غزہ میں بچوں کا خون اور مغرب کا سرمایہ

دنیا کا جدید ترین اسلحہ نہتے اہل غزہ کو سرنگوں کرنے میں ناکام

غزہ پر اسرائیل کی فوج کشی کو 30 دن ہوگئے لیکن نہ تو دستِ قاتل میں تھکن کے آثار ہیں، نہ ہی فاقہ زدہ، خستہ و بدن دریدہ لشکر کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کمی کا کوئی اشارہ۔ یوں کہیے کہ ساری دنیا کا جدید ترین اسلحہ نہتے اہلِ غزہ کو سرنگوں کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ کندھے پر دھرے راکٹ لانچر سے ایک ناقابلِ تسخیر مارکوا (Merkava) ٹینک کے پرخچے اڑتے دیکھ کر اللہ اکبر وللہ الحمد کا ورد کرتے ہوئے غزہ کے ایک سپاہی نے کہا کہ ہم طالوت کا لشکر، ہمارے راکٹ نیزہ داؤدؑ، خندق و شعب ابی طالب ہماری درس گاہ اور بانیِ رسمِ جہاد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رہبر و رہنما ہیں۔

غزہ میں بچوں کا خون اور مغرب کا سرمایہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ ممتاز عسکری تجزیہ نگار زوران کوسوویک (Zoran Kusovac) کا خیال ہے کہ 3 نومبر تک اسرائیل نے امریکی ساختہ F16 اور F15 طیاروں کی 16ہزار پروازوں سے 12 ہزار مقامات پر 18ہزار ٹن بارود غزہ پر برسایا۔ اس دوران رہائشی عمارات، بیمارستان، اسپتالوں کے آکسیجن پلانٹ، پناہ گزینوں کی خیمہ بستیاں، اسکول، تندور، آب نوشی کے ذخائر و وسائل،ٹیلی کمیونی کیشن ٹاور، برقی و شمسی توانائی کی تنصیبات اور مساجد و مدارس کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں 4 ہزار پھولوں سمیت 9 ہزار افراد قتل ہوئے۔ فاضل تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ بمباری کی اس مہم کا خرچہ 2 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، یعنی اسرائیل کو ہرفلسطینی لاش 2 لاکھ 22 ہزارڈالر کی پڑی۔ عالمی ادارے Save the Children نے غزہ کو نونہالوں کا مذبح قرار دیا ہے جہاں ہر دس منٹ میں ایک بچہ مارا جارہا ہے۔ اس رفتار سے تو شاید فرعون نے بھی اسرائیلی بچوں کو قتل نہیں کیا۔ اللہ کا وہ دشمن صرف لڑکوں کو ذبح کرتا تھا جبکہ اسرائیلی اس معاملے میں کسی تفریق کے قائل نہیں۔ کیا گول مٹول گڈا اور کیا ننھی گڑیا… سارے مہ پارے پارہ پارہ ہیں۔

اسرائیلی قیادت کو مالی نقصان کی کوئی فکر نہیں کہ جنگی اخراجات کی ایک ایک پائی امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ادا کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکی ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) نے اسرائیل کے لیے 14 ارب 30 کروڑ ڈالر فوری امداد کا ریپبلکن بل 196 کے مقابلے میں 226 ووٹوں سے منظور کرلیا۔ ایک درجن ڈیموکریٹک ارکان نے جماعتی ہدایت نظرانداز کرتے ہوئے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے۔ امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے، لہٰذا یہ سوال غیر ضروری ہے کہ یہ خطیر رقم کہاں سے آئے گی، لیکن اگر ہمارے قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال آہی گیا ہے تو اس کا جواب بھی سن لیجیے۔

گزشتہ برس افراطِ زر کے مارے غریب امریکیوں کی اعانت کے لیے Inflation Reduction Actیا IRAمنظور کیا گیا تھا۔ یہ عملاً 738 ارب ڈالر حجم کا ضمنی بجٹ تھا۔ رقم کے حصول کے لیے ٹیکس اصلاحات کے علاوہ کارپوریشنوں کو کم سے کم 15 فیصد ٹیکس ادا کرنے کا پابند بنایا گیا۔ اصلاحی اقدامات سے حاصل ہونے والی رقم اگلے دس برسوں تک ریٹائرڈ امریکیوں کو رعایتی قیمتوں پر دواؤں کی فراہمی، اسکولوں میں مستحق بچوں کے کھانے، کاربن سے پاک ماحول دوست ایندھن اور رفاہِ عامہ کی دوسری مدات میں خرچ ہونی ہے۔ کانگریس کے نئے اسپیکر مائیک جانسن نے بہت فخر سے کہا کہ اسرائیل کو جو رقم دی جائے گی اس کے لیے نہ نئے ٹیکس لگیں گے اور نہ نوٹ چھاپنے کی ضرورت ہوگی بلکہ IRA فنڈ استعمال کیا جائے گا۔ یعنی ضعیفوں کی صحت داؤ پر لگا کر اور سیاہ فام امریکی بچوں کو بھوکا رکھ کر غزہ کے بھوکوں کو موت کے گھاٹ اتارا جائے گا۔

غزہ میں ہر روز ظلم و سفاکی کا نیا باب رقم ہورہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی بمباروں نے مخیم جبالیہ یا جبالیہ خیمہ بستی پر سفید فاسفورس میں لپٹے تباہ کن بم برسائے۔کیمپ کا مجموعی رقبہ 1.4مربع کلومیٹر ہے جس پر پچاس ہزار افراد پناہ گزیں تھے۔ چنانچہ یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اس آتشیں بارش سے خیمہ مکینوں پر کیا گزری ہوگی۔ لیکن ظالموں کا دل اس پر بھی ٹھنڈا نہ ہوا تو دوسرے روز اِن جلے اور اُجڑے خیموں پر دوبارہ آگ برسادی گئی، ساتھ ہی ایمبولینسوں کے اُس قافلے کو بھی نشانہ بنایا گیا جو زخمیوں کو لے کر اسپتال جارہی تھا۔ اسرائیلی وزیردفاع نے ڈھٹائی سے کہا کہ جبالیہ حماس کا عسکری مرکز تھا۔ اس ظلم پر لیبر پارٹی برطانیہ کے سابق سربراہ جریمی کوربن تڑپ اٹھے اور بولے ”غزہ کی تباہی پر خاموش تماشائی بنے صدر بائیڈن کو شرم آنی چاہیے“۔ کوربن صاحب بھولے ہیں یا انھوں نے سیاسی تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا کہ جناب بائیڈن تماشائی نہیں بلکہ خون کی اس ہولی میں برابر کے شریک ہیں۔ جنگی طیارے، بحری جہاز، بم، میزائل اور توپ کے گولے امریکی ساختہ اور امریکہ کے فراہم کردہ ہیں۔ باقی رہی شرم… تو وہ آنی جانی چیز ہے، آدمی کو بس ڈھیٹ ہونا چاہیے۔

جہاں امریکہ اور اُس کے یورپی اتحادی بلاتکان و شرمندگی اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں وہیں لاطینی امریکہ سے انسانی ضمیر پر دستک کا آغاز ہوگیا۔ چلی اور کولمبیا نے اسرائیل سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلالیا ہے۔ چلی کے صدر جبرائیل بورس (Gabriel Boric) نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزیاں ناقابلِ قبول ہیں۔ کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے X(ٹوئٹر) پر کہا ”اگر اسرائیل نے فلسطینیوں کا قتلِ عام بند نہ کیا تو ہمارا سفیر واپس نہیں جائے گا“۔ بولیویا نے سفیر واپس بلانے کے تکلف میں پڑے بغیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہی منقطع کرلیے۔ وزیرِ صدارتی امور محترمہ ماریا نیلا پرادا نے عجلت میں بلائی گئی اخباری کانفرنس میں کہا ”ہم غزہ کی پٹی پر حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ہزاروں شہریوں کے قتل کے علاوہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا سبب بن رہے ہیں۔بولیویا کے عوام اس ظلم ِعظیم پر خاموش نہیں رہ سکتے۔“

برازیل میں ریو ڈی جنیرو(Rio de Janeiro)کے پُرتعیش Copacabana ساحل پر غزہ قتلِ عام کی یاد میں 120 علامتی کفن پوش لاشے رکھ دیے گئے جن میں سے بعض پر خون ظاہر کرنے کے لیے سرخ دھبے ثبت ہیں۔ چینی کمپنیوں Baiduاور علی بابا نے اپنے آن لائن نقشوں سےاسرائیل کا نام حذف کردیا۔

اردن اور ترکیہ نے بھی اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلالیے ہیں، جبکہ صدراردوان کے مبینہ ”یہود دشمن“(Anti Semitic) رویّے پر اسرائیل، انقرہ سے اپنا سفارتی عملہ پہلے ہی واپس بلاچکاہے۔ بحرین کی قومی اسمبلی نے اسرائیل سے سفیر واپس بلانے کی قرارداد منظور کرلی ہے لیکن اب تک بادشاہ سلامت نے فیصلے کی توثیق نہیں فرمائی۔

اسی کے ساتھ امریکہ میں اسلام مخالف رجحان یعنی اسلاموفوبیا کے کچھ نئے مظاہر سامنے آئے ہیں۔ شکاگو میں ایک 6 سالہ فلسطینی بچے کے قتل کا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں جسے چھری کے 26 کچوکے لگاکر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ گزشتہ ہفتے ہیوسٹن کے مضافاتی علاقے کانرو (Conroe)میں چھری کے وار سے 52 سالہ پاکستانی ماہرِاطفال ڈاکٹر طلعت جہاں خان ڈیڑھ بجے دوپہر بچوں کے سامنے اپنے اپارٹمنٹ کے باہر قتل کردی گئیں۔ یہ ڈکیتی، چوری یا پرس و موبائل چھیننے کے واردات تھی اور نہ کمیونٹی میں بے حد مقبول ڈاکٹر صاحبہ کی کسی سے کوئی دشمنی تھی۔ تاہم پولیس اس لرزہ خیز واردات کواسلاموفوبیا یا hate crimeماننے کو تیار نہیں۔ قتل کے الزام میں 24سالہ سفید فام مائلز جوزف فریڈرک کوگرفتار کیا گیا ہے جسے اس واردات سے پہلے علاقے میں نہیں دیکھا گیا۔

اسی ہفتے ریاست انڈیانا (Indiana) میں ایک ہندوستانی طالب علم پوچا ورون راج (Putcha Varun Raj)کو چھراماردیا گیا۔تلنگانہ سے تعلق رکھنے والا 29 سالہ پوچا راج جامعہ ولپریزو (Valparaiso) سے کمپیوٹر سائنس میں MSکررہا ہے۔ اتوار 29 اکتوبر کو صبح سویرے جب راج معمول کی ورزش کے بعد کسرت کدے (Planet Fitness Gym) سے نکلا تو اسے ایک 24 سالہ سفید فام جورڈن انڈریڈ نے بلا اشتعال سر میں چھرا گھونپ دیا۔ اس بہیمانہ کارروائی کے بعد جورڈن وہیں کھڑا رہا اور پولیس کو بتایا کہ میں اُسے یعنی راج کونہیں جانتا تھا لیکن یہ مجھے little weird (تھوڑا سا عجیب) لگا، اس لیے اسے چھرا گھونپ دیا۔ نفرت و خوف کی اس نفسیاتی کیفیت کو Xenophobia کہتے ہیں۔ یہ واردات بھی غزہ حملے کے بعد امڈ آنے والی اسلاموفوبیا لہر کا شاخسانہ ہے۔ داڑھی کی وجہ سے جورڈن نے راج کو مسلمان سمجھ لیا۔

اس وقت ساری دنیا کی توجہ غزہ پر ہے لیکن موقع سے فائدہ اٹھاکر اسرائیلی حکومت نے غربِ اردن میں معاشرتی و سیاسی تطہیر بلکہ نسل کُشی کا کام تیز کردیا ہے۔ 7 اکتوبر سے اب تک نابلوس، جنین، قلقیلیہ، رام اللہ، تلکرم، اریحا (Jericho)، بیت اللحم، مشرقی بیت المقدس،الخلیل (Hebron)اور غربِ اردن کے مختلف علاقوں سے 1800 فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ فوج کی فائرنگ، ڈرون حملوں اور بمباری سے غرب ِاردن کے مختلف علاقوں میں 130 فلسطینی نوجوان جاں بحق ہوچکے ہیں۔

غربِ اردن کے باشندوں کی زندگی مزید اجیرن بنانے کے لیے حکمران اتحاد نے دینِ صہیون جماعت (Religious Zionist Party) کے زی سکّت (Zvi Sukkot)کو پارلیمان کی غربِ اردن کمیٹی کا سربراہ نامزد کردیاہے۔33 سالہ سکّت اس سے پہلے انتہا پسند جماعت عظمتِ یہود (Utzma Yehudit) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ سکّت صاحب دہشت گردی کے الزام میں تین بار گرفتار ہوئے اور مشکوک و مجرمانہ پس منظر کی بناپر انھیں لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ دے دیا گیاتھا۔ 2010ء میں غربِ اردن کی ایک مسجد نذرِ آتش کرنے کے الزام میں اسرائیلی خفیہ ادارے Shin bet المعروف شاباک کی تحقیق کے بعد سکّت کے خلاف پرچہ کاٹا گیا۔ شاباک نے ان کا اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے اور نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی سفارش کی تھی۔ ایک اور شرانگیزی کہ اعلامیے میں غربِ اردن کمیٹی کے بجائے اسے مجلسِ قائمہ برائے یہوداوالسامرہ (Judea & Samaria) کہا گیا ہے جو سلطنتِ داؤدؑ کا حصہ تھا۔ 1967ء میں ہتھیائے گئے اس علاقے کو اقوام متحدہ اور امریکہ و برطانیہ سمیت ساری دنیا West Bankکہتی ہے، لیکن نیتن یاہو کی حکومت نے مقبوضہ علاقے کو سلطنتِ داؤدؑ کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لیے اسے یہوداوالسامرہ کہنا شروع کردیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ اورذرائع ابلاغ کی غیر مشروط پشتی بانی کے باوجود اب امریکہ کے سلیم الفطرت لوگوں نے بھی ظلم پر آواز بلند کرنی شروع کردی ہے۔ یکم نومبر کو جب امریکی سینیٹ میں وزیرخارجہ انٹونی بلنکن غزہ کے معاملے پر حکومتی مؤقف پیش کرنے آئے تو وہاں موجود عام لوگوں نے ”غزہ جنگ بند کرو“، ”ہمارا ٹیکس بچوں کا خون بہانے کے لیے نہیں ہے“، اور”اسرائیل کی مدد بند کرو“کے نعرے لگائے۔ خواتین نے انھی نعروں پر مشتمل پلے کارڈ بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ وہاں بیٹھے لوگوں نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے جنھوں نے خون کی علامت کے طور پر اپنی ہتھیلیاں سرخ رنگی ہوئی تھیں۔ سیکورٹی گارڈز نے مظاہرین کو باہر نکال دیا۔

اسی اخلاقی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان نے فلسطینی نژاد رکن محترمہ رشیدہ طلیب کے خلاف ملامتی (Censure) قرارداد186 کے مقابلے میں 222 ووٹوں سے مسترد کردی۔ رائے شماری کے دوران ریپبلکن پارٹی کے 23 ارکان نے جماعتی مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے رشیدہ کے حق میں ووٹ دیا۔ تجویز کنندہ محترمہ مارجری ٹیلر گرین نے رشیدہ طلیب کے یہود دشمن (anti-Semitic) رویّے، دہشت گردوں سے ہمدردی اور فلسطین نواز مظاہرے کی آڑ میں امریکی دارالحکومت کو بغاوت سے ہمکنار کرنے کی کوششوں کو اس تحریک کی بنیاد بنایا تھا۔

قتل و خونریزی اور نہتوں کے قتل پر شیخی بگھارنے والے نیتن یاہو کو ملکی محاذ پر بھی مشکلات کاسامنا شروع ہوگیا ہے۔ 4 نومبر کو غزہ میں قید افراد کے لواحقین تل ابیب میں اسرائیلی فوج کے GHQپر خیمہ زن ہوگئے، ان کا کہنا ہے کہ اپنے پیاروں کی واپسی سے پہلے وہ یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ جب وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی Gal Hirschان لوگوں سے بات کرنے آئے تو لواحقین نے انھیں بھگادیا۔یرغمالیوں کو چھڑانے میں ناکامی پرغزہ سے متصل جنوبی اسرائیل کے رئیسِ شہر(Mayor) تامر عیدن وزیراعظم کی لیکڈ پارٹی سے مستعفی ہوگئے۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کی ناکامی لیکڈ اور وزیراعظم کی غفلت کا نتیجہ ہے جس کی ذمہ داری بی بی کو قبول کرنی چاہیے۔

خوفناک بمباری کے باوجود بی بی اور ان کے جنگجو وزیر دفاع مطلوبہ عسکری ہدف حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ لیکن امریکہ و مغرب کی غیر مشروط حمایت و اعانت میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ اب امریکہ کے ڈرون بھی بے گناہوں کے ٹھکانے تلاش کرنے میں اسرائیلی فضائیہ کی مدد کررہے ہیں۔ غزہ سے رابطہ منقطع ہونے کی بنا پر دنیا کی رسائی صرف اسرائیلی فوج کے اعلامیوں تک ہے۔تاہم غزہ سے آنے والے تابوتوں اور زخمیوں کو چھپانا حکومت کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے۔

دلدل میں پھنس جانے کی صورت میں اسرائیلی جنگجو بہت ہی غیر معمولی قدم اٹھاسکتے ہیں۔ اتوار 5 نومبر کی صبح عبرانی ریڈیو کول برما(Kol Brama) پر ایک انٹرویو میں اسرائیلی وزیر ورثہ امیچائی ایلیاہو(Amichai Eliyahu) نے کہا ”(ہمارے پاس) ایک آپشن غزہ کی پٹی پر ایٹم بم گرانا بھی ہے“۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پوری غزہ پٹی پر ایٹم بم گرایا جانا چاہیے؟ تو بولے”غزہ میں نہتے شہری جیسی کوئی چیز نہیں“۔ میزبان نے جب فاضل وزیرباتدبیر کو یادلایا کہ غزہ میں 240 اسرائیلی قیدی بھی ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ تو موصوف نے کہا ”میں ان کی واپسی کے لیے دعا کرتا ہوں اور اچھی امید رکھتا ہوں، لیکن جنگ کی قیمت بھی ہے“۔ جناب ایلیا ہو کا تعلق عظمت ِیہود پارٹی سے ہے، جبکہ کول براما ریڈیو، مذہبی جماعت Shasپارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ شدید تنقید کے بعد بیان واپس لیتے ہوئے جناب ایلیاہو نے فرمایا ”دماغ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ایٹم بم کے بارے میں میرا تبصرہ علامتی تھا۔“
……………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹوئٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔