غزہ انسانی المیہ:فلسطینی مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا ایک ماہ

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگ کو تادم تحریر ایک ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ اس ایک ماہ میں اسرائیل یہ تسلیم کررہا ہے کہ اس کا جانی نقصان ہولوکاسٹ کے بعد سب سے زیادہ ہوا۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس کو اسرائیل کی جنگِ آزادی 1948ء سے تشبیہ دی ہے۔ اس لحاظ سے یہ جنگ ہر دو فریق کے لیے ایک تاریخی جنگ ہے جو کہ اس خطے میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ 1967ء سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مغربی میڈیا یہ دعویٰ کررہا ہے کہ 5 نومبر 2023ء کو ہونے والی بمباری اس جنگ کی ہولناک ترین فضائی کارروائی تھی کہ جس کے بعد غزہ کو دو حصوں شمالی اور جنوبی غزہ میں تقسیم کردیا گیا، جبکہ حماس اور القسام بریگیڈ کے ترجمان اس دعوے کی مکمل نفی کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی فوج کو گھیر لیا ہے اور اب جنگ غزہ میں جاری ہے جس میں صرف 5 نومبر کی رات تک دو درجن سے زائد اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد صرف مغربی میڈیا کے ذرائع کے حوالے سے ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

ایک طرف اسرائیل غزہ میں جنگ میں مصروف ہے اور دوسری جانب یروشلم میں اسرائیلی باشندے اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے مظاہرے کررہے ہیں۔ اس میں میڈیا جھڑپوں کی اطلاعات بھی دے رہا ہے۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ اسرائیلی حکومت پر اپنے باشندوں کی واپسی کے لیے دباؤ شدید ہوگیا ہے اور حکومت اس صورت حال سے اندرونی طور پر نمٹنے اور مظاہرین کو منتشر کرنے یا ان کو یقین دہانی کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔

فلسطینی وزارتِ صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی جانب سے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جس میں چار ہزار سے زائد بچے شامل ہیں۔ ادھر بین الاقوامی برادری بار بار جنگ بندی کے لیے بیانات جاری کررہی ہے۔ اس صورتِ حال میں سب سے نمایاں بیان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور یونیسف کے نمائندے کا ہے جنہوں نے مشترکہ بیان میں جنگ بندی پر فوری طور پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا اور غزہ میں جنم لینے والے سنگین ترین انسانی المیے کی جانب توجہ دلوائی۔ اب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن اچانک مشرقِ وسطیٰ اور اسرائیل کے دورے پر روانہ ہوچکے ہیں، جس میں انہوں نے عراقی وزیراعظم محمد شیعہ السوڈانی سے بغداد میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد عراقی وزیراعظم نے تہران کا رخ کیا جہاں انہوں نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی اور مشترکہ بیان میں کسی بھی ایسی مہم پر آمادگی ظاہر کی جس میں غزہ کے حوالے سے اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل میں مدد مل سکے۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن کا یہ دورئہ عراق دراصل عراق میں امریکی اڈوں پر ہونے والے تین حملوں کے بعد ہوا جس میں خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس میں ایران کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ ادھر دوسری جانب بلنکن نے بھی صاف طور پر کہا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعے کی آڑ میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ بلنکن نے اپنے دورے میں انقرہ کا رخ کیا جہاں انہوں نے ترکیہ کے وزیر خارجہ حکان فدان سے ملاقات کی۔ اس حوالے سے یہ خبر زیر گردش ہے کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے خود اس ملاقات سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ اس کے بعد بلنکن نے مغربی کنارے کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔

خطے میں جاری تنازعے کے حوالے سے یہ ملاقاتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، کیونکہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ چہار جانب سے عوام کا دباؤ مسلم حکمرانوں پر ہے کہ وہ غزہ میں جاری مسلمانوں کی منظم نسل کُشی کو روکنے کے لیے قوت کا استعمال کریں۔ اس حوالے سے پورے مشرقِ وسطیٰ اور ترکیہ میں بھی امریکی سفارت خانوں کے باہر بڑے بڑے مظاہرے کیے جارہے ہیں اور امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ حکمران عوامی دباؤ کو انگیز نہ کرسکے تو لامحالہ کسی نہ کسی طور پر اپنی قوت کو عوام کی امنگوں کے مطابق استعمال کریں گے جس سے نہ صرف امریکی مفادات، بلکہ خود اسرائیل کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اس کا آغاز لبنان میں حزب اللہ اور عراق میں امریکی اڈوں پر حملوں کی صورت میں ہوچکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر ترکیہ اور جنوب مشرقی ایشیا تک میں اب امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن اور برطانوی وزیراعظم رشی سونک کے دورئہ یروشلم کے بعد امریکی اور برطانوی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس وقت برطانیہ میں ایک کے بعد ایک مظاہرے حکومت پر عدم اعتماد کا مظہر ہیں۔ گزشتہ دنوں لندن میں ہونے والے مظاہرے نے جس میں پانچ لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی، برطانوی حکومت کی مشکلات میں شدید اضافہ کردیا ہے، اور اب بروز ہفتہ 11 نومبر 2023ء کو لندن میں ایک اور مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے جس میں ایک ملین لوگوں کی شرکت متوقع ہے۔ حکومت کی جانب سے اس مظاہرے کو نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 11 نومبر 1918ء کو پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ ہوا تھا اور 1919ء سے اس جنگ کے ہیروز کی یاد میں یہ دن برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں منایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران ہی فلسطین سلطنتِ عثمانیہ سے نکل کر برطانوی قبضے میں چلا گیا تھا، اور برطانوی فوج نے 9 دسمبر 1917ء کو عثمانیوں کو شکست دے کر یروشلم پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے بعد سے فلسطین میں یہودی مذہب کے ماننے والوں کی آبادکاری کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس کا حتمی نتیجہ 1948ء میں برطانوی راج کے خاتمے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ ریاست اسرائیل کے قیام سے قبل 1922ء کی مردم شماری میں فلسطین کی کُل آبادی 763,550 تھی جس میں 89 فیصد عرب مسلمان اور 11 فیصد یہودی تھے۔ یہودی آبادکاری کے نتیجے میں 1947ء میں فلسطین کی آبادی میں یہودیوں کی تعداد 31 فیصد تک پہنچ گئی۔ 2023ء کے آبادی کے تخمینے کے مطابق فلسطین کی آبادی 53,71,230 ہے جس میں سے تقریباً 23 لاکھ لوگ غزہ میں بستے ہیں، جبکہ اسرائیل کی کُل آبادی 9 لاکھ 37 ہزار ہے۔

برطانیہ میں مظاہرین سے نمٹنے کے لیے حکومت نے پہلے فلسطینی پرچم پر پابندی کی ہدایات پولیس کو دیں، لیکن لندن میٹرو پولیٹن پولیس چیف مارک رولی نے اسے برطانوی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے وزیر داخلہ سوئیلا براومین کی ہدایت پر پولیس کو عمل درآمد سے روک دیا۔ اس کے بعد گزشتہ ہفتوں میں منعقد ہونے والے مارچ میں الجہاد کے نعرے لگانے والوں کے خلاف وزیر داخلہ نے دوبارہ پولیس کو ہدایات جاری کیں، لیکن پھر لندن میٹرو پولیٹن پولیس چیف آڑے آئے اور انہوں نے کہا کہ جہاد اسلام کا ایک فریضہ ہے، لہٰذا جہاد کا مطلب صرف قتال اور اسرائیلی مخالفت ہرگز نہیں لیا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ان امور پر بھی پولیس کارروائی کرے تو سیاست دانوں کو خود قانون میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

برطانوی سیاست میں 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے بھونچال آچکا ہے۔ ایک جانب عوامی جذبات اور دوسری جانب حکومتی اقدامات ہیں، ان دونوں میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے۔ یہ تفریق محض حکومت تک محدود نہیں بلکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی میں بھی شدید قسم کی تقسیم نظر آرہی ہے۔ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی تقریباً 70 فیصد تعداد لیبر پارٹی کو ووٹ دیتی ہے، تاہم اب لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر کی جانب سے اسرائیل کے حق میں بیانات کے خلاف شروع ہونے والا بھونچال ہر گزرتے دن کے ساتھ لیبر پارٹی کے لیے صورتِ حال کو بدترین بنارہا ہے۔ لیبر پارٹی کے ارکان کی جانب سے یہ دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ پارٹی سربراہ جنگ بندی کے حق میں بیان دیں، لیکن وہ اس سے ابھی تک پہلوتہی کررہے ہیں جس کے نتیجے میں لیسٹر کے بعد اب دوسرے برطانوی شہر برلن لے میں کونسل کے منتخب نمائندے اور برلن لے کونسل میں لیبر پارٹی کے سربراہ افراسیاب انور نے اپنے 10 ساتھیوں سمیت لیبر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پارٹی سربراہ نے غزہ میں جاری انسانی المیے اور قتل و غارت گری روکنے کے مطالبے کے باوجود جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا، لہٰذا وہ اب لیبر پارٹی سے اپنی راہیں جدا کررہے ہیں۔ یہ لیبر پارٹی کو اب تک پہنچنے والا سب سے بڑا دھچکہ ہے۔ اس سے قبل بھی کئی منتخب مسلمان نمائندے غزہ کے معاملے پر پارٹی پالیسی سے اختلاف کے بعد لیبر پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگلے سال برطانیہ میں عام انتخابات کا انعقاد ہوگا جس میں یہ بات اب بہت حد تک واضح ہے کہ برسراقتدار جماعت کنزرویٹو پارٹی کو 15 سال کے بعد شکست کا سامنا ہوگا جس کے بعد امید ہے کہ لیبر پارٹی برسراقتدار آئے۔ لیکن اب لیبر پارٹی کی صفوں میں شدید انتشار ہے اور نہ صرف مسلمان بلکہ لیبر پارٹی کے اراکین کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی حمایت کی پالیسی کے خلاف ہے جس کا اظہار لیبر پارٹی کے تین بڑے رہنماؤں میئر لندن صادق خان، میئر مانچسٹر اینڈی برمن اور اسکاٹ لینڈ میں پارٹی سربراہ انس سرور نے جنگ بندی کے حق میں بیانات دے کر کیا ہے۔ دوسری جانب حکمران کنزرویٹو پارٹی کی سابق وزیر اور صفِ اوّل کی رہنما سعیدہ وارثی بھی کھل کر کنزرویٹو پارٹی کی حکومت اور اسرائیلی حامی پالیسیوں کی شدید مذمت کررہی ہیں اور اس حکومتی پالیسی کو معاشرے میں شدید تقسیم کا باعث قرار دے رہی ہیں۔

اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر (وزیراعظم) حمزہ یوسف کے ساس، سسر جوکہ غزہ میں محصور تھے اب غیر ملکی شہریوں کہ جن کے پاس مغربی ممالک کی شہریت تھی، کو غزہ سے رفاہ کراسنگ کے ذریعے مصر منتقلی کی اجازت کے بعد اسکاٹ لینڈ پہنچ چکے ہیں۔ حمزہ یوسف نے اس ضمن میں غزہ کا مقدمہ تفصیل سے نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ کھل کر جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ حمزہ یوسف وہ پہلی برطانوی حکومتی شخصیت ہیں جنہوں نے غزہ کے مہاجرین کو برطانیہ لانے اور ان کے علاج معالجے کی نہ صرف بات کی بلکہ اسکاٹ لینڈ کی حکومت کی جانب سے خود اس کی ذمہ داری لینے کا بھی اعلان کیا۔ اب جبکہ حمزہ یوسف کے ساس، سسر غزہ سے واپس برطانیہ پہنچ چکے ہیں تو اب وہ بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں اور برطانوی میڈیا میں اب اپنوں سے بچھڑ کر آجانے والوں کا تذکرہ بھی ٹی وی اسکرینوں کی زینت ہے۔ اس ضمن میں سب سے مؤثر کردار سوشل میڈیا کا رہا جس نے مغربی میڈیا کی جنگ کے ابتدائی دنوں میں جاری یک طرفہ کوریج کا نہ صرف پانسہ پلٹ دیا بلکہ مین اسٹریم میڈیا کو بھی دونوں طرف کی کوریج پر مجبور کیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی برطانوی اخبار میں غزہ میں جاری انسانی المیے کا تذکرہ ہے۔ برطانوی سیاست و سماج میں اس جنگ کے اثرات بہت دیرپا ہوں گے کیونکہ حکومتی بوکھلاہٹ کے بعد حکومت کی جانب سے آئے روز بیانات، حتیٰ کہ مظاہروں میں لگنے والے نعروں کو اسرائیل مخالف یا یہود مخالف قرار دے کر ان پر کارروائی کا مطالبہ برطانوی سماج پر گہرے نقوش چھوڑ رہا ہے، اور اب خود برطانوی عوام سوشل میڈیا پر ان نعروں کا تجزیہ کرکے حکومتی کارروائی کو اظہارِ خیال کے بنیادی اصول کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ برطانیہ کے مظاہروں میں “From the River to the see

Palestine will be free” کا نعرہ نہایت مقبول ہے اور اب دوبارہ وزیر داخلہ سوئیلا براومین نے اسے اسرائیل کو فنا کرنے کا اعلان قرار دے کر اس نعرے کو لگانے والوں کے خلاف پولیس کو کارروائی کا کہا ہے، تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا مظہر نعرہ ہے کہ جس میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے تحت سمندر کنارے غزہ میں بسنے والوں کو فلسطین کے دوسرے خطے دریائے اردن کے مغربی کنارے تک رسائی اور نقل وحرکت کا حق دینے کا مطالبہ شامل ہے، اور کوئی اس پر پابندی عائد نہیں کرسکتا۔

حکومت اور برطانوی پولیس کی جانب سے قانون کی تشریح کے حوالے سے کشمکش میں اب میڈیا دوبارہ بروئے کار آیا ہے جو چن چن کر لاکھوں کے مظاہروں میں شریک مسلمانوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان مظاہروں کو مسلمانوں کے مظاہرے کا رنگ دیا جائے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مظاہروں میں مسلمانوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ غیر مسلم شرکت کررہے ہیں اور اسٹیج سے لگنے والے نعروں میں بھی کسی مذہب کا کوئی نعرہ شامل نہیں۔ اس سب کے باوجود مغربی میڈیا میں کچھ عناصر اس کو ایک مخصوص رنگ میں پیش کررہے ہیں۔ برطانوی اخبار دی میل آن سنڈے نے صفحہ اوّل پر خبر شائع کی ہے جس میں برطانوی مسلمان ڈاکٹر و کنسلٹنٹ کو جہادی نعرے لگانے والے گروہ کا سرغنہ قرار دیا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود لندن میٹرو پولیٹن پولیس چیف نے اس نعرے کو خلافِ قانون قرار نہیں دیا لیکن ان مظاہروں کی تپش اب برطانوی میڈیا تک بھی محسوس کی جارہی ہے۔ دوسرے برطانوی اخبار دی سنڈے ٹیلی گراف کی 5 نومبر 2023ء کی اشاعت میں صفحہ اوّل پر پھر ایک نعرے کو موضوعِ بحث بنایا گیا اور From river to sea کو اسرائیل کو نابود کرنے کا مشن قرار دیتے ہوئے اخبار نے اس نعرے کو لگانے والے گروہ میں سے صرف ایک مسلمان وکیل کو ٹارگٹ کیا اور اس مسلمان وکیل کی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ایڈوائزری باڈی سے برطرفی کا مطالبہ بھی کیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ برطانوی میڈیا جوکہ دنیا بھر میں اپنی پالیسیوں کے باعث ایک منفرد مقام رکھتا تھا اس تنازعے میں ایک فریق کا کردار ادا کررہا ہے۔ تاہم یہ صورت حال پورے میڈیا کی نہیں ہے، لیکن فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کا خیال ہے کہ ان کو میڈیا میں ان کے حق کے مطابق کوریج نہیں دی جارہی ہے۔

میڈیا، سیاست اور سماج تینوں میں اس جنگ کے بعد شروع ہونے والی تقسیم اب شدت اختیار کررہی ہے، اور شاید یہ برطانوی سیاست میں پہلا موقع ہے کہ دونوں جانب یعنی اپوزیشن اور حکمران جماعت میں بھی تقسیم نمایاں ہے۔ حکومت کی پالیسیوں نے سماج کو مکمل طور پر تقسیم کردیا ہے۔ اب وہ لوگ بھی کھل کر حکومتی اقدامات پر تنقید کررہے ہیں جوکہ اس سے قبل کے برطانوی حکومت کے تنازعات میں خاموش تھے۔ برطانوی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت جنگ بندی کی اپیل نہ کرکے غزہ میں جاری کشت و خون میں کسی نہ کسی طور پر شریک ہے۔ اس جنگ کا انجام جو بھی ہو، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اس جنگ کے برطانوی سیاست، سماج اور حکومت پر سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں، اور اب یہ کوئی راز نہیں کہ اس جنگ کے اثرات آئندہ الیکشن اور حکومت سازی پر بھی ہوں گے، کیونکہ اگر مسلمان ووٹرز کی اکثریت نے لیبر پارٹی کی پالیسیوں کی وجہ سے اس کو ووٹ نہ دیے تو کم از کم 30 نشستوں پر پارٹی کو شکست کا سامنا ہوگا جوکہ گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔