وہ مست ہو ہو کے مجلس میں بھنڈ کرتے ہیں

ہمیں خوشی ہے کہ اس صفحے پر ہم جو دو چار سطریں گھسیٹ لیتے ہیں ان پر لسانیات کے جید اہلِ علم بھی نظر عنایت فرماتے ہیں۔ اس عنایت سے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور لاعلمی میں کمی۔ ہرنئی بات جان کر نئی خوشی ہوتی ہے۔ جی خوش ہوجائے تو مارے خوشی کے جی چاہنے لگتا ہے کہ اپنے کالموں کے قارئین کو بھی ان علمی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔

پچھلے کالم میں ہم نے اپنا ہی بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ ہماری یہ خوش فعلی سلیم بھائی کو خوش آئی۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم صاحب جامعہ ملک عبدالعزیزرابغ، سعودی عرب میں کلیۃ العلوم و الآداب کے استاذ ہیں۔ ہمارے اُستادی دکھانے پر آپ نے ہم سے خوش ہوکر لکھا:

’’کیا خوب بھانڈا پھوڑا ہے۔ زبردست۔ سنسکرت میں ایک مادّہ ہے ’بھن/بھنڑ‘ جس کے معنی ہوتے ہیں آواز کرنا، کہنا، پکارنا، شور مچانا۔ ہم کبھی اتنا غصے میں ہوتے ہیں کہ کچھ بامعنی کہنے کو نہیں ہوتا۔ منہ ہی منہ میںکچھ کہنے لگتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ’’بھُنبھُنا رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح مچھر، مکھی وغیرہ بھی زیادہ ہوں تو ان کے پروں کی آواز ہوتی ہے، جسے’ بھِنبھِنانا‘ کہتے ہیں۔ اصل تو آواز ہے لیکن آواز نہ ہو تب بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ انسان کو، ارتقا کے مراحل طے کرتے ہوئے، چیزوں کو ذخیرہ کرنے کا خیال ہوا، کہ ہر وقت ضرورت پڑنے پر بار بار بستی سے باہر نہ جانا پڑے۔ اس نے برتن بنائے۔ شاید برتنوں کے آواز نکالنے کی صفت بہت پہلے پہچان لی گئی تھی۔ چمچ، تھالی، لوٹا، مٹکا، گھڑا، کوئی ایسا برتن نہیں جسے بجایا نہ جا سکے یا بجایا نہ جاتا ہو۔ جہاں چار برتن ہوتے ہیں آپس میں ٹکراتے ہی ہیں۔ بڑے برتنوں میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے تو نیچے سے گلے تک بھرتے ہوئے آواز آتی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب برتن بھر جانے کو ہے۔ شاید آواز ہی کی مناسبت سے انہیں بھانڈ، بھانڈا اور بھنڈا کہا گیا۔ حاطب بھائی! آپ نے بھانڈے کا بھانڈا بالکل درست پھوڑا ہے۔ لیکن بھانڈا پھوٹ جانا اہم کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہم اپنا کھانا دوسروں میں بانٹ کر نہیں بلکہ دوسروں سے چھپا کر کھاتے ہیں اور چھپا کر لے جاتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ تجسس ہوگا کہ کون کیا لے کر جا رہا ہے۔ ویسے بھی کچھ لے جاتے ہوئے راستے میں بھانڈا پھوٹ جائے تو سب ظاہر ہوجاتا ہے، ورنہ گھر میں تو سب کو معلوم ہی ہوتا ہے کہ بھانڈے میں کیا ہے۔ سنسکرت سے مشتق کئی مقامی بولیوں میں بھنڈا سے ’ہنڈا‘ ہوگیا۔ پیتل کے گھڑوں کو اب بھی ہنڈا کہتے ہیں۔ اس کی تصغیر ہانڈی اور ہنڈیا ہے۔ جہاں بہت بڑے بڑے بھانڈوں میں گیہوں، چاول وغیرہ ذخیرہ کیا جاتا ہے اس جگہ کو ’بھنڈار‘ کہتے تھے اور اس کا افسر ’بھنڈاری‘ کہلاتا تھا۔ بھنڈار کی طرح ’کوٹھار‘ بھی ہوتا تھا اور اس کا نگراں ’کوٹھاری‘ کہلاتا۔ اب یہ عہدے تو نہ رہے لیکن بہت سے بنیوں کے خاندانی نام بھنڈاری اور کوٹھاری ہوتے ہیں۔ درباروں میں جو بھانڈ ہوتے تھے ان کی وجہِ تسمیہ بھی آواز اور اعلان ہے۔ راجاؤں کے ہاں ’بھانڈک‘ ہوتے تھے جن کا کام منادی کرنا ہوتا تھا۔ راجا جی کسی مہم سے لوٹے تو پرجا میں ان کی کامیابی کے قصوں کا، بڑھا چڑھا کراونچی آواز میں، اعلان کرنا ان کی ذمے داری ہوتی۔ پھر زوال ہوا تو بغیر کسی مہم یا کامیابی کے دربار میں راجا جی کا بکھان کرنا ان کا فرض ٹھہرا۔ سچ، جھوٹ، چاپلوسی، نقالی، گانا، بجانا، جیسے بھی راجا جی خوش ہوں۔ ’بھانڈ‘سرکاری اعلان کرنے سے شروع ہوئے تھے، دھیرے دھیرے نقال، جوکر، ناچ گانے اور کرتب دکھانے والے بن گئے‘‘۔

بھانڈوں سے متعلق مفصل معلومات کی فراہمی پر ہم اپنی اور اپنے قارئین کی طرف سے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے کہ ’بھانڈ‘ سرکاری اعلان کرنے سے شروع ہوئے تھے۔ ہماری ناقص و ناہنجار رائے میں یہاں صیغۂ ماضی استعمال کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس قسم کے سرکاری بھانڈ اور بھانڈک اب بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر بکثرت پائے جاتے ہیں، اور آپ نے آخری سطور میں جن جن مشاغل کا ذکر کیا ہے، اُن تمام مشاغل کے تقاضے وہ بیک وقت نبھاتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک خاتون کا ایک ’بصریہ وبائی‘ ہوگیا۔ بہ الفاظِ انگریزی اُن کی ایک ایسی ‘Video viral’ ہوگئی جس میں وہ عالمی قماش کے ایک بھانڈ یا بھانڈک کی پریس کانفرنس میں ’بھنڈ‘ کرتے ہوئے چیخ چیخ کر غزہ میں قتل عام بلکہ قتل عوام بند کرنے کا مطالبہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ کئی ’بھنڈاری‘ بھی اُن کو پکڑ کر باہر کا راستہ دکھانے پر مستعد و مامور نظر آرہے ہیں۔ ’بھنڈ کرنا‘ اپنے’کرانچی‘ والوں کی معروف اصطلاح ہے۔ مفہوم ہے ’رنگ میں بھنگ ڈالنا‘ یا بدنظمی کرنا۔ یہی اصطلاح، اسی مفہوم میں انشاء اللہ خان انشاؔ کے ہاں بھی مل جاتی ہے:

شراب اُن کو کہیں مت پلائیو انشاؔ
وہ مست ہو ہو کے مجلس میں بھنڈ کرتے ہیں

’بھنڈ مارنا‘ بھی ہمارے کراچی والوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ مراد ہے لاف زنی کرنا، شیخی مارنا اور بے سروپا، احمقانہ باتیں کرنا۔ قدیم اردو میں ’بھنڈیلا‘ پھکڑ باز اور جگت باز کو کہا جاتا تھا۔ پہلے زمانے میں جگت باز سرکار دربار میں بھنڈ مارا کرتے تھے، اب بھی غالباً یہی مشغلہ ہے، مگر ارتقا کے مراحل طے ہوجانے کے بعد اس منصب کا نام بھنڈیلا، بھانڈ، بھانڈک یا جگت باز نہیں رہا، وزیر اطلاعات ہوگیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ سنسکرت سے مشتق کئی مقامی بولیوں میں ’بھنڈا‘ سے ’ہنڈا‘ ہوگیا،جس کی تصغیر ہانڈی اور ہنڈیا ہوئی، جب کہ اس کی ’تکبیر‘ کا ذکر پچھلے کالم میں نظیرؔ اکبر آبادی کے اس مصرعے میں آچکا ہے کہ …’پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے‘۔ اچھا ہوا کہ ہنڈا، ہانڈی اور ہنڈیا وجود میں آگئے۔ ورنہ ہمارے گھروں میں بھنڈا، بھانڈی اور بھنڈیا بات بات پر بھنڈ مارتے دکھائی اور سنائی دیتے۔

ہندی اور فارسی الفاظ کو ملا کر بنائی جانے والی تراکیب میں سے ایک ترکیب ’بھنڈار خانہ‘ بھی لوگوں میں رائج ہے۔ حالاں کہ ’بھنڈار‘ (گودام) میں ’خانہ‘ کا تصور پہلے سے موجود ہے۔ نقار خانے کی طرح ’بھنڈار خانے‘ میں بھی کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کیسے سنائی دے؟ چھوٹے چھوٹے بھانڈے آپس میں لڑجائیں تو وہی اچھا خاصا بھنڈ مچا دیتے ہیں۔ بھنڈار خانے میں تو بڑے بڑے بھانڈوں سے بڑے بڑے بھانڈے ٹکراتے ہیں۔ اُن کی باہمی سر پھٹول سے جو غدر مچتا ہے، اُس کا بھگتان ہماری پوری قوم اپنے سیاسی ’بھنڈار خانے‘ میں کھڑی یا پڑی آئے دن بھگتا کرتی ہے۔

لغت میں بھنڈار اور بھنڈاری تلاش کررہے تھے کہ ایک لفظ ’بھنڈارا‘ مل گیا، جس کا مطلب ہے ہندو فقیروں اور جوگیوں کی ضیافت۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی لفظ کا مطلب کھوپڑی بھی ہے اور پیٹ بھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ نوراللغات میں لکھے ہوئے اس فقرے کو پڑھ کر ہم اپنی کھوپڑی سہلائیں یا پیٹ؟ ’’…شمشیر آب دار میان سے باہر نکال لوں اور ایسا ہاتھ لگاؤں کہ بھنڈارا کُھل جائے‘‘۔

صاحبو! یہ ساری باتیں لفظ ’بھانڈا‘ سے نکلی تھیں۔ بھانڈا کا ایک صوتی رشتے دار ’بھونڈا‘ بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے بے ڈول، بدصورت اور بد وضع۔ اِس بھونڈے کی مؤنث ’بھونڈی‘ کہلاتی ہے۔ شکل صورت میں یہ بھی اپنے مذکر جیسی ہوتی ہے۔ لیکن مذکر ومؤنث دونوں کا مشترکہ اسم صفت ’بھونڈاپن‘ ہے، کیوں کہ ’بھونڈی‘ میں بھی اچھا خاصا ’بھونڈا پن‘ پایا جاتا ہے۔ بھونڈے پن میں بدتمیزی، بدتہذیبی، بد سلیقگی اور پھوہڑپن بھی شامل ہوجاتا ہے۔

بھنڈ، بھانڈ، بھانڈا، بھنڈا، بھانڈک، بھنڈار اور بھنڈاری کا مطلب تو محترم سلیم بھائی نے اچھی طرح سمجھا دیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ ہماری ایک پیاری سی ترکاری ‘Lady Finger’ کو سنسکرت، ہندی یا اُردو میں ’بھنڈی‘ کیوں کہا جانے لگا ہے؟

کیا عجب کہ اس کا سبب یہ ہو کہ یہ بھی پیٹ میں پہنچتے ہی مست ہو ہوکر بھنڈ کرنے لگتی ہے۔ مگر ایسا کیوں کرتی ہے؟ کوئی حکیم صاحب (مثلاً حکیم عارف عبداللہ صاحب) ہی اس کا بھانڈا پھوڑ سکتے ہیں۔