عام انتخابات اور کراچی کے بلدیاتی انتخابات

عوام کی رائے پر طاقت اور جبر سے اثر انداز ہونے کی تاریخ

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے لمز یونیورسٹی میں طالب علم کا یہ سوال کہ کیا آئندہ عام انتخابات بھی میئر کراچی کے انتخاب کی طرح ہوں گے؟ دراصل صرف الیکشن کمیشن سے نہیں بلکہ جمہوریت کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں سے بھی ملک کی نئی نسل کا شکوہ ہے۔ ہم اپنی سیاسی تاریخ میں ایسے مناظر پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جب عوام کی رائے پر طاقت کے ذریعے اثرانداز ہونے کی منظم کوشش ہوئی۔ جنوری1977ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قبل از وقت انتخاب کا اعلان کیا تو لاڑکانہ سے اُن کے مقابلے پر جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی اپوزیشن اتحاد کے متفقہ امیدوار تھے، کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا وقت آیا تو عباسی صاحب کو اغوا کرلیا گیا اور بانی پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ جب وزیراعظم بلامقابلہ کامیاب ہوگئے تو چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کیوں پیچھے رہتے؟ وہ بھی الیکشن لڑے بغیر ہی رکن اسمبلی منتخب ہوگئے۔ یوں پولنگ ڈے سے پہلے ہی انتخابی عمل متنازع ہوگیا۔ 7مارچ 1977ء کو عام انتخابات ہوئے تو اپوزیشن نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ملک گیر تحریک کا آغاز ہوا۔ اپوزیشن کی تحریک کے نتیجے میں حالات خراب ہوئے تو وزیراعظم بھٹو نے دوسری غلطی کی اور ملک میں جزوی مارشل لا نافذ کردیا جو 5 جولائی کو مکمل مارشل لا میں تبدیل ہوگیا۔ پیپلزپارٹی نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے ہدف کی تکمیل کے لیے کیا تھا، مگر بدترین انتخابی دھاندلی نے ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی۔

ہمارا خیال تھا کہ سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہوگا، مگر رواں سال 15جنوری کو کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے ثابت کیا کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی پیپلزپارٹی ماضی کی غلطیاں دہرانے پر بضد ہے۔ کراچی میں پچھلی بلدیاتی حکومت کی مدت اگست 2020ء میں ختم ہوئی مگر پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نہ صرف بروقت انتخابات کے لیے تیار نہ تھی بلکہ قانون سازی کے ذریعے بلدیاتی اداروں کے اختیارات مزید کم کردیے ۔ جماعت اسلامی نے جنوری 2022ء میں سندھ اسمبلی کے باہر تقریباً ایک ماہ کا دھرنا دیا اور سندھ حکومت کو مجبور کیا کہ وہ بلدیاتی اداروں سے چھینے گئے اختیار واپس کرے۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے لیے من پسند حلقہ بندیاں کیں مگر بلدیاتی انتخابات کے لیے پھر بھی آمادہ نہ ہوئی، اگرچہ پیپلز پارٹی کی من پسند یونین کمیٹیوں میں ووٹرز کی اوسطاً تعداد 18ہزار اور دیگر علاقوں میں 45ہزار تھی، بعض جگہ تو 3ہزار اور 5ہزار ووٹوں پر بھی یونین کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ مختلف وجوہات کو جواز بناکر انتخابات کم از کم تین بار تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود ملتوی ہوئے، بالآخر 15جنوری کو انتخابات کا فیصلہ ہوا مگر 13 جنوری کو صوبائی وزیر شرجیل میمن نے بیان دیا کہ کراچی، حیدرآباد اور دادو میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوں گے۔ آخری وقت تک ابہام پھیلایا جاتا رہا، مگر جماعت اسلامی نے واضح پیغام دیا کہ التوا کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

15 جنوری کو شام پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہوا تو جماعت اسلامی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آنے لگی، پھر اچانک انتخابی نتائج تاخیر کا شکار ہوگئے، حیران کن بات یہ تھی کہ کراچی میں 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی مکمل نتائج کا اعلان نہ ہوسکا۔ یہ تاخیر الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان تھی۔ جب مکمل نتائج سامنے آئے تو کم ازکم 6 یونین کونسلز ایسی تھیں جہاں سے جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹس پریزائیڈنگ آفیسرز کے دستخطوں کے ساتھ جیت کا رزلٹ لے کر اٹھے تھے مگر حیران کن طور پر ان 6 نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی جیت کا اعلان ہوگیا۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ ری کاونٹنگ کے نام پر جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی مزید 5 یونین کونسلز پر پیپلزپارٹی کو فاتح قرار دے دیا گیا۔ ری کاونٹنگ سے پہلے ووٹوں کے تھیلے پھٹے ہوئے تھے یا بیگز کی سیل ٹوٹی ہوئی تھیں۔ الیکشن کمیشن سندھ کا کردار اس سارے عمل میں سوالیہ نشان رہا۔ جماعت اسلامی نے تمام شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ مرکزی الیکشن کمیشن سے رجوع کیا مگر کوئی ریلیف نہ مل سکا جو بجائے خود ایک حیران کن امر تھا۔ پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی کم از کم8 نشستوں کے ساتھ یہی کیا۔ گویا حلقہ بندیوں میں جو کسر رہ گئی تھی وہ نتائج کی تبدیلی اور بعدازاں ری کاونٹنگ کے نام پر پوری کرلی گئی۔ جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، پی پی پی کے ووٹ جماعت اسلامی کے ووٹوں سے 40 فیصد کم تھے مگر حیران کن بات یہ تھی کہ پہلے حلقہ بندیوں کے ذریعے اور پھر نشستیں چھین کر اپنی یونین کمیٹیوں کی تعداد بڑھالی گئی۔

اگلا مرحلہ 15 جون کو میئر کراچی کے انتخاب کا تھا۔ میئر کراچی کے انتخاب کے لیے تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کیا۔ سٹی کونسل میں جماعت پی ٹی آئی اتحاد کے ووٹوں کی تعداد 192 جب کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جے یوآئی ف کے اتحاد کے ووٹوں کی تعداد 173 تھی۔ یہ بات یقینی تھی کہ جیت جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد کی ہوگی، مگر عین انتخاب کے موقع پر پی ٹی آئی کے 30 کے قریب منتخب ارکان لاپتا ہوگئے۔ میڈیا پر سینئر صحافیوں کے یہ انکشافات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ لاپتا افراد کو پولیس کی اسپیشل سیکورٹی فورس کی نگرانی میں ڈیفنس کے ایک بنگلے میں پر رکھا گیا۔ یہ اقدام جمہوریت پر کھلا ڈاکا تھا مگر افسوس الیکشن کمیشن یہاں بھی اپنی رٹ منوانے میں ناکام رہا۔

قواعد کے مطابق میئر کراچی کے امیدوار کے لیے لازمی تھا کہ وہ سٹی کونسل کا منتخب رکن ہو، مگر یہاں ایک بار پھر غیر جمہوری رویّے کا مظاہرہ کیا گیا اور ایک غیر منتخب شخص یعنی مرتضیٰ وہاب کو فائدہ پہنچانے کے لیے مئی میں خصوصی طور پر قانون سازی کی گئی اور انہیں سٹی کونسل کا رکن نہ ہونے کے باوجود میئر کراچی کا انتخاب لڑنے کا موقع دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ہی شہر میں دیگر جماعتوں کے لیے الگ اور پیپلزپارٹی کے امیدوار کے لیے الگ قانون کی اجازت کون سی جمہوریت دیتی ہے؟ آج بلاول زرداری لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کررہے ہیں مگر میئر کراچی کے انتخاب کے وقت انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ یاد کیوں نہ رہی؟ اور نمبرز پورے نہ ہونے کے باوجود جیالا میئر لانے کے لیے پیپلزپارٹی نے جمہوری قدروں کو کھل کر پامال کیا۔ جماعت اسلامی نے اس خلافِ ضابطہ عمل کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔

میئر شپ پر قبضے کے بعد اگلا مرحلہ مرتضیٰ وہاب کو یونین کونسل کا چیئرمین منتخب کرانا تھا۔ مرتضیٰ وہاب ڈی ایچ اے کے رہائشی ہیں جوکہ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آتا ہے، مگر یونین کونسل کے چیئرمین کا الیکشن لڑانے کے لیے نادرا کی معاونت سے اُن کے لیے نئے پتے کے ساتھ شناختی کارڈ جاری ہوا تاکہ وہ کے ایم سی کی حدود میں آنے والی یونین کونسل سے الیکشن لڑنے کے اہل ہوسکیں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کوئی بھی امیدوار اپنے ٹاون کی حدود کے سوا الیکشن نہیں لڑسکتا، مگر یہاں بھی سہولت کاری کی گئی اور مرتضیٰ وہاب کو تین ٹاونز سے الیکشن لڑنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ماڑی پور سے وہ بعد میں دست بردار ہوگئے، گزری میں الیکشن ہوا، جب کہ ابراہیم حیدری سے ان کی بلامقابلہ جیت کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ ابراہیم حیدری میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور آزاد امیدوار بھی مقابلے پر موجود تھے، مگر وڈیرہ شاہی کے زور پر ان امیدواروں کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کو ڈرایا، دھمکایا اور لاپتا کردیا گیا، یوں زور اور جبر کی بنیاد پر مرتضیٰ وہاب بلا مقابلہ جیت گئے۔ گویا ابراہیم حیدری کی یونین کونسل میں1977ء کے عام انتخابات اور میئر کراچی کے انتخاب کا ری پلے ہوا۔

اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی شہر سے ملنے والے مینڈیٹ اور اس کے نتیجے میں تعمیر و ترقی کے عمل سے دست بردار نہیں ہوئی ہے، میئر کی اہلیت کے قانون کی تبدیلی ہو یا چھ یونین کونسلز کے نتائج بدلنا… ری کاونٹنگ میں گھپلے ہوں یا الیکشن قوانین کو پامال کرکے میئر کا اپنی پوزیشن پر رہتے ہوئے یوسی چیئرمین کا انتخاب لڑنا… ان تمام امور پر احتجاج کے جمہوری حق کے ساتھ عدالت میں یہ معاملات زیر سماعت ہیں، امید ہے عدالت حق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلہ دے گی اور کراچی کے عوام کی حق تلفی نہیں ہوگی۔

میئر کراچی کے انتخاب میں جو کچھ ہوا اس نے پورے ملک کو یہ پیغام دیا کہ کیا عام انتخابات بھی اسی طرح ہوں گے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات کو شفاف بنانے اور شکوک و شبہات کے خاتمے کے لیے درج ذیل اقدامات فوری طور پر کرنا ہوں گے:

1۔ چاروں صوبوں کے گورنرز کو برطرف کرکے نئے گورنرز کا تقرر کیا جائے۔

2۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی نگراں حکومتیں تبدیل کی جائیں۔

3۔ تمام جماعتوں کو الیکشن لڑنے کے لیے یکساں موقع فراہم کیا جائے اور یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ کوئی ایک جماعت لاڈلی ہے۔

4۔ ووٹر لسٹوں میں موجود غلطیوں کا خاتمہ کیا جائے۔

5۔ آر اوز اور ڈی آر اوز عدلیہ سے لیے جائیں اور شیڈول کا فوری اعلان کیا جائے۔

6۔ سپریم کورٹ انتخابی عمل کی نگرانی کا نظام بنائے۔

ایک سوال اہلِ کراچی کی زبانوں پر ضرور رہے گا کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کم گننے اور اس کے نتیجے میں 10قومی اور 17صوبائی اسمبلی کی سیٹوں میں اضافے سے محرومی کا کیا ہوگا؟
(جنگ۔14 نومبر 2023ء)