(دوسرا اور آخری حصہ)
یہاں ایک واقعے کا ذکر کرنا غیر ضروری نہیں ہوگا۔ میں اس کا عینی شاہد تو نہیں ہوں مگر انصاری صاحب کے پاس موجود چند افراد سے میں نے معلوم کیا تو انہوں نے اس واقعے کی تصدیق کی تھی۔ یہ واقعہ قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پیش ہونے کے وقت کا ہے کہ کراچی میں سعید منزل کے سامنے واقع انصاری صاحب کی قیام گاہ پر ایک دن مغرب کی نماز کے بعد ایک سفید ریش بزرگ تشریف لائے اور انصاری صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ حرم کعبہ میں رسالت مآبؐ تشریف فرما ہیں اور سامعین میں سے کسی نے پاکستان میں ختمِ نبوت پر ہونے والے حملوں کی طرف متوجہ کیا، جس پر رسالت مآبؐ نے آپ کا نام لے کر کہا کہ ’’کہاں ہے ظفر احمد‘‘ تو آپ کھڑے ہوگئے، آپؐ نے فرمایا کہ ’’جائو اس مسئلے کو حل کرو۔‘‘ اور یہ کہتے ہی وہ بزرگ الٹے پائوں واپس تشریف لے گئے۔ وہاں موجود ایک صاحب ان کے پیچھے دوڑے تو وہ نظر نہیں آئے۔ اس کے بعد انصاری صاحب کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے اور وہ وضو کرنے کے بعد مصلے پر سجدہ ریز ہوگئے۔
انصاری صاحب ہمیشہ یہ بات کہا کرتے تھے کہ اگر آپ کی جیب میں اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے نوکری کی درخواست، پلاٹ، پرمٹ کی فائل موجود نہ ہو تو آپ پاکستان کے مفاد کے لیے کسی کے پاس بھی جا سکتے ہیں اور اس کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انصاری صاحب نے زندگی بھر اپنا یہی مسلک رکھا جس کی وجہ سے اللہ نے انہیں ہمیشہ سرخ رو کیا۔ انہوں نے کسی حکمران سے نہ کبھی پلاٹ پرمٹ لیا اور نہ کوئی منصب و عہدہ طلب کیا۔
انصاری صاحب 1970ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والے اُن چند ارکانِ قومی اسمبلی میں سے تھے جنہوں نے ارکانِ قومی اسمبلی کے لیے اسلام آباد میں پلاٹ حاصل کرنے کا استحقاق ہونے کے باوجود پلاٹ نہیں لیا تھا۔ انصاری صاحب کے علاوہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ارکان نے بھی کوئی پلاٹ نہیں لیا تھا۔
مولانا انصاری نے 1970ء کی اسمبلی میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے اُن ارکان کو جو حکومت کے دبائو کے باوجود سرکاری پارٹی میں شامل ہونے پرآمادہ نہیں ہوئے تھے‘آزاد گروپ کی حیثیت سے متحد کرنے کی تگ و دو کی اور متفقہ طور پر سردار شیر باز مزاری کو اس کا سربراہ منتخب کیا۔ آزاد گروپ نے قومی اسمبلی کی دستور ساز کمیٹی کے لیے اپنا نمائندہ متفقہ طور پر انصاری صاحب کو چنا۔
انصاری صاحب کو 1954ء اور 1956ء کے دستور کی تیاری میں بورڈ آف تعلیمات کے سیکرٹری کی حیثیت سے جو تجربہ ہوا تھا وہ 1973ء کے دستور کی تیاری میں تمام گروپوں میں افہام و تفہیم پیدا کرنے میں نہایت کارگر ثابت ہوا۔ جب ایک مرحلے پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سانحۂ لیاقت باغ راولپنڈی (جس میں متحدہ حزبِ اختلاف کے ہونے والے جلسے میں حکومتی سرپرستی میں گولیاں برسائی گئی تھیں جس سے بے شمار کارکن شہید ہوگئے تھے اور ان کی بڑی تعداد عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کی تھی) کے بعد کشیدگی اور تلخی کے باعث دستور سازی کے کام میں تعطل پیدا ہوگیا تھا جسے دور کرنے میں انصاری صاحب کا تجربہ کام آیا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ اگر دستور مکمل نہ ہوا تو آپ کا اپنے اقتدار کا جواز بھی باقی نہیں رہے گا، یہ آپ کے اپنے اور قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ دستور سازی کا کام جلدازجلد مکمل ہو، اور اس کے لیے حزبِ اختلاف سے بات چیت کرنے میں پہل آپ کو کرنا ہوگی۔ بھٹو مرحوم نے اُن کی اس تجویز کو قبول کیا اور حزب اختلاف سے بات چیت کی، جس کے نتیجے میں حزب اختلاف نے بھٹو کی تجویز کو قبول کرکے مثبت جواب دیا اور یوں دستور سازی کا کام جہاں پر رکا تھا وہیں سے دوبارہ شروع ہوگیا۔ انصاری صاحب کی اس خدمت کا اعتراف حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں نے ہی کیا۔
ملک کے پہلے وزیراعظم شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان کے زمانے میں اسمبلی کے قائم کردہ بورڈ آف تعلیماتِ اسلامیہ کو 1954ء کے دستور کے ساتھ ہی ملک غلام محمد نے دفن کردیا تھا۔ تاہم انصاری صاحب اور 1956ء کے دستور کے خالق وزیراعظم چودھری محمد علی کے درمیان پہلے سے تعلقات کی وجہ سے چودھری محمد علی صاحب نے انصاری صاحب کی خدمات سے استفادہ جاری رکھا۔
یہاں بورڈ آف تعلیماتِ اسلامیہ کے ارکان کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ بورڈ آف تعلیماتِ اسلامیہ کا صدر علامہ سید سلیمان ندوی کو بنایا گیا تھا۔ وہ اگرچہ آل انڈیا مسلم لیگ میں باقاعدہ شامل تھے تاہم ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ کی تصنیف کی مصروفیات کے باعث وہ 1947ء میں پاکستان نہیں آئے تھے اور دارالمصنفین اعظم گڑھ (بھارت) میں ہی مقیم تھے۔ ان کو صدر بنایا گیا تو انصاری صاحب نے انہیں پاکستان آنے پر آمادہ کیا۔ بورڈ آف تعلیمات کے دیگر ارکان میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ، ڈاکٹر حمیداللہؒ (پیرس والے)، پروفیسر عبدالخالقؒ، مفتی جعفر حسین مجتہدؒ اور ظفر احمد انصاریؒ شامل تھے۔
یہاں یہ ذکر بھی مناسب ہوگا کہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی اور انصاری صاحب کے درمیان حد درجہ اعتمادکا رشتہ تھا، اسی لیے جب آل انڈیا مسلم لیگ نے یہ فیصلہ کیا کہ جمعیت العلمائے ہند کوجس کی سربراہی اُس وقت حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے پاس تھی، پاکستان کی حمایت پر آمادہ کیا جائے تو مولانا انصاری اس کام کے لیے دیوبند گئے اور علامہ شبیر احمد عثمانی کے یہاں قیام کیا جس کو مخفی رکھا گیا تھا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی دارالعلوم دیوبند میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی حمایت میں علماء کو قائل کرنے کی کوششیں اور کاوشیں کررہے تھے۔ علماء کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کی ذات کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے گئے تھے ان پر علامہ شبیر احمد عثمانی کو علماء کے اجلاس میں کہنا پڑا کہ اس کے جواب کے لیے میں انصاری صاحب کو جو میرے ہاں مہمان کے طور پر مقیم ہیں، کل اپنے ساتھ اجلاس میں لے آئوں گا۔
انصاری صاحب سوچ میں پڑ گئے کیوں کہ ابھی تک انہوں نے اپنی آمد کو اخفا میں رکھا ہوا تھا۔ تاہم انہوں نے علامہ صاحب سے پوچھا کہ وہاں کیا معاملات ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ عشاء کی نماز اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم اجلاس میں جاتے ہیں اور فجر کی اذان سے ذرا پہلے اجلاس ختم ہوتا ہے۔ انصاری صاحب اگلے دن اجلاس میں شریک ہوئے اور وہاں اٹھائے گئے سوالات سنتے رہے۔ اجلاس ختم ہونے سے پانچ منٹ پہلے انہوں نے کہا کہ میں آپ حضرات کا مشکور ہوں کہ اس ناچیز کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی، میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ جو سوالات تھے اُن کے جوابات تو علامہ شبیر احمد عثمانی دے چکے ہیں۔ جو دو سوالات قائداعظم اور لیاقت علی خان کی ذات سے متعلق ہیں ان پر عرض یہ ہے کہ قائداعظم اگر بمبئی میں ہوں تو نمازِ عید بمبئی کی معروف عیدگاہ میں ادا کرتے ہیں جس کی امامت مولانا عبدالعلیم صدیقی کے بڑے بھائی مولانا نذیر احمد خجندی کرتے ہیں (جو کہ مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا تھے۔ واضح رہے کہ رتی بائی نے قائداعظم سے نکاح سے پہلے مولانا نذیر احمد خجندی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا)۔ جہاں تک عام نمازوں کا معاملہ ہے توکبھی میری قائداعظم سے نمازوں کے اوقات میں ملاقات نہیں ہوئی۔ عام طور سے مسلم لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس صبح 9 بجے شروع ہوکر ظہر کی نماز سے قبل ختم ہوجاتے ہیں۔ اور رات کو جو اجلاس ہوتے ہیں وہ عشا کی نماز کے بعد ہوتے ہیں۔ البتہ خان لیاقت علی خان کے ساتھ میرا زیادہ وقت گزرتا ہے۔ میں اُن کے ساتھ بہت مرتبہ سفر میں رہا، ان کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ نماز باقاعدگی سے ادا کی۔ البتہ رات کو وہ دیر سے سوتے ہیں۔ سفر میں صبح اٹھتے ہی پہلا کام فجر کی نماز کی ادائیگی، اس کے بعد تلاوتِ قرآن پاک کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی دیگر مصروفیات ہوتی ہیں۔
جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے میں دونوں کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کبھی ان حضرات نے میرے سامنے شراب نہیں پی۔ اگر آپ کی مسلم لیگ کی حمایت کے لیے یہی شرط ہے تو پھر آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ نجوا (تجسس) کرنے کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ اگر آپ اس کی ذمہ داری لیتے ہیں تو میں جاتا ہوں اور دونوں حضرات سے معلوم کرکے آپ کو جواب دے سکتا ہوں۔ اس پر علامہ شبیر احمد عثمانی نے کہا کہ میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس کے بعد جن علما کو مسلم لیگ کے مؤقف پر شرح صدر حاصل ہوا انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ (اور اس کی وجہ سے انہیں دارالعلوم دیوبند چھوڑ کر ڈھابیل سورت میں جاکر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔)
مولانا ظفر احمد انصاری کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ غیر منقسم ہندوستان میں اخوان المسلمین کے بانی حسن البناء شہید کے مجاز نمائندہ تھے۔ انصاری صاحب کی کاوشوں سے ہی جب قائداعظم قیام پاکستان سے قبل لندن سے واپسی پر مختصر وقت (ٹرانزٹ) کے لیے قاہرہ ائرپورٹ پر اترے تو مفتی اعظم فلسطین امین الحسینیؒ نے بذاتِ خود اور حسن البناء شہید کے نمائندے نے ان کا استقبال کیا۔ بعدازاں دوسری بار لندن سے واپسی پر کچھ وقت کے لیے قاہرہ میں رکے تو مفتی اعظم فلسطین اور حسن البناء شہید بذاتِ خود اپنے رفقا کے ساتھ ائرپورٹ پر موجود تھے۔ حسن البناء شہید نے قائداعظم کو قرآن پاک کا تحفہ پیش کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کے دوٹوک فیصلے کا بھی اعلان کیا۔ بعدازاں ہندوستان سے جمعیت علمائے ہند کا ایک وفد حسن البناء شہید اور مفتی اعظم فلسطین سے ملاقات کے لیے قاہرہ آیا اور انہوں نے ان دونوں بزرگوں سے حصولِ پاکستان کی حمایت سے دست بردار ہوکر جمعیت العلمائے ہند کے مؤقف کی تائید حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی، مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حسن البناء شہید نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم پاکستان کے حصول میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوں گے۔
قراردادِ مقاصد کا مسودہ تیار کرنے میں علامہ شبیر احمد عثمانی جو خود پارلیمنٹ کے رکن تھے، کی کاوشوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری اور نواب زادہ لیاقت علی خان کے درمیان اعتماد کا جو رشتہ تھا اس نے قرارداد کی منظوری کے مراحل مکمل کرنے میں آسانی پیدا کی۔ اب یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ قراردادِ مقاصد کا انگریزی ڈرافٹ انصاری صاحب نے ہی تیار کیا تھا۔
یاد رہے کہ مولانا مودودیؒ اُس وقت ملتان جیل میں قید تھے۔ قراردادِ مقاصد پر مولانا کی تائید حاصل کرنے کے لیے مولانا انصاری نے ملتان جیل میں مولانا مودودیؒ سے ملاقات کی اور ان کی تائید حاصل کی۔ اسی طرح 31 علماء کے 22 نکات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ان کی کاوشوں کا بڑا دخل ہے۔ پہلے مرحلے پر انہوں نے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو اس اجلاس میں شرکت کے لیے آمادہ کیا جو کراچی میں مزار قائد کے سامنے حاجی مولابخش سومرو کی قیام گاہ پر منعقد ہوا تھا۔ اس کے لیے وہ ڈھاکہ گئے اور مسلم لیگ کے رہنما مولانا راغب احسن کو راضی کیا، جس کے بعد ہی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دیگر علماء اجلاس میں شرکت کے لیے مولانا راغب احسن کے ساتھ کراچی آئے۔
مولانا انصاری کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ تمام مکاتبِ فکر (بشمول فقہ جعفریہ) کے علماء کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ علماء کے 22 نکات کی تیاری کے دوران شیعہ علماء کا وفد جو مفتی جعفر حسین مجتہد اور حافظ کفایت حسین مجتہد پر مشتمل تھا، اپنا مسودہ لے کر آیا تھا جس کو باقی مکاتبِ فکر کے علماء نے بلا کم و کاست منظور کرلیا تھا۔ اگلے دن یہ حضرات ایک دوسرا مسودہ لے کر آئے تو وہ بھی منظور ہوگیا، لیکن تیسرے دن جب یہ تیسرا مسودہ لے کر آئے تو دیگر علماء کا مؤقف یہ تھا کہ آپ کا پہلا مسودہ ہی جامع تھا جو آپ کے تمام تحفظات کا احاطہ کرتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے مسودے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ جس پر ان بزرگوں نے کہا کہ ہماری جماعت کا یہ اصرار ہے کہ انہیں شامل کیا جائے۔ اس کے بعد تعطل پیدا ہوا اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے یہ تجویز پیش کی کہ انصاری صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی جائے جو ان کی جماعت کے سربراہ سے جاکر گفت و شنید کے ذریعے مسئلے کو حل کرے۔ تاہم بعد میں مولانا انصاری پر مشتمل ایک رکنی کمیٹی پر اتفاق ہوا۔ اگلے دن مفتی جعفر حسین مجتہد اور حافظ کفایت حسین، انصاری صاحب کو آغا آیت اللہ حاجی مرزا مہدی پویا یزدی کی قیام گاہ پرلے کر گئے جہاںانصاری صاحب نے نماز اور کھانے کے وقفے کے سوا پورے نو گھنٹے ان کی گفتگو سنی، اس کے بعد انصاری صاحب نے کہا: ہمارے خیال میں آپ کا پہلا مسودہ بڑا جامع ہے، اس پر آپ دوبارہ غور فرما لیں۔ اگر آپ اُس سے مطمئن نہیں ہیں تو یہ چار جملے لکھ دیے جائیں کہ ’’دستور اور قانون کے تحت پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو وہ تمام حقوق، مراعات اور تحفظات حاصل ہوں گے جو ایران میں سنی مسلمانوں کو حاصل ہیں۔‘‘ یہ سننا تھا کہ آغا پویا صاحب نے بلا تامل پہلے دن کے مسودے کی توثیق کرتے ہوئے اپنے دستخط کیے اور باقی دونوں بزرگوں نے بھی دستخط کردیے، جس کے بعد انصاری صاحب نے دوسرے اور تیسرے دن کے مسودے انہیں پیش کردیے جنہیں انہوں نے خود ہی تلف کردیا۔
مولانا انصاری ہمیشہ کہتے تھے کہ مسائل تکرار سے نہیں تحمل اور صبر کے ساتھ دوسرے کا مؤقف سننے سے حل ہوتے ہیں۔ اور اللہ کی اس حکمت پر ہمیشہ غور کرو کہ اللہ نے آنکھیں اور کان دو‘ دو دیے ہیں اور زبان ایک۔ اللہ کی کوئی چیز حکمت و دانائی سے خالی نہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ان سے بڑا صبر و تحمل کے ساتھ دوسرے کی بات سننے والا سامع نہیں دیکھا۔
انصاری صاحب سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی مایوسی کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم کے درمیان حالات اتنے کشیدہ ہوگئے ہیں کہ بھٹو صاحب نے سردار عبدالقیوم کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ خوش قسمتی سے انصاری صاحب اُس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے اسلام آباد میں ہی موجود تھے۔ انہیں جیسے ہی اس کا علم ہوا انہوں نے فوراً اسمبلی میں بھٹو صاحب کے چیمبر میں اُن سے ملاقات کی اور کہا کہ ایسا نہ کریں، اس سے کشمیر کاز کو بہت نقصان ہوگا۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ آپ نے مشورہ دینے میں دیر کردی، میں نے تو ان کی گرفتاری کے لیے ہیلی کاپٹر بھی روانہ کردیا ہے۔ انصاری صاحب نے برجستہ کہا کہ ابھی معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ فوراً سردار عبدالقیوم کو پیغام دیں کہ میں ہیلی کاپٹر بھیج رہا ہوں، آپ ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ اور دوسرا پیغام اُن کو دیں جنہوں نے انہیں گرفتار کرکے لانا ہے کہ وہ سردار عبدالقیوم کو مہمان کے طور پر لے کر آئیں۔ اس طرح ایک ناخوشگوار واقعہ ہونے سے بچ گیا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو پاکستان کے دشمن اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرتے۔
انصاری صاحب کی ایک بڑی خدمت یہ تھی کہ انہوں نے بھٹو کو جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کے خلاف اقدام سے باز رکھا۔ بھٹو صاحب نے انصاری صاحب سے اپنی پہلی ملاقات میں ہی جماعت اسلامی کا نام لے کر کہا تھا کہ ’’میں جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کو اپنی مخالفت کا مزا چکھائوں گا۔‘‘ (واضح رہے کہ 1970ء کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو پنجاب اور سندھ میں جہاں جہاں سے بھی کھڑے ہوئے تھے، کامیاب رہے سوائے صوبہ سرحد کے، جہاں مفتی محمود کے مقابلے میں وہ شکست کھا گئے۔) انصاری صاحب بھٹو کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ان کا اصل ہدف قادیانی اور بائیں بازو کے لوگ ہونے چاہئیں۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوںکو اقتدار میں لانے کے لیے جن مقاصد کی خاطر کامیاب کرایا تھا‘ ان مقاصد کے پورے ہونے کے بعد ان کا اگلا ہدف خود بھٹو کی ذات ہوگی۔ دینی جماعتوں کی تو اسمبلی میں محض چند نشستیں تھیں، اس کے برعکس قادیانیوں اور بائیں بازو کے لوگوں کا اثر رسوخ بے پناہ تھا۔
مولانا چار بہن بھائی تھے۔ بڑے بھائی مظہر حسین انصاری اور ان کی دونوں بہنوں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دونوں بہنوں کا انتقال ہندوستان میں ہی ہوگیا تھا۔ البتہ بڑے بھائی مظہر حسین جو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں بطور ٹرانسلیٹر ملازم تھے، قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ وہ انصاری صاحب سے پانچ یا چھے برس بڑے تھے۔ بڑے بھائی اور مولانا انصاری کی اہلیہ سگی بہنیں تھیں۔ انصاری صاحب کے بچے اپنے تایا کو ’’ابا‘‘ اور تائی کو ’’اماں‘‘، جب کہ انصاری صاحب کو ’’چچا‘‘ اور والدہ کو ’’آپا‘‘ کہتے۔
مولانا کے بڑے بھائی پاکستان آکر زیادہ دن حیات نہیں رہے اور ان کا 56 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ انصاری صاحب کی اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور چھوٹے بیٹے ظفر اشفاق انصاری کا انتقال ہوچکا ہے، جب کہ ڈاکٹر ظفر آفاق انصاری امریکہ میں مقیم ہیں۔ انصاری صاحب کی تینوں بیٹیوں اور ڈاکٹر آفاق انصاری اور ظفر اشفاق انصاری کا نکاح مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے پڑھایا۔ انصاری صاحب اور مفتی شفیع صاحب کے خاندان کے درمیان بڑا گہرا تعلق ہے جو ان کے انتقال کے بعد آج بھی برقرار ہے۔ انصاری صاحب کی اہلیہ اور ان کے چھوٹے بیٹے ظفر اشفاق انصاری کی نمازِ جنازہ مفتی محمد رفیع عثمانیؒ (فرزند مفتی محمد شفیعؒ) نے پڑھائی۔
انصاری صاحب کے پاس کتنے ہی بچے گھریلو کام کاج کے لیے آئے۔ انہیں انصاری صاحب نے خود اور اپنے بچوں کے ذریعے ابتدائی تعلیم دلوائی اور اپنے گھر رہتے ہوئے انہیں مزید تعلیم کے لیے اسکولوں میں داخل کروایا۔ نام تو بہت سے ہیں مگر جگہ کی قلت کے باعث ایک شخص کا ذکر کروں گا جسے میں نے خود دیکھا ہے۔ بشیر احمد ہاشمی ملتان کے قریب عبدالحکیم شہر سے اپنی سوتیلی والدہ کے رویّے سے تنگ آکر کراچی بھاگ آئے تھے اور بندر روڈ پر معروف تاج ریسٹورنٹ میں ویٹر کے طور پر کام کرنے لگے تھے۔ ریسٹورنٹ کے مالکان میں سے ایک حاجی محمد سلمان مرحوم جو دارالعلوم کراچی کی مجلس منتظمہ کے رکن کی حیثیت سے انصاری صاحب کے بہت قریب تھے، اس بچے کو انصاری صاحب کے پاس لے کر آئے اور کہا کہ آپ اسے اپنے پاس رکھ لیں، یہ گھریلو حالات سے تنگ آکر گھر سے بھاگ آیا ہے۔ انصاری صاحب نے اسے میٹرک تک خود پڑھایا، بورڈ کا امتحان دلوایا، اس کے بعد کالج میں داخل کروایا۔ پھر آئی بی اے سے اسے ایم بی اے کروایا اور پھر معروف مالیاتی ادارہ پکک میں سابق وزیراعظم چودھری محمد علی کے ذریعے ملازمت دلوائی، پھر اس کے والد کو خط لکھا کہ اب تمہارا بیٹا اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا ہے اور تم اب اس کی شادی کا انتظام کرو۔ انصاری صاحب خود اس کی شادی میں شرکت کے لیے عبدالحکیم گئے تھے۔ بشیر ہاشمی پکک میں ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
راقم نے انصاری صاحب کی بیٹیوں اور پوتوں، نواسوں کے ساتھ ان کی گھریلو زندگی سے متعلق گفتگو کی تو ان کی بڑی صاحبزادی ملکہ صاحبہ اور دوسری بیٹی سلمیٰ صاحبہ نے بتایا کہ وہ نرم خو اور بچوں کا بے پناہ خیال رکھنے والے تھے۔ بیٹوں کے ساتھ تمام بیٹیوں کو بھی خود پڑھایا اور اسکولوں اور کالجوں میں بھیجا۔ وہ آخر وقت تک اس مؤقف پر قائم رہے کہ بچوں کو دو، دو سال کی عمر میں اسکول بھیجنا درست نہیں ہے بلکہ یہ زمانہ سب سے زیادہ گھر پر بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لیے ضروری ہے اور اس میں ماں اور باپ دونوں کو توجہ دینا لازمی ہے۔ ہمیں بھی انہوں نے بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اسکول کی ابتدائی کلاسوں کی تعلیم گھر پر دی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم جب اسکولوںاور کالجوں میں گئے تو ہماری تعلیمی کارکردگی اُن بچوں سے بہتر تھی جو چھوٹی عمروں سے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے۔
انصاری صاحب لوگوں کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنے میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ کتنے ہی لوگوں نے ان کے یہاں قیام کیا اور بعض قیمتی چیزیں جس میں سب سے قیمتی کتابیں تھیں، انصاری صاحب کے علم میں لائے بغیر لے جاتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک صاحب تھے جو ان کے پاس کسی جاننے والے کے توسط سے آئے تھے اور اپنی بپتا سناتے ہوئے کہا تھا کہ میں بہت تنگ دست ہوں، مجھے یا تو کہیں ملازمت دلوا دیں یا اپنے پاس چھوٹے موٹے کام کے لیے رکھ لیں۔ انصاری صاحب نے کئی جگہ کوشش کی مگر اس میں انہیں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے اس سے کہا کہ جب تک آپ کے لیے کسی ملازمت کا انتظام نہیں ہوتا، آپ میری لائبریری میں کتابیں ترتیب سے رکھنے اور فہرست مرتب کرنے کا کام کریں۔ ان صاحب نے یہ کیا کہ ان کے گھر سے نہ صرف کتابیں چوری کرکے بیچتے رہے بلکہ جب وہ ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھتے تو گھر کی کئی قیمتی چیزیں بھی لے اڑتے۔ اس میں مولانا انصاری کے سمدھی مولانا ناظم ندوی کی وہ قیمتی گھڑی بھی غائب ہوگئی جو سعودی فرمانروا نے انہیں مدینہ یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے تحفے میں دی تھی۔ ان کی اس کارروائی کا انکشاف اس طرح ہوا کہ انصاری صاحب کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری سعودی عرب سے چھٹیوں پر آئے ہوئے تھے، ایک دن وہ صدر میں واقع کیفے ٹیریا کے قریب سے گزرے جس کے باہر ایک صاحب زمین پر پرانی کتابیں بیچ رہے تھے۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے ایک کتاب اٹھائی جس پر انصاری صاحب کے دستخط تھے، دوسری کتاب اٹھائی تو اس پر خود ان کے دستخط تھے۔ اس طرح کی 25 کتابیں وہاں موجود تھیں جو انہوں نے خرید لیں۔ اس پر کتب فروش نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس طرح کی مزید کتابیں چاہئیں؟ ظفر اسحاق نے رضامندی ظاہر کی تو کتب فروش نے کہا کہ ایک صاحب روزانہ پانچ، سات کتابیں لے کر آتے ہیں، باقی تو فروخت ہوگئی ہیں جو بچی ہیں وہ آپ نے خرید لی ہیں، وہ صاحب اب آئیں گے تو میں اُن سے مزید کتابیں لے لوں گا۔
اگلے دن وہ آیا تو کتاب فروش نے اس سے کہا کہ مجھے ان کتابوں کا ایک اچھا خریدار مل گیا ہے۔ تم جتنی چاہو کتابیں لے آئو۔
جس پر اس نے کتاب فروش سے کتابیں خریدنے والے کا حلیہ معلوم کیا اور معلوم ہونے پر وہ سمجھ گیا کہ یہ انصاری صاحب کے بیٹے ظفر اسحاق انصاری ہیں۔ اس لیے وہ روپوش ہوگیا۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کے دوست شاہ حسن اطہر، میں اور ظفر اشفاق انصاری اسے کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئے۔ باہر بٹھا کر ظفر اشفاق نے انصاری صاحب کو اطلاع دی کہ ہم اسے لے آئے ہیں اور اس نے تمام چوری کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ تو انصاری صاحب نے مجھے اور شاہ حسن اطہر کو تو کچھ نہ کہا البتہ اپنے بیٹے ظفر اشفاق انصاری پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا اس کو شرمندہ کرنے کے لیے کیوں پکڑ لائے ہو! ایسا کرو کہ اسے ایک ماہ کی تنخواہ دے کر معذرت کرکے رخصت کردو۔ حالانکہ وہ تین دن قبل ہی اپنی تنخواہ لے چکا تھا۔
میں نے ان کے سب سے بڑے پوتے یاسر اسحاق انصاری سے پوچھا کہ وہ بچوں کے ساتھ کیسے تھے؟ تو انہوں نے مجھ سے دو دن کا وقت مانگا اور اس کے بعد بتایا کہ میں نے اپنے دونوں چچا ڈاکٹر ظفر آفاق انصاری اور ظفر اشفاق انصاری کے بچوں اور اپنی تینوں پھوپھیوں ملکہ، سلمیٰ اور نجمہ کے بچوں کے ساتھ گفتگو کی اور سب نے یہی کہا کہ وہ بچوں کو جس طرح وقت دیتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اپنے تمام نیاز مندوں کی طرح اس ناچیز پر بھی اُن کے بڑے احسانات ہیں۔ میرا انصاری صاحب سے غائبانہ تعارف تو برسوں سے تھا اور ان سے ملاقات کا شرف بھی کئی بار حاصل ہوچکا تھا مگر 1966ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کی حیثیت سے ظفر اسحاق انصاری سے دوستی ہوئی تو وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور انصاری صاحب سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میرا بہت اچھا دوست ہے۔‘‘ اُس دن سے لے کر انصاری صاحب کی زندگی کے آخری سانس تک ان کی عنایات اس ناچیز کو حاصل رہیں۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ مجھے اپنے والدین کے بعد جتنی محبت انصاری صاحب نے دی وہ کہیں اور سے نہیں ملی۔ میرے دوست طارق مصطفی باجوہ صاحب نے بتایا کہ میں جب 1970ء کے عشرے میں امریکہ جانے سے قبل مکہ مکرمہ میں زیر تعلیم تھا تو انصاری صاحب رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں وہاں تشریف لائے تھے۔ ہم روز ان سے ملنے جاتے اور مستفید ہوتے۔ درمیان میں ایسا ہوا کہ دو، تین دن ہم ان سے ملنے نہ جاسکے تو وہ ہماری خیریت دریافت کرنے کے لیے جفالی بلڈنگ کی ساتویں منزل پر چڑھ کر آئے اور پوچھا کہ سب خیریت توہے؟ میں ان کی اس محبت اور شفقت پر حیران رہ گیا۔ واضح رہے کہ انصاری صاحب کی ایک ٹانگ میں لنگ تھا اس لیے چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے تھے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ان کے گھٹنے کے بائیس آپریشن ہوئے تھے لیکن کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ سیڑھیاں چڑھنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔
ماہرالقادری صاحب نے کہا تھا کہ اللہ نے انصاری صاحب کو ہی قناعت کی دولت سے سرفراز نہیں کیا بلکہ ان کے بچوں اور بچیوں کو بھی علم کی دولت سے نوازا اور اعلیٰ سیرت و کردار کا حامل بھی بنایا۔