ہم پہ یہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کو پانچ ہفتے سے زائد ہو چکے، اسرائیل غزہ کے اس چھوٹے سے محصور خطے پر سات ایٹم بمبوں سے بڑھ کر بمباری کر کے غزہ کی شہری آبادی، سکولوں اور ہسپتالوں تک کو کھنڈرات میں تبدیل کر چکا، گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی معصوم بچوں، بے بس خواتین، بوڑھوں اور معذوروں کو موت کی نیند سلا چکا تو سعودی عرب کی میزبانی میں اس کے دارالحکومت ریاض میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم، او آئی ، سی جسے اکثر لوگ بجا طور پر ’’اوہ! آئی۔ سی‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں، کا مشترکہ سربراہی ’’ہنگامی‘‘ اجلاس ہوا یعنی عربوں سمیت دنیا بھر کے مسلمان ممالک کی اعلیٰ ترین حکمران قیادت ریاض میں جمع ہوئی اور ’’نشتند، گفتند، برخاستند… اس ’’ہنگامی اجلاس‘‘ میں ایک شرمناک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور مسلمان سربراہان مملکت مطمئن ہو کر گھروں کو لوٹ گئے کہ فرض ادا ہوا اور بڑا بوجھ سروں سے اتر گیا۔ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اس ’’مشترکہ ہنگامی اجلاس‘‘ کے شرکاء کی ایک تصویر بھی ذرائع ابلاغ کو جاری کی گئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اجلاس میں شریک ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ درجن سے زائد نہیں تھی۔ گویا پانچ درجن کے قریب مسلمان ملکوں میں سے تقریباً تین چوتھائی نے اجلاس میں شرکت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ باقی جو ایک چوتھائی اجلاس میں شریک ہوئے انہوں نے جو واحد کارنامہ انجام دیا اسے ایک مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس اعلامیہ میں غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، انسانی امداد کی فراہمی اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے مطالبات کئے گئے۔ غزہ میں اسرائیلی قابض حکومت کی جارحیت، جنگی جرائم اور غیر انسانی قتل عام کی شدید مذمت کی گئی اور اسرائیل کے حق دفاع کو غزہ میں جنگ کا جواز بنانے کو مسترد کر دیا گیا۔ یہ ہے وہ عظیم کارنامہ جو ہمارے مسلمان حکمرانوں نے نہایت ’’جرأت و دلیری‘‘ سے انجام دیا تاہم اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے خلاف کسی تادیبی معاشی، سیاسی، معاشرتی یا سفارتی عملی اقدام کی منظوری دینے سے ان سربراہان نے صاف انکار کر دیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں جنگ کے بعد کی صورت حال کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں ہے…!
عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اس مشترکہ ’’ہنگامی‘‘ اجلاس کی پوری رو داد پڑھ جایئے آپ یہ جان نہ پائیں گے کہ اس مشترکہ ’’ہنگامی‘‘ اجلاس کا مقصد کیا تھا۔ اسرائیلی جارحیت کی مذمت…؟ وہ تو دنیا بھر میں مسلمان ہی نہیں باضمیر غیر مسلم شہری بھی ہر روز لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر خود اسرائیل کے سرپرست مغربی ممالک میں مسلمان سربراہان مملکت سے کہیں زیادہ زور دار انداز میں کر رہے ہیں… امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی حمایت و پشت پناہی کر رہے ہیں، ان کے سربراہان مملکت اور وزرائے خارجہ اسرائیل کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کے لیے عین حالت جنگ میں اسرائیل پہنچے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ نے تو واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر جب تک امریکہ موجود ہے، اسے اس کی ضرورت نہیں پڑے گی… مسلمان سربراہان کا مشترکہ اعلامیہ بار بار پڑھنے پر بھی اس میں کہیں اسرائیل کے ان محافظوں اور سرپرستوں کی مذمت میں ایک لفظ تک پڑھنے کو نہیں ملتا… عالم کفر کے رہنمائوں کی طرف سے ننگی جارحیت کے تحفظ کے جواب میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے ’’ہنگامی‘‘ سربراہی اجلاس میں بیالیس اسلامی ملکوں کی پاکستانی جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں قائم ’’اسلامی فوج‘‘ غزہ کے مجبور اور محصور مسلمانوں کی حفاظت کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا جاتا اور اسرائیلی وزیر کی ایٹم بم غزہ پر پھینکنے کی دھمکی کے جواب میں عالم اسلام کا واحد ’’اسلامی ایٹم بم‘‘ بروئے کار لانے کا دو ٹوک اعلان سامنے آتا مگر مسلمان عوام کے جذبات کے قطعی برعکس ان کے حکمرانوں کی حالت تو یقیناً یہ ہو چکی ہے کہ :
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اسلامی سربراہی اجلاس کا واحد کارنامہ مشترکہ اعلامیہ دیکھئے تو دکھ ہوتا ہے کہ یہ خوف اور بزدلی کی انتہائوں کو چھوتا ہوا ایک شہ پارہ ہے، جس میں نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے سرپرستوں کی مذمت میں ایک لفظ تک کہنے کی جرأت نہیں کی گئی بلکہ خود جارح اسرائیل کو دہشت گرد قرار دینا گوارا نہیں کیا گیا… اس کی اور اس کے سرپرستوں کی مصنوعات اور اقتصادی بائیکاٹ کی طرف اشارہ تک موجود نہیں۔ دو سکھ رہنمائوں کے کینیڈا میں قتل کے تنازعہ پر کینیڈا اور بھارت میں سفارتی کشیدگی عروج پر ہے اور ایک دوسرے کے سفارت کار دونوں ملکوں نے نکال باہر کئے ہیں مگر مسلمان حکمرانوں کی بے حمیتی کا عالم یہ ہے کہ کسی نے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں سے سفارتی تعلقات منقطع کرنا تو بعد کی بات ہے، سفارتی سطح پر احتجاج تک کرنا ضروری نہیں سمجھا… سب باتوں کو چھوڑیئے اجلاس میں مظلوم، مجبور اور محصور فلسطینی مسلمانوں کو خوراک اور ادویات کی فراہمی کے لیے کسی فنڈ کے قیام تک کی ہمت نہیں کی گئی… اس کیفیت میں یہ سربراہی اجلاس منعقد کرنے اور اپنی بزدلی، بے حمیتی اور بے بس فلسطینی مسلمانوں سے اپنی لا تعلقی کو نمایاں کرنے سے بہتر ہوتا کہ اس اجلاس پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے ضائع نہ کئے جاتے… اور کسی اچھے کام پر صرف کر دیئے جاتے… سوال یہ ہے کہ یہ اجلاس نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ فلسطین کے تباہ حال مسلمانوں کو اس سے کوئی فائدہ پہنچا یا نقصان ہوا… یہ اجلاس نہ ہوتا تو کم از کم بھرم تو قائم رہتا… غزہ کے جراتمند، جری، بہادر، دلیر، مدابر اور شاکر مسلمان بجا طور پر مسلمان سربراہان سے شکوہ کناں ہیں کہ ع
ہم پہ یہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)