اردو ادب میں افسانہ وہ مختصر کہانی (Short Story) کہلاتی ہے جو مختصر اور مؤثر ہونے کے ساتھ دلچسپی لیے ہوئے ہو۔ یہ 19 ویں صدی میں مغربی ادب کے زیراثر انگریزی سے اردو ادب میں آئی اور یہاں آکر اس نے اپنی الگ شناخت اور پہچان بنائی۔ افسانے میں کہانی سنانے یا کہنے والا سامنے نہیں ہوتا لیکن وہ فنی اور پیشہ ورانہ مہارت بروئے کار لاکر اسے ایسے انداز اور اسلوب میں پیش کرتا ہے جو پڑھنے والے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ افسانہ دراصل قصہ کہانی کی تدریجی شکل ہے۔ اس کی پیش کش ایسی ہوتی ہے جو قاری کو ابتدا سے اختتام تک اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور گہرا نفش اور تاثر قائم کرتی ہے۔
اردو ادب میں کئی دبستان سامنے آئے جن میں ترقی پسند ادب اور اسلامی یا مقصدی ادب سرفہرست ہیں۔ اسلامی ادب کے معماروں میں ماہرالقادری، نعیم صدیقی، جیلانی بی اے، اسعد گیلانی، محمود فاروقی اور م۔ نسیم معروف ہیں۔ اسی طرح موجودہ دور میں اسلامی ادب کی آبیاری میں حافظ محمد ادریس کا نام سرفہرست ہے۔ حافظ محمد ادریس کے افسانے نظریاتی اور مقصدی افسانے ہیں، وہ مقصدی ادب کے قائل ہیں اور اسی کے فروغ کے لیے کوشاں و سرگرم عمل۔
حافظ محمد ادریس کے قلم میں روانی بھی ہے، بے ساختگی اور شائستگی بھی۔ وہ سادہ اور سہل انداز میں افسانے لکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں ’’سرسوں کے پھول‘‘، ’’دخترِ کشمیر‘‘ اور ’’ناقہ بے زمام‘‘ شامل ہیں۔
’’ناقہ بے زمام‘‘ میں شامل افسانے عالمی اور قومی تناظر لیے ہوئے ہیں۔ یہ پہلی بار 1983ء میں اور پھر 2005ء میں چار بار زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئے اور اب پانچویں بار انہیں قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے عمدہ گیٹ اپ، کمپوٹر کمپوزنگ اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
حافظ محمد ادریس کے افسانے ہمارے اردگرد جنم لینے والی کہانیوں پر مبنی ہیں جن کے کردار جانے پہچانے اور دیکھے بھالے ہوتے ہیں، اور ان کے مکالمے سادہ، بے ساختہ اور تصنع سے پاک ہوتے ہیں۔
ناقہ بے زمام 17 افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ افسانے بنیادی طور پر خیر و شر کی کش مکش کو نئے اسلوب اور پیرائے میں پیش کرکے خیر اور نیکی کا علَم بردار بننے کا خوگر بناتے ہیں۔ ناقہ بے زمام کا پہلا افسانہ ’’ڈاکٹریٹ‘‘ ہے جس میں معاشرے میں قتل و غارت گری اور انتقام کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس کے لیے سفر کی مشقت اور تکلیف گوارا کرتے ہیں۔ افسانہ ’’بانگ‘‘ دراصل تقسیم برصغیر کے عالمی انسانی المیے سے جنم لینے والی کتنی ہی کہانیوں اور کرداروں کا عکاس ہے۔ اس میں ایک ایسے کردار کو ظالم کے روپ میں پیش کیاگیا ہے جو اپنے ظلم سے تائب ہوکر نیکی کی راہ پر چلتا ہے۔ ’’ایک سوال‘‘ جاگیردارانہ نظام اور اس کی سفاکی کو بے نقاب کرتا ہے جس میں ایک ذہین طالب علم ’مقبول‘ ڈاکو بن جاتا ہے، اور اپنے معاشرے سے سوال کرتا ہے کہ یہ نظامِ جاگیرداری کا شکنجہ کب ٹوٹے گا اور انسانیت کب سکون کا سانس لے سکے گی؟
ناقہ بے زمام کے تمام افسانے ہی قابلِ قدر نظریاتی موضوعات لیے ہوئے ہیں۔ ان افسانوں سے پھوٹنے والی روشنی خیرو شر کی کش مکش کو انگیخت کرکے قاری کو جدوجہد اور جستجو کا خوگر بناتی ہے۔ ایک ایسی جدوجہد جو معاشرے کو بدلے اور ایک ایسا نظام تشکیل پائے جس میں انسانوں کے دکھ درد کا مداوا ہو، اور یہی ان افسانوں کا حاصل ہے۔
حافظ محمد ادریس نے ان افسانوں کے ذریعے اس نظریے کی آبیاری کا بیڑا اٹھایا ہے جو دراصل ان کی زندگی کا نظریہ اور ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ناقہ بے زمام کا تعارف معروف شاعر پروفسیر امان اللہ خاں، آسی ضیائی رام پوری اور پیش لفظ کمال الدین کمال سالارپوری کا لکھا ہوا ہیٖ۔ حافظ صاحب نے تو اپنا دل جلاکر سرعام رکھ دیا ہے، اب جس کا جی چاہے وہ اس سے روشنی پالے، کہ داعیانہ زندگی اور داعی کا یہی مزاج ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کےقدیم رکن تہور علی جہانداری کی رحلت
جماعت اسلامی کے قدیم اور دیرینہ رکن تہور علی جہانداری طویل عمر گزار کر وفات پاگئے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا جماعت اسلامی تھا۔ وہ مرتے دم تک تحریک کے وفادار رہے۔ ان کی نمازجنازہ وصیت کے مطابق فاروقی مسجد سعود آباد میں ادا کی گئی جو امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے پڑھائی۔