زندگی عجب ہے۔ اس میں جب کوئی مقام حاصل ہوتا ہے، پسندیدہ مقام، تب بھی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ رہ گیا ہے، یا کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غیر ضروری اور غیر مناسب شے شامل ہوگئی ہے، اس زندگی میں۔ بس ایسی صورت میں انسان بے بس ہوتا ہے۔ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
انسان شادی کرتا ہے۔ شادی کا معنی خوشی ہے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد انسان محسوس کرتا ہے کہ شادی کا عمل فرائض اور ذمہ داریوں کی داستان ہے۔ حقوق کا قصہ ہے۔ صرف خوشی کی بات نہیں، اس میں رنج اور رنجشیں بھی شامل ہیں۔ دو انسان، زوجین، مل کر سفر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے باعثِ مسرت ہونے کے وعدے اور دعوے لے کر ہم سفر بنتے ہیں، اور کچھ ہی عرصے بعد ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ خوش رہنے کا تصور ختم ہوجاتا ہے، صبر کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اولاد ہونے کے بعد انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک خوبصورت رسّی سے جکڑا گیا ہے۔ اس کی آزادی اور آزاد خیالی ختم ہوگئی ہے۔ اس پر عجیب و غریب فرائض عائد ہوگئے ہیں۔ وہ محبت کے نام پر مصیبت میں گرفتار ہوگیا۔ لیکن اب صرف صبر ہے۔ یہی تلقین ہے کہ ہوتے جانے والے واقعات پر افسوس نہ کرو، صبر کرو۔صبر کا مقام اُس وقت آتا ہے، جب انسان کو یہ یقین آجائے کہ اس کی زندگی میں اس کے عمل اور اس کے ارادے کے ساتھ ساتھ کسی اور کا عمل، کسی اور کا ارادہ بھی شامل ہے۔ اپنے حال میں دوسرے کا حال شامل دیکھ کر انسان گھبراتا ہے، اور جب اسے ایک اور حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ اس کے ارادوں اور اس کے عمل میں اس کے خالق و مالک کا امر شامل ہے اور کبھی کبھی یہ امر ایک مشکل مقام سے گزرنے کا امر ہے، تو انسان سوچتا ہے کہ اگر بات اپنی ذات تک ہو تو بدل بھی سکتی ہے، لیکن اگر فیصلے امرِ مطلق کے تابع ہیں، تو ٹل نہیں سکتے۔ یہاں سے انسان اپنی بے بسی کی پہچان شروع کرتا ہے۔ بے بسی کے آغاز سے صبر کا آغاز ہوتا ہے۔
خوشی میں غم کا دخل، صحت میں بیماری کا آجانا، بنے ہوئے پروگرام کا معطل ہونا، کسی اور انسان کے کسی عمل سے ہماری پُرسکون زندگی میں پریشانی کا امکان پیدا ہونا، سب صبر کے مقامات ہیں۔
تکلیف ہمارے اعمال سے آئے یا اس کے حکم سے، مقام صبر ہے۔ کیونکہ تکلیف ایک اذیت ناک کیفیت کا نام ہے۔ تکلیف جسم کی ہو بیماری کی شکل میں، یا روح کی تکلیف احساسِ مصیبت یا احساسِ تنہائی یا احساسِ محرومی کی شکل میں، مقامِ صبر ہے۔ انسان جس حالت سے نکلنا چاہے اور نکل نہ سکے، وہاں صبر کرتا ہے۔ جہاں انسان کا علم ساتھ نہ دے، اس کی عقل ساتھ نہ دے اور اس کا عمل اس کی مدد نہ کرسکے، وہاں مجبوری کا احساس اسے صبر کے دامن کاآسرا تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
صبر کا تصور دراصل صرف مجبوری ہی کا احساس نہیں ہے۔ صبر کے نام کے ساتھ ہی ایک اور ذات کا تصور واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں سب کچھ نہیں کرسکتے۔ ہم اپنی زندگی کے مالک ہو کر بھی مکمل مالک نہیں۔ ہم مختار ہو کر بھی مختار نہیں۔ ہم قدرت رکھنے کے باوجود قادر نہیں۔ ہم اور ہماری زندگی ہزارہا اور زندگیوں کے دائرہ اثر میں ہے۔ ہم اور ہماری زندگی ایک اور ذات کے ارادے کے تابع ہے، اور وہ ذات مطلق ہے۔ اس کا امر غالب ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ہمارے ساتھ، ہماری زندگی کے ساتھ، ہمارے ظاہر کے ساتھ، ہمارے باطن کے ساتھ، ہماری تنہائی کے ساتھ، ہمارے گردوپیش کے ساتھ، ہمارے والدین کے ساتھ، ہماری اولاد کے ساتھ، ہمارے ہر ہر خیال کے ساتھ۔ اور وہ ذات چاہے تو ہمارے مرتبے عذاب بنادے، چاہے تو ہماری غریبی اور غریب الوطنی کو سرفرازیاں عطا کردے۔ وہ ذات یتیموں کو پیغمبر بنادے اور چاہے تو مسکینوں کو مملکت عطا کردے۔ اس ذات کا امر اور عمل اٹل ہے۔ اس کے فیصلے آخری ہیں۔ اس کے حکم کے تابع ہیں انسان کی خوشیاں، انسان کے غم، انسان کی زندگی، انسان کی موت، انسان کی محبت، انسان کے خوف، انسان کے جذبات و احساسات۔ وہی ذات ہے، جو انسان کو بار بار حکم فرماتی ہے کہ صبر کرو۔ یعنی اپنی زندگی میں میرے حکم سے پیدا ہونے والے حال کو سمجھنے سے پہلے تسلیم کرلو۔ جو سمجھ میں نہ آسکے، اس پر صبر کرو، اور جو سمجھ میں آئے، اس پر مزید غور کرو۔ صبر کی منزل ایک مشکل منزل ہے۔ فقر میں ایک بلند مقام ہے صبر کا۔
وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ عجب بات ہے کہ وہ تکلیف دور نہیں کرتا اور برداشت کرنے والوں کے ساتھ رہتا ہے، اور تکلیف بھیجنے والا بھی خود ہے۔ بس یہی انسانی عظمت کا راز ہے، انسان کی تسلیم و رضا کا روشن باب، انسان کی انسانیت کا ارفع مقام کہ وہ سمجھ لے کہ تکلیف دینے والا ہی راحتِ جاں ہے۔ یہ زندگی اس کی دی ہوئی اسی کے حکم کی منتظر ہے۔ وجود اس کا بنایا ہوا اسی کے امر کے تابع ہے۔ وہ ستم کرے تو ستم ہی کرم ہے۔ وہ تکلیف بھیجے تو یہی راحت ہے۔ وہ ذات ہمارے جسم کو اذیت سے گزارے، تو بھی یہ اس کا احسان ہے۔
(”دل دریا سمندر“۔ واصف علی واصف)
مجلس اقبال
اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے میرا شعلہ نوا قندیل
علامہ اقبال امت ِ واحدہ یا ملّتِ اسلامیہ کی متحدہ قوت سے کٹے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ میرے کلام سے رہنمائی حاصل کرو، اس لیے کہ غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اپنے ملّی قافلے سے کٹ کر تم قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ ایسے میں میرے کلام کی روشنیاں چراغِ راہ بن کر تمہاری رہنمائی کرتی اور تمہارے دلوں کو ایمانی جذبوں اور آزادی کے لطف سے روشناس کراتی ہیں۔ یوں وہ اپنے اشعار کو اندھیری راہ میں جذبے اور روشنیاں بخشنے والے چراغ قرار دیتے ہیں۔