حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے سود کھانے والے ،سود لکھنے والے اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔
(مسلم ،کتاب الربا)
حضرت عمران بن حطاّن تابعی ؒ رو ایت کرتے ہیںکہ ایک روز میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک کالی کملی لپیٹے ہوئے مسجد میں با لکل اکیلے بیٹھے ہیں۔ میںنے عرض کیا: ’’ اے ابوذر! یہ تنہائی اور یکسوئی کیسی ہے (یعنی آپ نے اِس طرح اکیلے اور سب سے الگ تھلگ رہنا کیوں اختیار فرمایا ہے؟‘‘ اُنھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ برے ساتھی کی ہم نشینی سے اکیلے رہنا اچھا ہے‘ اور اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنا تنہائی سے بہترہے‘ اور کسی کواچھی باتیں بتاناخاموش رہنے سے بہترہے‘ اوربری باتیںبتانے سے خاموش رہنا بہتر ہے ‘ ‘۔ (شعب الایمان‘البیہقی)
ہا دیِ اعظمؐ کے اِس حکیمانہ اور جامع ارشادِ مبارکہ سے ہر مسلمان مرد و عورت کو چار اہم ہدایا ت مل رہی ہیں۔ آئیے! اِن چار اہم ہدایا ت کو ہا دیِ اعظمؐ کی چند دیگر ہدایاتِ عالیہ کی روشنی میںسمجھتے ہیں۔
بری رفاقت سے تنھائی بہلی: آپؐ کی سب سے پہلی ہدایت تویہ ہے کہ برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کے مقابلے میںتنہائی اختیارکرلینابہت زیادہ مفید ہے۔ اوراِس کی وجہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حکیمانہ مثال سے سمجھا دی ہے کہ ’’اچھے او ر برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے۔ مشک بیچنے والے کی صحبت سے تم کو کچھ فائدہ پہنچے گا ۔یا تو مشک خریدو گے یا مشک کی خوشبو پاؤ گے‘ لیکن لوہار کی بھٹی تمھارا گھر یا کپڑے جلائے گی یا تمھارے دماغ میں اِس کی بد بو پہنچے گی‘‘(بخاری‘ مسلم) ۔اسی لیے حضور اکرمؐنے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ‘ اِس لیے ہر آدمی کو دیکھنا چا ہیے کہ وہ کس سے دو ستی کر رہا ہے‘‘(مسند احمد‘ مشکوٰۃ)۔ ایک موقع پر رسول ؐاللہ نے حضرت ابوذرغفاری ؓ سے فرمایا: ’’اے ابو ذر! کیا میں تمھیں ایسی دو خصلتیں نہ بتادوں جنھیں اختیار کرنے سے آدمی پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑتا مگر اللہ کے میزان میں وہ بہت بھاری ہوتی ہیں ؟ حضرت ـــــابوذر غفاریؓ نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں؟ یارسولؐ اللہ! وہ دونوں خصلتیں ضرور بتائیے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ـ’’زیادہ خاموش رہنے کی عادت اور حسنِ خلق۔(پھرفرمایا) قسم ہے اُس ذ اتِ پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ‘مخلوقات کے عمل میں یہ دونوں چیزیں بے مثا ل ہیں ‘‘ (شعب الایمان‘ البیہقی)۔ نبی مکرمؐکے اِن حکیمانہ اور جامع ارشادات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کے مقابلے میںتنہائی اختیارکرلینابہت زیادہ مفید ہے۔
اچہّوں کا ساتھ دو: دوسری ہدایت یہ ہے کہ تنہا ئی اختیار کرنے کے مقابلے میں اچھے مسلمانوں کی صحبت میں بیٹھنا زیادہ سود مند ہے۔ اس کی وجہ بھی رسول ؐاللہ نے ایک حکیمانہ مثال سے اُس موقع پرسمجھا دی‘جب کسی نے حضو ؐر سے پوچھاکہ ’’ہم نشین کیسے ہوں‘ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اُن لوگوں کی صحبت میں بیٹھو‘ جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے‘ جن کی گفتگو سے تمھاری دینی معلومات میں اضافہ ہو‘ جن کا عمل تمھیں آخرت یاد دلائے‘‘۔ (عبداللہ ابن عباس‘ترغیب وترھیب )۔ اِس ہدایت کی مزید تاکید کے لیے ایک اور موقع پر فرمایا: ’’تم کسی مومن ہی کواپنا ساتھی بناؤ۔ اور متقی شخص کے سوا کسی اور کو کھانا نہ کھلاؤ‘‘ (یعنی فاسق اور فاجرآدمی کو دعوتِ طعام نہ دو)‘‘۔(عن ابو سعید خدریؓ،:ترغیب وترھیب‘بحوالہ صحیح ابن حبّان)
نبی مکرم ؐکے اِن حکیمانہ اور جامع ارشادات مبارکہ سے معلو م ہوا کہ تنہائی اختیار کرنے کے بجاے اچھے مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اِس کے نتیجے میں‘محبت‘ بھائی چارے اورنیک اعمال میں اضافہ ہوگا۔
نیکی کی تلقین:تیسری ہدایت یہ ہے کہ لوگوںکو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا‘ خاموشی اختیا ر کرلینے کے مقابلے میںزیادہ بہتر ہے۔ قرآن مجید میںبھی اللہ تعالیٰ نے اِس کی ہدایت اِن الفاظ میںکی ہے: وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(البقرہ۲:۸۳)’’ اور لوگوں سے اچھی بات کرو‘‘۔ حضور اکرمؐ نے اِس بات کو ایک اور انداز سے سمجھایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہہ بندہ اللہ کی خوش نودی کی کوئی ایسی بات اپنی زبان سے کہہ دیتا ہے جس کی طرف اُس کا دھیان بھی نہیں ہوتا اور اُس کلمے کی بدولت اللہ تعالیٰ اُس کے درجات بلند فرمادیتا ہے‘‘ (عن ابوہریرہؓ، بخار ی ‘مشکوٰۃ)۔ خاموشی اختیار کرنے کے مقابلے میں لوگوںکو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرناایک احسن عمل ہے۔
ایک روز رسولؐ اللہ نے اپنی ایک تقریرمیں کچھ افراد کی تعریف فرمائی (جو دوسروں کو دین کی باتیں بتاتے تھے)۔ پھر فرمایا: ’’ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ اپنے پڑوسیوںمیںدینی سوجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے؟ اُن کو تعلیم نہیں دیتے؟ اُن کو نصیحت نہیں کرتے؟ بری باتوں سے کیوں نہیں روکتے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’ اور ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ دین کی باتیں نہیں سیکھتے؟کیوں اپنے اندردینی شعور پیدا نہیں کرتے؟ کیوں دین نہ جاننے کے نتائج معلوم نہیں کرتے؟ خدا کی قسم! لوگوں کو آس پاس کی آبادی کو دین سکھانا ہوگا‘ اُن کے اندر دینی شعور پیدا کرنا ہوگا‘ وعظ و تلقین کاکام کرنا ہوگا‘ اور لوگوں کو لازماً اپنے قریب کے لوگوں سے دین سیکھنا ہو گا‘ اپنے اندر دینی سمجھ بوجھ پیدا کرنی ہوگی اور وعظ و نصیحت قبول کرنا ہوگا‘ ورنہ میں اُنھیں اِس دنیا میں جلد سزا دوں گا‘‘۔(عن ابو موسیٰ الاشعریؓ، الطبرانی)
نبی مکرمؐکے اِن حکیمانہ ارشادات مبارکہ سے معلو م ہواکہ لوگوںکو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا‘ خاموشی اختیا ر کرلینے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے‘ اور آپؐ صرف وہی بات کرتے تھے جس پر آپ ؐ کو ثواب کی امید ہوتی تھی۔
بُری بات سے خاموشی بہلی: چوتھی ہدایت یہ ہے کہ بدی اور برائی کی طرف مائل کرنے والی گفتگو کے مقابلے میں خاموشی اختیار کر نا زیادہ فائدہ مند ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِس طرح کی گفتگو کے نقصانات کو ان الفاظ میںبیان کیا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّلَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ۵۰: ۱۸)’’ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو‘‘۔
اِس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ کوئی با ت منہ سے نکالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ وہ نوٹ ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اِس کا حساب بھی دینا ہو گا ۔ حضوراقدسؐ نے اِس بات کو ایک اور انداز سے سمجھایا ہے۔آپؐ نے فرمایا:’’بلاشبہہ بندہ اپنی زبان سے کبھی اللہ کی ناراضی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے جس کا اُسے خیال بھی نہیں ہوتا اوروہ کلمہ اُسے جہنم میںگرادیتا ہے‘‘۔(عن ابوہریرہؓ، بخاری‘ مشکوٰۃ)۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہہ انسان اپنی زبان سے اتنا زیادہ پھسل جاتا ہے‘جتنا اپنے قدم سے بھی نہیں پھسلتا‘‘۔ (عن ابوہریرہؓ، بیہقی‘ مشکوٰۃ )
بدی اور برائی کی طرف مائل کرنے والی گفتگو کے بارے میں ہا دیِ اعظمؐکی چند اور ہدایات عالیہ سنیے جو آپؐ نے مختلف مواقع پرعطا فرمائی ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ’ ’فضو ل باتیں کرنے والے اور یاوہ گوئی کرنے والے میری اُمت کے بد ترین لوگ ہیں‘‘(موطا امام مالک‘ ابوداؤد)۔ایک اور موقع پرفرمایا:’’جو شخص مجھے اپنے دونوں کلّوںکے درمیان والی چیز (یعنی زبان)‘ اور اپنی دونوں رانوں کے درمیان والی چیز(یعنی شرم گاہ )کی حفاظت کرنے کی ضمانت دے دے گا‘ میں اُسے جنت کی ضمانت دے دوں گا‘‘ (عن سہل بن سعدؓ، بخاری‘ مشکوٰۃ)۔ ایک اور موقع پرفرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں‘‘ (عن عبداللہ بن عمروؓ، بخاری )۔ اسی طرح ایک اور موقع پرآپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور روزِآخرت پر یقین رکھتا ہے‘ اُس کو چاہیے کہ وہ بھلی بات کہے یا چپ رہے‘‘۔ (کتاب الایمان، مسلم)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کوہادیِ اعظمؐکی ہدایات پر عمل کر نے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!