کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ ہم ماضی میں سیاسی عمل میں مداخلت کرتے رہے ہیں لیکن مارچ 2022ء میں طے کرلیا ہے کہ بطور ادارہ ہم سیاسی عمل سے خود کو علیحدہ رکھیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ سیاسی انجینئرنگ، سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل سمیت سارا پرانا کھیل آج بھی کھیلا جارہا ہے، حالانکہ اِس وقت ہمیں جن داخلی، علاقائی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہمیں کسی نہ کسی شکل میں ایک مضبوط سیاسی نظام کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے۔ کیونکہ جس انداز سے بھارت اور افغانستان کے معاملات ہمارے حق میں نہیں جارہے اور جیسے سیاسی اور معاشی حالات ہیں اس کا تو یہی تقاضا ہے کہ ہر طرح کی سیاسی مہم جوئی سے گریز کیا جائے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم سدھرنے کے لیے تیار نہیں اور وہی پرانا کھیل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اِس وقت اگر ہم کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکلنا ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ سیاسی نظام کی مضبوطی، منصفانہ اور شفاف انتخابات اور آئین و قانون کی بالادستی سمیت معیشت کو بنیاد بناکر عملاً سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ ایک دوسرے کو نیچے گرانے اور سیاسی دشمنی کے کھیل سے اجتناب کریں اور کسی کو اگر کمزور کرنا ہے تو اس کے لیے بھی طاقت کے بجائے سیاسی راستہ ہی اختیار کیا جائے۔ مفاہمت محض سیاسی جماعتوں تک محدود نہ ہو بلکہ اس میں دیگر فریقین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ایک ایسا راستہ اختیار کیا جاسکے جو سب کے مفاد میں ہو۔ عمران خان کا مقابلہ طاقت سے نہیں ہوگا، اس کے لیے بھی سیاسی حکمت عملی درکار ہے۔ اسی طرح عمران خان دشمنی میں اس حد تک آگے نہ جایا جائے کہ پورے انتخابی نظام کی صحت کو ہی خراب کردیا جائے اور اس کے نتیجے میں قومی سطح پر ایک بڑے ردعمل کا سب کو سامنا کرنا پڑے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے طاقت کے مراکز ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں۔ سیاسی قیادتیں جتنے بھی مسائل پیدا کریں اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور ان کو سیاسی عمل کی مدد سے ہی غیر اہم کیا جاسکتا ہے۔ نوازشریف کا سیاست میں دوبارہ آنا اچھی بات ہے اور ان کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ سیاسی طور پر سرگرم ہوں، انتخاب لڑیں اور اگر واقعی لوگ ان کو ووٹ دیتے ہیں تو انہیں اقتدار بھی ملنا چاہیے۔ لیکن اگر نوازشریف کو بھی دوبارہ مصنوعی طور پر سامنے لانا ہے اور ان کی محبت یا عمران خان کی دشمنی میں سب کو پیچھے چھوڑنا ہے تو پھر اس کھیل کے نتیجے میں حالات درست نہیں بلکہ مزید خراب ہوں گے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہمارے طاقت سے جڑے ادارے اور سیاسی فریقین سیاسی دشمنی کے کھیل سے باہر نکلیں اور ایسا کچھ کرنے کی کوشش کریں جو سیاست اور جمہوریت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرسکے۔ یہ مت بھولیں کہ اس وقت عوام میں بہت حد تک ردعمل کا غلبہ ہے اور لوگوں کے سامنے ہمارا مجموعی نظام بری طرح بے نقاب ہوگیا ہے۔ ایسے میں عوام کی سطح پر جو غصہ ہے اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حالات ماضی سے بہت زیادہ مختلف ہیں، ایسے میں روایتی طور طریقوں کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھا جاسکے گا۔ جو لوگ بھی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان ٹکرائو کی حکمت عملی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں انہیں یقینی طور پر وقتی کامیابی مل سکتی ہے لیکن مستقبل کے تناظر میں یہ غیر دانش مندانہ فیصلہ ہوگا جس کے سنگین نتائج کا ہمیں سامنا کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہمیں انتخابات کا کھیل سازشی بنیاد پر سجانا ہے تو ان انتخابات کی ساکھ کیا ہوگی اور کون ان کے نتائج کو تسلیم کرے گا؟ یقیناً ہم عملی طور پر ایک نئے بحران کو جنم دے رہے ہیں اور اس کا ذمہ دار کوئی ایک فریق نہیں بلکہ سبھی ہوں گے، مگر بڑی سطح کی ذمہ داری فیصلہ کن قوتوں پر ہی ہوگی۔ ایک طرف ہم معیشت کو بنیاد بناکر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ سیاسی استحکام ہماری منزل نہیں ہے اور ہم سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے معاشی استحکام قائم کرنا چاہتے ہیں جو پہلے بھی غلط حکمت عملی تھی اور آج بھی غلط ہی ثابت ہوگی۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے سیکھنا چاہیے کہ کیسے وہ اپنے سیاسی اور معاشی استحکام کو مضبوط بناتے ہیں، اور ہر اُس عمل سے گریز کیا جانا چاہیے جو ہمیں خرابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ حق دے دیں کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ہی اپنے ووٹ کا بھی اور انتخاب یا اقتدار کا بھی فیصلہ کرسکیں۔ یہی جمہوریت ہے اور اسی کی بنیاد پر جمہوری عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا جو شفافیت کے خلاف ہو، کسی بھی طور پر ہمارے حق میں نہیں جائے گی۔