آج اصحابِ اُخدود مارے گئے

آسماں کی قسم!
اس کے بُرجوں کی، اونچے قلعوں کی قسم
اور جس دن کا وعدہ ہے، اُس کی قسم
وہ جو محوِ تماشا ہیں اُن کی قسم
اور قسم اُن کی جن کو ستم کا تماشا بنایا گیا
آگ کی خندقوں میں گرایا گیا
وہ جو کہتے تھے
’’ربِّ عزیزالحمید!
تُو ہی حاکم ہے ارض و سماوات کا‘‘
بس اِسی جُرم میں
گھر میں محصور تھے
بھوک سے، پیاس سے، درد سے چُور تھے
پر یہ سب تا بہ کَے؟
وہ یکایک اُٹھے
اور غزہ اُٹھ گیا
ایک ’’طوفانِ اقصیٰ‘‘ بپا ہو گیا
لا اِلٰہ کی صدا سے فضا گونج اٹھی
ہر سُو تکبیر کا غُلغُلہ مچ گیا
بس اِسی جُرم میں
اہلِ ایمان پھر آگ کی خندقوں میں اُتارے گئے
ماؤں کی گود میں کُلبُلاتے جری
گود سے گورِ آتش میں وارے گئے
دودھ پیتے شہیدوں کے خوں کی قسم
آج اصحابِ اُخدود مارے گئے
آج اصحابِ اُخدود مارے گئے
٭
میرے آقاؐ کی امت کے اہلِ وفا
غازیان و شہیدانِ اہلِ غزہ
بس یہی زندہ ہیں اے عزیزانِ ما!
بس یہی زندہ ہیں اے عزیزانِ ما!
آئیے، ہم نمازِ جنازہ پڑھیں
اپنی اُمت کے شاہانِ ذی جاہ کی
اپنے خاموش و خائف سلاطین کے
تخت اور تاج کی
جوہری اسلحوں سے مسلًح کھڑی
مسلم افواج کی
غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھیں!

(دائرۂ علم و ادب پاکستان کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ’’تیسری کُل پاکستان اہلِ قلم کانفرنس‘‘ کے کُل پاکستان مشاعرے میں پڑھی گئی)