انتخابات کے بعد سیاسی اور معاشی بحران میں اضافہ ہو گا۔
تمام تر خدشات کے باوجود پاکستان انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ 8 فروری2024ء کو عام انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے اور عدالتِ عظمیٰ سمیت الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں گے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں میں جوش و خروش بھی دیکھنے کو مل رہا ہے، اور تمام بڑی، چھوٹی یا علاقائی جماعتوں میں سیاسی جوڑ توڑ بھی نظر آرہا ہے۔ نوازشریف کی واپسی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) میں بھی خاصی گرم جوشی ہے، اور بعض سیاسی تجزیہ نگار ایک بڑی قومی مفاہمت یا شریف خاندان سے اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل کی بنیاد پر نوازشریف کو چوتھی بار ملک کے وزیراعظم کے طور پر بھی پیش کررہے ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں نے تو انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کے نتائج اور آئندہ حکومت کا فیصلہ بھی کردیا ہے، اور دعویٰ کیا جا رہا ہےکہ اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر یہ سب کچھ طے ہوگیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے راہنما اور خود وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو کے بقول اِس بار وزیراعظم لاہور سے نہیں ہوگا، اور وزارتِ عظمیٰ پر پیپلزپارٹی کا امیدوار ہوگا۔ جبکہ معروف صحافی اور تجزیہ نگار حامد میرکا کہنا ہے کہ آنے والے انتخابات میں مائنس ون نہیں بلکہ مائنس ٹو اور تھری بھی ہوسکتا ہے۔ اُن کے بقول انتخابات کی شفافیت کو قائم رکھنے کے لیے تمام جماعتوں کے بڑے راہنما انتخابات میں شکست کھا سکتے ہیں۔ اس کھیل کا مقصد تو پھر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آنے والی پارلیمنٹ سے ہیوی ویٹ سیاست دانوں کو نکال کر اسے کمزور لوگوں تک محدود کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ وضاحت کرکے ایک ابہام تو ختم کردیا کہ آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کو بھی نہ صرف حصہ لینے کی اجازت ہوگی بلکہ بیلٹ پیپر پر اس کا انتخابی نشان بلا بھی ہوگا۔ یہ بیان اُن تمام لوگوں کو مسترد کرتا ہے جو یہ کہتے تھے کہ بیلٹ پیپر پر بلا کا انتخابی نشان نہیں ہوگا، اور شاید انتخابات سے قبل پی ٹی آئی پر پابندی لگادی جائے گی۔ پیپلزپارٹی نے کھل کر مطالبہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی عمل میں شامل کیا جائے اور کسی بھی جماعت یا لیڈر پر انتخابات لڑنے یا انتخابی مہم چلانے پر پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے بارے میں ابھی تک ریاستی فیصلہ کیا ہے اس پر ابہام باقی ہے۔ پی ٹی آئی کی صورت میں تین بحثیں موجود ہیں۔ اول: کیا پی ٹی آئی کو انتخابی عمل میں شرکت کے لیے آزادانہ اورمنصفانہ لیول پلیئنگ فیلڈ مل سکے گی ؟ دوئم: کیا عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے اورانتخابی مہم چلانے یا اُن کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہوگی ؟ سوئم: کیا پی ٹی آئی کو طاقت کے زور پر دیوار سے لگانے کی حکمت عملی کے تحت سیاسی یا انتخابی میدان میں جیت سے دور رکھا جائے گا ؟ یہ سوالات اہم ہیں اوران ہی کی بنیاد پر انتخابات کی شفافیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی طرف دیکھیں تو نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ میں قبولیت اورمقبولیت پر رائے تقسیم ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان کی قبولیت ہوگئی ہے، اب ان کی مقبولیت کا امتحان ہے اوران کو اپنی مقبولیت کی بنیاد پر انتخابات میں واضح برتری بھی حاصل کرنی ہے۔ جبکہ دوسری طرف رائے یہ ہے کہ نوازشریف کی مقبولیت اور قبولیت دونوں پر سوالیہ نشان ہیں۔ کیونکہ ان کی قبولیت کے مقابلے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عملی طور پر نوازشریف کا جادو دکھایاجارہا ہے جبکہ اصل قبولیت شہبازشریف کی ہی ہوگی۔ جبکہ دوسری طرف نوازشریف واپسی کے باوجود عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ یہ ایک سیاسی حقیقت ہے کہ اس وقت قومی سیاست میں سب سے مقبول سیاسی شخصیت عمران خان ہی ہیں۔ ان کے سیاسی ناقدین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت پر کوئی سوال نہیں، بلکہ ان کا اصل مسئلہ اسٹیبلشمنٹ میں قبولیت کا ہے جہاں ان کو زیادہ بحران کا سامنا ہے۔نوازشریف کی ایک کوشش اپنی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوانے کی ہے جس کے لیے وہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کی خواہش کی بھی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔لیکن اسٹیبلشمنٹ میں مریم نواز پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ اسی طرح یہ بحث بھی موجود ہے کہ کیا مرکز اور پنجاب دونوں سطحوں پر مسلم لیگ (ن) یا شریف خاندان کو اقتدار مل سکے گا؟ کیونکہ ایسے لگتا ہے کہ اِس بار مرکز اورپنجاب کسی ایک جماعت کے پاس نہیں ہوں گے، اور اسی کو بنیاد بنا کر اسٹیبلشمنٹ سیاسی نظام پر حاوی رہ سکتی ہے۔عمومی طور پر تو یہاں یہ پرانی سیاسی روایت موجود ہے کہ انتخابات سے قبل انتخابی معاملات پر کچھ طے کرنے کے بعد ہی انتخابات کا منظر سجایا جاتا ہے۔ اصل جنگ بھی پنجاب میں لڑی جائے گی جہاں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) اورپی ٹی آئی کے درمیان ہونا ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی پنجاب میں کیا کھیل کھیلے گی اور نئی نویلی سیاسی دلہن ’استحکام پاکستان پارٹی‘ میں کیسے اورکتنی ہوا بھری جائے گی یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔پیپلزپارٹی کو گلہ ہے کہ پنجاب میں اسے سیاسی راستہ نہیں دیا گیا اوراس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اور استحکام پاکستان پارٹی کا سیاسی دربار سجایا گیا ہے۔اب پیپلزپارٹی کی کوشش ہوگی کہ وہ مسلم لیگ(ن) پر دبائو ڈال کر پنجاب میں کم ازکم 20قومی اسمبلی اور 20صوبائی نشستوں پر دونوں جماعتوں کے متفقہ امیدوار سامنے لاسکے۔ پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ اس حکمت عملی کو بنیاد بنا کر وہ پنجاب سے کچھ نہ کچھ حاصل کرکے محفوظ راستہ تلاش کرسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ اگر اس کا معاملہ کسی بھی صورت میں مسلم لیگ (ن) سے طے نہیں ہوتا تو اس کا دوسرا کارڈ پی ٹی آئی ہے اوروہ چاہے گی کہ اس مشکل وقت میں وہ پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے ایسا ہی فارمولہ لائے جیسے وہ مسلم لیگ(ن) سے چاہتی تھی۔جبکہ دوسری طرف یہ خبریں بھی ہیں کہ مسلم لیگ(ن) پر پسِ پردہ قوتوں کا یہ بھی دبائو ہے کہ وہ پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی سے اتحاد کرے، اور اس نئی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کو مسلم لیگ(ن) کی بی ٹیم سمجھا جارہا ہے، اور یہ تاثر پھیلایا جارہا ہے کہ جیسے استحکام پاکستان پارٹی تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر ایک بڑی ڈکیتی ڈالنے میں کامیا ب ہوجائے گی۔ لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کے پاس پورے انتخابی امیدوار بھی نہیں ہوں گے اور اس کی ووٹ کی بنیاد پر بڑی پذیرائی بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف چھوڑ کر جانے والوں کی اکثریت جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے استحکام پاکستان پارٹی کو جوائن کیا تھا، عملی طور پر غیر فعال ہیں اور پسِ پردہ چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کو دوبارہ عتاب کا سامنا ہے۔ فواد چودھری اس کی حالیہ مثال ہیں، اور ایسے ہی بہت سے لوگوں پر دبائو ہے کہ وہ کھل کر استحکام پاکستان پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ بنیں۔ اس سے قبل سندھ کے سابق گورنر عمران اسماعیل اور علی زیدی بھی غیر فعال ہوچکے ہیں اور ان کے بقول ہم نے عملی سیاست چھوڑ دی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) یا پی ٹی آئی سے انتخابی نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ چاہتی ہے تو یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیںہوگا، بلکہ جو بھی جماعت اس کے ساتھ اتحاد کرے گی وہ اس سے اتنی ہی نشستیں سندھ میں بھی مانگے گی جو یقینی طور پر پیپلزپارٹی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی خود سے اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی بڑا معرکہ سر کرسکے، اور نہ ہی اس کا کوئی بڑا ووٹ بینک موجود ہے جو کسی اور جماعت کے لیے خطرہ بن سکے۔
اِس بار اس بات کا بھی امکان ہے کہ سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کے خلاف ایک بڑا اتحاد دیکھنے کو ملے، اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو مکمل طور پر فری ہینڈ نہیں دیا جائے گا، اور اینٹی پیپلزپارٹی قوتوں کو بھی ایک معقول سیاسی حصہ ملے گا۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں پسِ پردہ قوتوں کی مدد سے بننے والی پرویز خٹک کی جماعت کو بھی شدید بحران کا سامنا ہے اور وہاں پی ٹی آئی بدستور خاصی مزاحمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی عملاً ختم ہوگئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی70فیصد سے زیادہ انتخابی امیدوار اپنی جماعت کے ساتھ ہی کھڑے ہیں، ان میں کچھ لوگ جیلوں میں ہیں اورکچھ روپوش ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کا کمال اس کا ووٹر ہے، اور تمام تر سروے نتائج کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا ووٹ بینک نہ صرف بدستور قائم ہے بلکہ اس میں غیرمعمولی اضافہ بھی ہوا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جو پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین کو درپیش ہے کہ تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود پی ٹی آئی کا انتخابی میدان میں پلڑا کسی نہ کسی شکل میں بھاری ہے۔پی ٹی آئی کی سیاسی طاقت کا مرکز پنجاب، خیبر پختون خوا اور کراچی سمیت بڑے شہری علاقے ہیں۔ جبکہ اس کی سیاسی پوزیشن اندرون سندھ اوربلوچستان میںخاصی کمزور ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی سیاسی پوزیشن اگر ہے تو وہ محض پنجاب کے بہت سے اضلاع تک محدود ہے، جبکہ باقی صوبوں میں اس کا ووٹ بینک محض چند بڑی سیاسی شخصیات تک محدود ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہے۔ اے این پی اورجے یو آئی کو خیبر پختون خوا میںپی ٹی آئی سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے، جبکہ ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی اورپیپلزپارٹی کے درمیان کراچی میں بڑی جنگ کاامکان موجود ہے۔پچھلے دنوں جماعت اسلامی کے اہم راہنما حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات ہوئی تو ان کابھی یہی مؤقف تھا کہ اِس بار کراچی میں بڑ امقابلہ ہوگا، انہوں نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی کو کسی بھی سطح پر کمزور نہیں سمجھنا چاہیے اورنوجوان اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔جماعت اسلامی کا خیال ہے کہ کراچی کی حالیہ سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت اسلامی اس پوزیشن میں ہے کہ وہ وہاں سے قومی اسمبلی کی تین یا چارنشستیں جیت سکتی ہے۔
اصل مسئلہ انتخابات کے معاملات میں شفافیت کا ہے۔ کیونکہ جس طرح کی خبریں آرہی ہیں یا جو سیاسی تجزیے پیش کیے گئے ہیں یا کیے جارہے ہیں اُس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ایک مصنوعی سیاسی نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انتخابات کا فیصلہ عوام کے ووٹ نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کی مرضی سے جڑا ہوا لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے انتخابات کو انتخابات سے پہلے ہی متنازع بنادیا تو ان کی ساکھ کیسے قائم ہوسکے گی؟ اسی طرح پی ٹی آئی سمیت کسی بھی جماعت کو دیوار سے لگانے سے کیا سیاسی بحران انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کے بعد بھی ختم ہوسکے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم سیاسی اور معاشی بحران ختم کرنے کے بجائے اسے اور زیادہ بڑھا دیں گے، کیونکہ جو لوگ یہ منطق اور دلیل دے رہے ہیں کہ جو اسکرپٹ لکھا گیا ہے اس میں مضبوط حکومت کا کوئی تصورنہیں بلکہ آنے والی حکومت ایک مخلوط حکومت ہوگی جس کے بہت حد تک ہاتھ اور پیر بندھے ہوں گے۔ اسی طرح صوبوں میںمختلف جماعتوں کی بندربانٹ سے صوبائی حکومتوں کی تشکیل کا منصوبہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کمزور جمہوریت ، کمزور سیاسی نظام اورکمزور معیشت کے دہانے پر ہی کھڑے رہیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے ماضی کے کھیل اور تجربات سے کچھ بھی نہیں سیکھا، بلکہ پرانی غلطیاں نئے سیاسی رنگ وشکل کے ساتھ دہرائی جارہی ہیں۔ یہ کھیل پہلے بھی ہمیں ایک مضبوط پاکستان میں تبدیل نہیں کرسکا، اور نہ ہی آگے یہ کھیل کسی مستحکم پاکستان کی طرف لے جاسکے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت سیاسی کھیل میں شامل تمام جماعتوں کی نظریں ووٹ یا عوام پر نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہیں، اور اسی کی مدد سے وہ اپنا سیاسی حصہ اقتدار کی سیاست میں بڑھانا چاہتی ہیں، یہی وہ المیہ ہے جو اس وقت پاکستان کو آگے لے کر جانے کے بجائے مسلسل پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔کاش ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھ کر آگے بڑھتے تو سیاسی اور معاشی ترقی کے نئے امکانات قائم کرسکتے۔ یہ خدشہ بدستور موجود ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتائج کی قبولیت بھی کم ہوگی اور اس کے نتیجے میں ہم ایک نئے بحران کا شکار بھی ہوں گے۔